خودمختار بلدیاتی ادارے کراچی کے مسئلہ کا حل
کراچی کے مسئلہ کا حل نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام میں مضمر ہے۔
پہلے کوڑا اور اب سیوریج کا پانی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ کراچی ضلع وسطی اور شرقی میں گزشتہ دنوں ہونے والی بارش نے تباہی مچا دی۔ باقی اضلاع میں معمولی بارش ہوئی، یوں وہاں کی صورتحال معمول پر رہی۔ اس ہفتہ ہونے والی بارشوں کے بعد کراچی کس حال میں ہو گا وہ نتائج ابھی سے واضح ہیں۔
اس دفعہ وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کے دو اضلاع میں ہونے والی تباہی کو سنجیدگی سے لیا۔ فوج کو مسئلہ کے حل کا ٹاسک دیا۔ قدرتی آفات و وباؤں کے دوران امدادی فرائض انجام دینے والی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (N.D.M.A)کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل افضل کراچی آئے۔
انھوں نے صورتحال کا جائزہ لیا۔ کراچی کے بڑے نالوں کی صفائی کا کام فوج کے ذیلی ادارہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے سپرد کیا گیا، یوں عید الاضحی کی تعطیلات میں نالوں سے کوڑا نکالنے اور کوڑے کو منتقل کرنے کا کام شروع ہوا۔
جنرل افضل نے کہا ہے کہ کراچی کے کور کمانڈر اس معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ کراچی میں صفائی کے مسئلہ کے حل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز، وفاقی اور صوبائی حکومتوں، بلدیہ کراچی اور ڈسٹرکٹ کارپوریشنوں کے اہلکاروں کو ایک منصوبے پر متفق ہونا پڑے گا، اب کور کمانڈر کا دفتر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان رابطہ کا فریضہ انجام دے گا۔ افضل صاحب نے ایک پتہ کی بات کہی کہ دنیا بھر میں بڑے شہروں میں کوڑے سے بجلی بنتی ہے۔ کراچی واحد شہر ہے جہاں کوڑا باعث زحمت بن گیا ہے۔
اخبارات میں شایع ہونے والی اطلاعات کے مطابق عید کے موقع پر لیاری میں گٹر ابل پرے، مکینوں کے گھروں میں پانی داخل ہو گیا۔ لوگوں کو دیگر علاقوں میں جا کر قربانی کرنی پڑی۔ حکومت سندھ کا قائم کردہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کا عملہ آلائشیں اٹھانے میں ناکام رہا۔ ایک صحافی نے کہا کہ صرف بلدیہ کراچی کی حدود میں ہی نہیں بلکہ کنٹونمنٹ بورڈ کے دائرہ میں آنے والی شہری بستیوں میں بھی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ عید کے تیسرے دن دورہ پر نکلے۔ انھوں نے ضلع وسطی میں صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کہاکہ ڈی ایم سی سینٹرل لوگوں کے گھروں اور گلیوں کی صفائی کا کام کرے ورنہ گھر چلی جائے۔ صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ فرائض انجام دینے میں ناکام رہا۔ ان کا مدعا تھا کہ کراچی میں پھر سے قربانی کے جانوروں کی آلائشیں نہ اٹھانے کی شکایات ملی ہیں۔
مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں سندھ میں گورنر راج لگانے اور وفاق کے آرٹیکل 149 کے تحت سندھ کا نظام چلانے کے بارے میں بحث و مباحثہ زور پکڑ گیا۔ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں گزشتہ 10 برسوں سے کوڑے اور صفائی کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ جب سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم ہوا اور جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خاں سٹی گورنمنٹ کے ناظم بنے اور یونین کونسل کی سطح تک اختیارات منتقل ہوئے۔
