نقشہ ِکشمیر یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا
اس ’’سالگرہ‘‘ کے موقعے پر پاکستان نے بھی جو کر سکتا تھا وہ کیا، اورپاکستان کا نیا نقشہ جاری کر دیا۔
بھارت نے گزشتہ سال 5اگست کو کشمیر کے حوالے سے ایک قانون پاس کیا اور برسوں پرانی شقوں کو قانون سے نکال باہر پھینکا، جس کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں عام بھارتی بھی جگہ خرید سکے گا، اس کے بعد ممکنہ احتجاج کے پیش نظر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی اور وحشیانہ لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا۔
بھارت کے اس اقدام کو اگلے روز ایک سال ہوگیا، بھارت اس ناپاک عزم میں کامیاب رہا، کیوں کہ اس نے بزور طاقت ناصرف کشمیریوں کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچایا ، بلکہ پاکستان کو بھی کسی نہ کسی طرح دباؤ میں رکھا، تاکہ وہ کشمیریوں کے بارے میں کھل کر حمایت نہ کرسکے۔
اس ''سالگرہ'' کے موقعے پر پاکستان نے بھی جو کر سکتا تھا وہ کیا، اورپاکستان کا نیا نقشہ جاری کر دیا۔ اس نقشے اور پاکستان کے پرانے نقشے میں فرق یہ ہے کہ پرانے نقشے میں جموں کشمیر کو Doted لائن سے ظاہر کرتے تھے لیکن اب یہ نقشہ خالص طور پر پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جونا گڑھ، سیاچن، سرکریک اور لداخ کو پاکستان کا علاقہ قرار دے کرجنوبی ایشیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔پاکستان کے اس اقدام پر اس وقت ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے، بہت سے لوگ اسے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کی '' یکطرفہ'' کوشش قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ لوگ اسے عالمی سطح پر پاکستان کی ایک اہم کوشش قرار دے رہے ہیں۔
حقیقت میں ''نقشہ سیاست'' آج کی نہیں بلکہ بہت پرانی سیاسی تدبیر ہے، اسے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں اس قدر استعمال کیا گیا کہ جنگوں میں حصہ لینے والے ہر ملک نے دنیا کا نقشہ اپنے مطابق بنا رکھا تھا۔ سب سے پرانا نقشہ جو جغرافیائی سائنسدانوں کو ملا ہے وہ زمین کے بارے میں نہیں بلکہ ستاروں کے بارے میں ہے۔ یہ نقشہ سولہ ہزار پانچ سو برس قبل کا ہے اور یہ ویگا، ڈینیٹ اور الٹائیر ستاروں کے جھرمٹ کو دکھا رہا ہے، اس نقشہ کو حاصل کرنے کے لیے کئی جنگیں ہوئیں، کیوں کہ اسے خوش قسمتی کی علامت سمجھا جا تا تھا۔دوسرا نقشہ 5ہزار سال پرانا نقشہ نئپر شہر کو فتح کرنے سے پہلے کے پلان کو دکھانے کے لیے بنایا گیا۔ یہ مٹی سے بنی تختی پر کندہ کیا گیا نقشہ ہے۔
تین ہزار ایک سو برس پرانا نقشہ جسے رعمیسس چہارم کے زمانے میں تیار کیا گیا، وہ مصر کے علاقے سے ملا ہے۔ یہ نقشہ پیپر پر بنایا گیا تھا اور یہ وادی ہمامات کا علاقہ دکھاتا ہے۔ پھر یونانیوں نے اس پر کام شروع کیا اور دنیا کے نقشے کو بنانے پر غور شروع ہوا۔ 500 قبل مسیح تک یونان علم کا مرکز بن چکا تھا۔ اس وقت زیادہ تر لوگ زمین کو فلیٹ سمجھتے تھے، تاہم یونانی فلاسفر فیثا غورث اور ارسطو وغیرہ نے زمین کا گول ہونا بتایا۔ Eratosthenes نے دو سو قبل مسیح میں زمین کا محیط بھی کیلکولیٹ کیا۔ تاہم نقشہ نویسی میں اصل انقلاب پلوٹومی کی وجہ سے ممکن ہوا۔
اٹھارہ سو برس قبل رومن ایمپائر کے دنوں میں پلوٹومی نے آٹھ والیمز پر محیط کتاب Geographiaلکھی۔ پھر پہلا باقاعدہ نیا نقشہ بنایا گیا جو پوری دنیا کے ممالک کی ترجمانی کرتا تھا، جسے بے بی لونین میپ آف دی ورلڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے بعد کئی متنازعہ نقشے بھی پیش کیے گئے جس میں سے ایک نقشہ اطالوی ماہر طبیعات گلیلیو نے بھی پیش کیا جس پر اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی،گلیلیو نے یہ نقشہ کائنات پر بنایا تھا جس نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم انسان یا زمین کائنات کا مرکز نہیں ہیں۔
نقشے کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بسا اوقات امریکا یا امریکی کمپنیاں عرب ممالک کے نقشے میں فلسطین کو نکال دیتی ہیں اور اس کی جگہ اسرائیل کو بولڈ کر کے لکھتی ہیں۔حالانکہ دنیا کے نقشے پر پانچویں صدی سے بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان موجود علاقے کو مستقل بنیادوں پر فلسطین کا نام دیا گیا تھا۔ انٹرنیٹ کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل نے دنیا کے نقشے سے فلسطین کا وجود مٹا دیا ہے اور نئے نقشے میں جغرافیائی اعتبار سے فلسطین کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے۔جس پر کئی مرتبہ فلسطین میں احتجاج بھی دیکھے گئے ہیں۔
