کشمیر
ضیا الحق کی پالیسی نے نہ صرف پاکستان میں انتہا پسندی کو جنم دیا بلکہ ہندوستان میں بی جے پی کو بھی مضبوط کیا۔
جنگ کا طبل بجے نہ بجے، مگر سرد جنگ کی ہوائیں تیز ہوگئی ہیں۔ بات کہاں تک جائے گی، کچھ خبر نہیں مگر حالات بہت بگڑ چکے ہیں، یہ وہی حالات ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے اسباب بنے۔
جب ہٹلر نے جرمنی کو یرغمال بنایا، جمہوریت کے زینوں پر چڑھتے ہوئے بمشکل حکومت بنائی۔ اپنی پارٹی کی ایک مسلح فورس بھی بنائی جس نے آہستہ آہستہ یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلائی اور پھر جو بھی مخالف ہوئے ، تو ان پر غداری کا الزام لگا یا، ملک بدر کیا، سلاخوں کے پیچھے ڈالا یا پھر مروادیا ۔
جب ریشٹاک (پارلیمنٹ )کو آگ لگی تو ہٹلر کو ایک بہت بڑا موقعہ ہاتھ آیا، جمہوریت کو یرغمال بنایا اور جرمنی کا تاحیات سربراہ بن بیٹھا۔ یورپ خا موش تھا، وہ یہی سمجھتے رہے کہ یہ جرمنی کا داخلی معاملہ ہے،مگر بات داخلی سے خارجی ہوگئی۔ ہٹلر خود جرمن تو تھا نہیں، وہ آسٹرین تھا ۔ اس نے آسٹریا پر قبضہ بھی کرلیا، کوئی شور نہ اٹھا، نہ گولی چلی اور آسٹریا جرمنی کا حصہ بن گیا۔
ہٹلر کا جنوں اور بڑھا، اس نے چیکو سلواکیہ پر بھی قبضہ جمالیا، لیکن جب وہ پولینڈ کی طرف بڑھنے لگا تو دنیا کو ہوش آیا اور یوں بات جاکر دوسری جنگ عظیم تک جا پہنچی، لاکھوں لوگ مارے گئے۔ یہ جو آپ جیو لسیز ز کی کتھا پڑھتے ہیں رومن ایمپائر میں یا پھر میکائولی کا سیاسی دستور یعنی کتنے تانے بانے ہیں، کتنی سازشیں ہیں جو محلات کے اندر رچائی جاتی ہیں، شاید اقتدارچیز ہی ایسی ہے ۔
1990میں اصولی طور پر ایل کے ایڈوانی نے آج کے ہندوستان کی بنیاد ڈالی۔ اس نے ریاست گجرات سے ایودھیا تک کی یاترا کی، جس طرح ہٹلر کی ایس ایس تھی، اسی طرح سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی )کی آر ایس ایس تھی، جس طرح ہٹلر کے نشانے پر یہودی تھے اسی طرح آر۔ ایس۔ ایس کے نشانے پر ہند وستان کی اقلتیں بالخصوص مسلمان تھے۔
یہ تھا 1947کے اس بٹوارے کا رد عمل جو اگر مولانا ابوالکلام کے نظریے سے دیکھیں تو کہتا ہے کہ پاکستان ،جناح نے نہیں بنایا بلکہ نہرو اور ولب بھائی پٹیل نے بنایا۔ نفرت کی وہ بنیادیں رکھی گئیں، ہندو پرستی اور نیشنل ازم کا وہ بیج بویا گیا کہ جناح کو پاکستان بنانے کے لیے زیادہ محنت ہی نہیں کرنی پڑی۔
پانچ اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کو فتح کیا گیا، ہندوستانی آئین سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا گیا، ایک سال گزر گیا، میں آج جب اس بات کو سوچنے بیٹھاتو تاریخ میرے سامنے اپنے اوراق کھول بیٹھی۔ میں محمود غزنوی یا شہا ب الدین غوری کو اپنا ہیرو نہیں مانتا ، مگر تاریخ کے ان بے رحمانہ حقائق میں یہ سب شاید ہونا ہی تھا۔ کچھ غاصبوں نے مذہب کا لبادہ بھی اوڑھا اور کچھ غاصب منگول اور تاتاری بھی تھے، جو مسلمان نہ تھے۔
تہذیب و تمدن کی عظیم مثال بغداد، کسے خبر تھی کہ ہزاروں میل دور سے منگول اور تاتاری لشکر آکر اس تہذیبی ریاست کی ہزاروں ادبی کتابوں کو پامال کر دینگے۔ دجلہ اور فراط اس وقت پانی سے نہیں بلکہ خون سے پر تھے ۔ بغداد میں عباسی خلافت کے دوران سائنس، تہذیب و تمدن اور ایجادات کے حوالے سے خوب ترقی ہوئی، یہ دور مسلمانوں کی حکومت کا سنہری دور کہلایاجاتا ہے۔
عباسی خلافت کے پاس وہ فوجی طاقت نہ تھی جو کہ تاتاریوں اور منگولوں کے پاس تھی۔ تاتاری یا منگول ایک وحشی نسل تھی ان کو ذرا برابر احساس نہ تھا کہ جس لائبریری کو وہ پامال کر رہے ہیں وہ انسان اور انسانی ترقی پر کتنا بڑا ظلم ہے۔ بغداد ایک عظیم تہذیب کا تسلسل تھا جو ایک رات میں نہ بنی تھی۔ بالکل ایسے ہی نادر شاہ نے 1738میں دلی پر قبضہ جمایا۔اس وقت محمد شاہ رنگیلا دلی کے شہنشاہ تھے۔ جب پانی پت کے میدان میںنادر شاہ فوج لے کر پہنچاتومحمد شاہ رنگیلا نے نادر شاہ کی فوج دیکھتے ہی سفید جھنڈا لہرادیا، وہیں دلی کا تخت نادر شاہ کے حوالے کیا۔