ہر علاقہ کے کونسلر کے فرائض کا تعین ہوا۔ اس نچلی سطح تک اختیارات کے نظام کی بناء پر کراچی میں کوڑے اور سیوریج کے نظام کا معیار بہتر ہوا۔ پہلی دفعہ شہریوں کو احساس ہوا کہ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں چند گھنٹوں بعد گلیوں اور سڑکوں سے غائب ہوئیں۔ عیدالاضحی کے تین دنوں میں گلی گلی چونے کا چھڑکاؤ ہوا۔ اس دور میں کراچی کے نالوں کی صفائی ہوئی ۔
ایم کیو ایم کے مصطفی کمال ناظم بنے تو انھوں نے دنیا کے بڑے شہروں کی پیروی کرتے ہوئے متوسط طبقہ کی بستیوں میں بڑی سڑکیں تعمیر کیں۔ شہر میں انڈرپاس اور اوورہیڈ بریج کا جال بچھ گیا، یونین کونسل بااختیار ہوئی، صفائی کا نظام بہتر ہوا مگر لیاری اور کراچی کے مضافاتی گوٹھ ترقی کے ثمر سے محروم رہے۔ مصطفی کمال کے دور میں جدید بارشوں سے پاکستان کی معاشی شاہراہ آئی آئی چندریگر روڈ دریا میں تبدیل ہو گئی۔ پھر اس روڈ کی دوبارہ تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک انجنیئر نے انکشاف کیا کہ اس نے ایک نالہ دریافت کیا ہے۔ انگریزوں کے دور میں جب یہ شاہراہ تعمیر ہوئی تھی تو پانی نکالنے کے لیے یہ قدرتی نالے تعمیر کیے گئے تھے ، نالوں کی صفائی کا عمل شروع ہوا۔ اعلیٰ افسروں کی رہائش گاہ باتھ آئی لینڈ سے گزرنے والے نالہ کی صفائی ہوئی ، پتہ چلا کہ وہاں پر بھی تجاوزات موجود تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور سے شہر میں غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ تعمیرات ملیر اور لیاری ندی میں بھی ہوئیں اور چھوٹے بڑے نالوں میں بھی ہوئیں۔ بعض رپورٹوں میں کہا گیا کہ ان تجاوزات میں سرکاری عمارتیں حتیٰ کہ تھانے تک شامل ہیں۔ برسر اقتدار حکومتوں نے ان تجاوزات کے خاتمہ کے لیے اجلاس کیے، منصوبے منظور ہوئے مگر سیاسی وجوہات کی بناء پر کچھ نہ ہوا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو نچلی سطح تک اختیار کے بلدیاتی نظام کو صوبائی حکومت کے متوازی جانا گیا، یوں یہ نظام ختم ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی اتحادی ایم کیو ایم کے ساتھ نئے بلدیاتی نظام پر بحث و مباحثہ کرتی رہی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ نئے بلدیاتی نظام کے قانون پر اتفاق ہوا تو سندھ کے قوم پرستوں نے طوفان کھڑا کردیا، یوں یہ آرڈیننس قانون نہیں بن سکا۔ ایم کیو ایم کے جنگجوؤں کے خلاف آپریشن ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک بلدیاتی اداروں کا کمزور ترین قانون نافذ کیا۔ بلدیاتی انتخابات ہوئے مگر یہ قانون اتنا گھمبیر ہے کہ کوڑا اٹھانے، سیوریج کی لائن کو صاف کرنے اور پانی کی تقسیم کے کئی ادارے قائم ہوگئے۔ صوبائی حکومت نے ایک چینی فرم کو صفائی کا ٹھیکہ دیا اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم ہوا۔
