تعلیم کی کمی اور معاشرے کا زوالدوسرا اور آخری حصہ
سابقہ حکومتوں میں صاحبان اختیارات کی سخاوت سے ان کے اپنوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔
علامہ کی نظر میں نئی نسل میں توحید سے اجتناب برتنے کا نتیجہ سامنے آگیا کہ اس میں بلند نگاہی اور تخیل پرواز کی بلندی نہ رہی، اس کی سوچ اور فکر ایک محدود دائرے میں سفر کرنے لگی، اس کی وجہ تعلیمی ادارے ایسے طالب علم تیار نہ کرسکے جو بظاہر روشن دماغ لیکن اسلام کی حقانیت اور قرآنی تعلیم سے ناواقف تھے۔ وہ درحقیقت بے یقین، کم نگاہ اور بے روح تھے اسلام کی روح سے ناواقف اور مغربی طرز سے متاثر تھے۔ علامہ نے نوجوانوں کی اس کیفیت اور تعلیمی زبوں حالی کو محسوس کرتے ہوئے فرمایا ہے:
نوجواناں تشنہ لب ،خالی ایاغ
شستہ رو، تاریک جاں ، روشن دماغ
کم نگاہ و بے یقیں و نا امید
چشمِ شاں اندر جہاں چیزے ندید
مکتب از مقصود خویش آگاہ نیست
تابجذب اندرونش راہ نیست
ایک اور موقع پر اقبال نوجوانوں سے اس طرح مخاطب ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا
تمدن آفریں' خلاقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتر بانوں کا گہوارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار و کردار' تو ثابت و سیّارا
اقبال نئی نسل کی تعلیم و تربیت سے مایوس ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ امید کے دیے روشن رکھتے ہیں اور بھٹکے ہوئے طلبا کو راہ راست پر لانے کے لیے خودی کا درس دیتے ہیں وہ فرماتے ہیں:
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
وہ تحقیق و جستجو اور جہد مسلسل اور علم کے حصول کو لازمی قرار دیتے ہیں، وہ اجتہاد کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں وہ نوجوانوں کے لیے اس طرح دعاگو ہیں:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
نوجوان ہی کسی ملک کا سرمایہ اور اس کی ترقی کا زینہ ہوتے ہیں ملک کی خوشحالی اور استحکام میں ان کا نمایاں مقام ہوتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں طلبا و طالبات کو تعلیم کے حصول کے لیے بے شمار سہولتیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ بغیر کسی دباؤ کے علم حاصل کریں نہ انھیں معاشی پریشانی کا سامنا ہو اور نہ سیاسی قائدین انھیں استعمال کرسکیں چونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی تعلیمی صلاحیتوں اور ذہانت ملک و قوم کو فائدہ پہنچانے کا سبب بنے گی۔
مولانا مودودی عہد حاضر کے ایک ایسے معلم ہیں جنھوں نے نوجوانوں کے لیے دینی تعلیم، شعور اور آگہی کے لیے راستے ہموار کیے، بے شمار کتابیں لکھیں اور پستی کی طرف جانے والی قوم کو اپنے افکار کی بدولت ایسا راستہ دکھایا جو قرآن و سنت پر عمل کرنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے، ان کے تعلیمی مقالات کا مجموعہ ''تعلیمات'' ایک اسلامی معاشرے کے نظام تعلیم کا بھرپور تصور پیش کرتا ہے، نصاب تعلیم کے حوالے سے ان کا نظریہ یہ ہے کہ اگر طلبا فلسفہ پڑھیں تو دینی نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے تاکہ وہ مسلمان فلاسفر بن سکیں اور سائنس کے طلبا مسلم سائنس دان کی حیثیت سے سامنے آئیں، اسی طرح تاریخ اور معاشیات کے طالب علم اس قابل بنیں کہ مسلمان مورخ اور پورے معاشی ڈھانچے کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکیں۔
اسی طرح اچھائی اور برائی کو اس طرح اجاگر کیا جائے کہ بچے نیکی اور بدی میں بہتر طریقے سے تفریق کر سکیں۔ صوفی بزرگ اور مبلغ دین سید علی ہجویریؒ علم کی تعریف بے حد موثر انداز میں کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ انسان کا صحیح علم حق تعالیٰ کے احکام اور اس کی ذات و صفات کی معرفت ہے ،ان کے نزدیک انسانی علم کا اصل کمال یہی ہے کہ وہ یہ جان لے کہ حقیقت میں وہ کچھ نہیں جانتا ہر وہ کام جس میں اللہ کی رضا شامل نہ ہو انسانی غرض کا مظہر ہوتا ہے اور جس علم کی پشت پر عمل موجود نہ ہو وہ علم جہل ہی کے زمرے میں شامل ہے۔ سید علی ہجویریؒ نے امام ابو حنیفہؒ کا قول نقل کیا ہے کہ علم عمل کے بغیر ایسے ہے جیسے جسم روح کے بغیر۔
آج ہمارا معاشرہ ایسی ہی مثالوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، تعلیمی اسناد کی خرید و فروخت کے ساتھ ملازمتوں کے لیے بھی لاکھوں روپے ان اداروں کو ادا کیے جاتے ہیں جہاں سے لاکھوں کے بدلے اربوں روپوں کی آمدنی بہت جلد ہو جاتی ہے، یہاں پر تو عمل کی بات کرنا توقع کرنا عبث ہے کہ تعلیم حاصل ہی نہیں کی جاتی ہے درسگاہوں کی شکل نہیں دیکھی ہے۔ لیکن جعلی ڈگریاں موجود ہیں اور جو محنت و مشقت سے علم حاصل کرتے ہیں عزت کی زندگی بسر کرتے اور رزق حلال کھاتے ہیں انھیں نوکریوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔
سابقہ حکومتوں میں صاحبان اختیارات کی سخاوت سے ان کے اپنوں نے خوب فائدہ اٹھایا، جس کا نتیجہ یہ نکلا آج ہمارا معاشرہ جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر ہے، صبح و شام ڈکیتیاں ہو رہی ہیں انھیں کوئی روکنے والا نہیں، تعلیم سے محرومی اور طلبا کے لیے کامیابیوں کی راہیں مسدود کرنا ظلم تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ جہالت کے اندھیروں نے روشنی کے چراغوں کو گل کردیا ہے۔ جس چیز کی بھی زیادتی ہو، ناانصافی کی ہو یا غیر انسانی رویوں کی وہ نیکی کے اجالوں کو نگل لیتی ہے۔ اللہ کرے موجودہ حکومت جلد سے جلد کچھ ایسے کام کرلے جس سے کمزور اور پسے ہوئے طبقے کے لیے جینے کا راستہ نکل آئے اور امن کی فاختہ فضاؤں میں پرواز کرے اسے کوئی جابر قید نہ کرسکے۔