دلی کا یہ تخت، تخت طائوس تھا جس کے سرہانے کوہ نور ہیرا جڑا تھا، جس پر کبھی اکبر اعظم بیٹھتا تھا، وہ اکبراعظم جس کی پیدائش میرے سندھ کے گائوں نواب امرکوٹ (عمرکوٹ) میں ہوئی تھی، وہ سندھ کی روح کو سمجھتا تھا ، یہ وہ شخص تھا جس نے بر صغیر میں سیکیولر روایات کی بنیاد یں ڈالیں، پھر اس مغل بادشاہت میں اورنگزیب بھی تھا جس نے اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ کے حق بادشاہت کو غصب کیا، اپنے والد شاہ جہاں کو جیل نظر کیا اور سرمد جو ایک اللہ لوک و مجذوب انسان تھا اس کو سزائے موت دی۔
یوں تیزی سے اکبر اعظم کا سیکیولر ہندوستان ٹوٹنے لگا اور سلطنت محمد شاہ رنگیلا کے ہاتھ آئی اور بلاخر نادر شاہ کی جنونی آنکھ کمزور دلی تک پہنچی۔ لگ بھگ پچاس ہزار لوگ دلی کے اندر ان تین سے چار دنوں میں مارے گئے ۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔ تمام ہیرے و جواہرات، تخت طائوس اور ہندوستان کا انمول ہیرا کوہ نور سب لوٹ کر نادر شاہ اپنے ساتھ لے گیا، دلی کے اوپر اب گدھوں کا راج تھا۔
اسی طرح آگے 1947 میں ایل کے ایڈوانی جو کہ آر ۔ایس ۔ ایس کا سرغنہ تھا، کراچی میںجناح پر قاتلانہ حملے کی سازش کرنے لگا، جناح بھی اس خانہ جنگی کا تسلسل تھے جو 1857 میں مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد، پہلی بار انگریزوں کے خلاف شروع کی گئی اور اس کی قیادت مسلمانوں نے کی تھی۔ محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے ۔ انھوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور وہ کانگریس کے اتنے ہی بڑے لیڈر تھے جتنے کہ گاندھی۔
جناح نے 1916 میں ہندو مسلم اتحاد کے حوالے سے ایک کانفرنس منعقد کروائی جو برِصغیر کی تاریخ میں لکھنو پیکٹ کے نام تحریر ہے ۔ جناح خلافت تحریک کے بھی حامی نہ تھے جب کہ گاندھی اس تحریک کے حامی تھے۔ جناح، گاندھی کو بھی ہندو مذہب میں مفاد پرستی کے حامی سمجھتے تھے۔ گاندھی کو کانگریس میں جناح کا آنا اچھا نہیں لگا، آخرکار جناح کو کانگریس میں تنہا کیا گیا اور ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ جناح کو کانگریس چھوڑنی پڑی۔
اس انتہا پرستی، کدورتوں اور نفرتوں کی تاریخ میں ایک اور اینٹ 1990 کی دہائی میں ایل کے ایڈوانی نے رکھی۔ اسی نفرت کی بناء پر1999 میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔ 2019میں پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کو فتح کیا گیا اور 2020 پانچ اگست کو رام مندر کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس دوران ہندوستان میں سٹیزن شپ ایکٹ میں وہ ترامیم کی گئیں کہ ہندو ستان میں پورے 172 Million کی مسلم آبادی کو دیوار سے لگا دیا گیا۔
ہند وستان کی اس انتہا پرستی نے بنگلادیش کے ہندوستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے تمام ممالک ہند وستان کی اس جنونیت سے نالاں ہیں۔ ہندوستان میں ہٹلر کی پیدائش ہو چکی ہے، جس طرح ہٹلر کا مقصد یہودیوں کی نسل کشی کرنا تھا، اسی طرح مودی کا مقصد مسلمانوں کی نسل کشی کرنا ہے، مگر اسی خطے میں پھر چین بھی ہے جو لداخ کے قریب پہنچ چکا ہے اور کشمیر کا بہت سا حصہ چین میں شامل کر لیا ہے۔
یہ بیانیہ بہت تیزی سے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ انتہا پسندی کا یہ بیانیہ ہندوستان کو اس قدر یرغمال بنا رہا ہے کہ ہندوستان کا سیکیولرازم اور گاندھی کا ہندوستان دونوں ہی تاریخ بنتے نظر آ رہے ہیں۔ مجھے تکلیف ہے ہندوستان کے اس طرح تباہ ہو نے کی کہ وہ اندر سے کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے جو گاندھی کا ہندوستان تھا۔ یہ نفرت کی آگ ہماری طرف بھی لپک سکتی ہے اگر ہماری جمہوری روایات کو ٹھیس پہنچی۔
ضیا الحق کی پالیسی نے نہ صرف پاکستان میں انتہا پسندی کو جنم دیا بلکہ ہندوستان میں بی جے پی کو بھی مضبوط کیا۔ اسوقت ہمیں مسجدِآیا صوفیہ کی آزادی تو نظر آ رہی ہے مگر یہ نہیں نظر آ رہا کہ اسرائیل اس پاداش میں فلسطین اور بیت المقدس کو کیا نقصان پہنچائے گا۔