حالیہ تاریخ میں خطے میں ''نقشہ سیاست''کو فروغ ملا ہے، اس کی ابتداء نیپال نے 2ماہ قبل جون میں کی تھی۔ جب نیپالی پارلیمنٹ نے نئے نقشے کی منظوری دی تھی، نئے نقشے میں ان علاقوں کو بھی ملک کا حصہ دکھایا گیا ہے جن پر بھارت کے ساتھ نیپال کے شدید اختلافات اور تنازعات ہیں، تاہم نئی دہلی نے اسے مسترد کرتے ہوئے ''یکطرفہ عمل'' قرار دیا تھا۔ نیپال کی جانب سے یہ نیا نقشہ ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا جب بھارت نے رواں سال مئی میں شمالی ریاست اتر اکھنڈ جانے والی 80 کلومیٹر طویل سڑک کا افتتاح کیا، جو ایک ایسے علاقے سے گزرتی ہے جسے نیپال اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔
اب اسی طریقہ جوابی وار کو پاکستان نے بھی اپنایاہے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی بھارت کو ''سبق'' سکھانے کے لیے پاکستان کا نیا نقشہ جاری کردیا جس پر بھارت نے بالکل ویسا ہی ردعمل دیا جیسا اُس نے نیپال کے نقشے کے حوالے سے دیا تھا۔اب پاکستان کے اس نقشے کے حوالے سے مستقبل قریب میں کیا ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر میرا ذاتی تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ بھارت اس وقت اپنی سرحد کے چاروں اطراف میں جتنی مشکل میں ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ چین اور بھارت کا بھی آپس کا تنازعہ سب کے سامنے ہے، چین اور بھارت کے درمیان سرحد کی لمبائی 3488 کلومیٹر ہے۔
چین 90 ہزار مربع کلومیٹر پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جب کہ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے اس کے 38ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پاکستان بھی بھارت کے ساتھ کئی سرحدی علاقوں کے حوالے سے اختلاف رکھتا ہے جن میں کشمیر، سرکریک اور سیاچن کے علاقے سرفہرست ہیں۔
الغرض یہ ''نقشہ سیاست'' دنیا کا حصہ رہی ہے لیکن بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کے اس نئے نقشے کی اہمیت عالمی سطح پر بھی تسلیم کی جائے گی یا نہیں؟ اس نقشے کو عملی جامہ پہنانے اور اسے عالمی سطح پر تسلیم کروانے کے لیے پاکستان کو ایک طویل، کٹھن اور پریشان کن سفر طے کرنا ہے۔
بھارت اس وقت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ کسی نہ کسی مسئلے پر اُلجھا ہوا ہے، اس لیے اس وقت اسے دبانا آسان ہوگا، اور یہ صحیح وقت ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ مل کر مناسب اور دیرپاحکمت عملی بنائے۔ پاکستان اپنا سیاسی اثرورسوخ بڑھائے جیسے سی پیک جس میں 80فیصد سے زائد معاشی فائدہ چین ہی کو ہوگا، ہم اس بڑے پراجیکٹ کو سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، ہمیں چین کو اس بات پر آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر بھارت کے ساتھ مذاکرات کرے اور اس مسئلے کے حل کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کارروائی کرے ۔ اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ اس پر تھنک ٹینک بٹھائے، جو ریٹائرڈ جرنیلوں، اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس پر مشتمل ہو، جو ایک حقیقی خارجہ پالیسی سامنے لائے۔
اگر موجودہ حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو اس مقصد کے لیے عالمی عدالت سمیت عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ مضبوط بنائے جس سے کوئی حقیقی فائدہ ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ فیصلہ کرنے کا حق صرف کشمیریوں کو ہے کہ آیا وہ پاکستان میں شامل ہوتے ہیں یا اپنی ریاست چاہتے ہیں؟ مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور سے نافذ ہونے والا 35Aکا قانون بھی بھارت نے یک جنبش قلم اپنے آئین سے خارج کردیا۔
اس قانون کے خاتمے سے اب بھارت کے ایک ارب 23کروڑ عوام کشمیر کی حسین وادی کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور یہاں جائیدادوں اور سیبوں کے باغات پر قبضہ جمانے کی فکر میں ہیں ، چند روز پہلے ہی بھارت نے دس ہزار ایکڑ پر مشتمل ایک رقبے کو صنعتی زون کا نام دے دیا ہے ظاہر ہے یہاں پر بھارتی شہری کارخانے اور فیکٹریاں لگانے آئیں گے اور یوں نہ صرف کشمیریوں کی معیشت برباد ہو جائے گی بلکہ ان کی آبادی بھی اقلیت میں تبدیل ہوکر رہ جائے گی، یہی کام اسرائیلیوں نے فلسطین میں کیا۔
پاکستان کے نئے نقشے میں کشمیر کو واضح طور پر ایک ''متنازعہ خطے'' کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ اس کی منظوری یا اس کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرار داد کی روشنی میں ہی کیا جائے گا۔اگر یہ سب کچھ محض پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کیا گیا ہے تو اس کی ضرورت نہیں، ایسے غیردانشمندانہ فیصلے ہم نے سابقہ حکومتوں کے ادوار میں بھی دیکھے ہیں۔ میرے خیال میں خام خیالی باتوں سے ہم محض نقصان اُٹھائیں گے اور ہمیشہ اندھیرے میں رہیں گے، جس کا ہمارے مخالفین فائدہ اُٹھاتے رہیں گے اور میں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے یہ سب سے بہترین وقت ہے جو شاید واپس نہ آسکے!