اب کئی ادارے صفائی کے بنیادی کام کے ذمے دار قرار پائے۔ گھر سے سڑک تک کوڑا اٹھانے کی ذمے داری ایک اور ادارے کی ہوئی۔ مرکزی شاہراہوں سے کوڑا اٹھانے کا فریضہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ذمے آیا۔ سیوریج کی لائنوں کی صفائی کی ذمے داری واٹر بورڈ کے سپرد ہوئی۔ نالوں کی صفائی ڈی ایم سیز کی ذمے دار قرار پائی۔
چین کی فرم نے سڑکوں پر کوڑے دان لگائے۔ کوڑا اٹھانے کے لیے ہیوی مشینری سڑکوں پر نظر آنے لگی۔ بڑی سڑکوں کی صفائی کے لیے سویپر مشینیں بھی نظر آتی تھیں مگر اس پورے کام کی نگرانی کے لیے کونسلر بے اختیار قرار پائے، یوں کوڑے اور سیوریج کا مسئلہ شدید ہونے لگا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور کرپشن لازم و ملزوم ہیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر کوڑے کے ٹیلوں میں تبدیل ہوا۔ ہر علاقے میں ہر سڑک ، گلی سیوریج کے پانی میں ڈوبی نظر آئی۔ صاف ترین علاقہ پی ای سی ایچ ایس بلا ک 2 میں یہ حال ہوا کہ سیوریج کا پانی پینے کے پانے میں ملنے لگا۔ جب متوسط طبقہ کی آبادی جہاں بااثر لوگ رہتے ہیں میں یہ صورتحال ہوئی تو غریبوں کے علاقہ میں ہونے والی صورتحال کا تصور کیا جا سکتا ہے۔
صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ دنیا کے سب سے بڑے اخبار نیویارک ٹائمز میں کراچی کے کوڑے اور سیوریج کے مسئلہ پر فیچر شایع ہوا، مگر جب صوبائی حکومت کی توجہ اس بات پر مبذول کرائی جائے تو ارباب اختیار شکوہ کرتے ہیں کہ بعض قوتیں صفائی کے نظام کو سبوتاژ کرتی ہیں۔ ایک صحافی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کیوں کوڑے اور سیوریج اور پانی کی فراہمی کا ذمے لیے ہوئے ہیں۔یہ کام دنیا میں بلدیاتی اداروں کا ہے۔ اس بناء پر جو پتھر ڈالتے ہیں ان کو یہ کام سونپ دیا جائے مگر صوبائی حکومت نے حالات کا ادراک نہیں کیا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کی خوش قسمتی یہ ہوئی کہ پنجاب میں شہباز شریف کے بجائے عثمان بزدار وزیر اعلیٰ بن گئے۔ علی زیدی اور فیصل واوڈا جیسے وفاقی وزیر بنے، یہ وزیر ہر سال صفائی کا نعرہ لگاتے رہے مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ یوں اب لاہور اور پشاور سے بھی سیوریج کے پانی اور کوڑے کے فوٹیج ٹی وی چینلز پر نظر آنے لگے۔
ایک ٹی وی چینل نے دو سال قبل بتایا تھا کہ جب رات کو لاہور میں شدید بارش کی فوٹیج آتی ہے تو ہم لاہور بیورو کے رپورٹر سے کہتے تھے کہ لاہور میں پانی جمع ہونے کی فوٹیج بھیجیں اور لائیو کوریج کریں۔ و ہ ہمیشہ کہتے تھے کہ بڑی شاہراہوں پر سے پانی اتر گیا مگر اب لاہور کی صورتحال بلاول ، بختاور، زرداری اور مراد علی شاہ کے لیے اطمینان بخش ہے مگر اب کراچی کا معاملہ کسی اور سمت جا رہا ہے۔ ان مسائل کا حل نہ تو گورنر راج میں ہے نہ آئین کے آرٹیکل 149 میں اس مسئلہ کا حل ہے۔ اب فوج اور این ڈی ایم اے یہ مسئلہ مستقل طور پر حل کرسکتی ہے۔
کراچی کے مسئلہ کا حل نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام میں مضمر ہے۔ بلاول بھٹو زرداری لندن ، نیویارک اور واشنگٹن جیسے بڑے شہروں کی تاریخ سے سبق سیکھیں۔ نیا بلدیاتی قانون بنایا جائے جس میں اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں۔ خودمختار بلدیاتی ادارے ہی کراچی کے مسئلہ کا حل ہیں۔