تربت کی بدحالی
تربت کے بازار میں ہونے والے دھماکے میں جانی اور مالی نقصان ہوا۔ مگر اب اس علاقہ میں گینگسٹرز بھی فعال ہوگئے ہیں۔
سینیٹر اکرم دشتی، ادیب ، دانشور اور سیاسی کارکن ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی زندگی سیاسی جدوجہد میں گزری۔ وہ طالب علمی کے زمانہ میں کارل مارکس کے فلسفہ سے متاثر ہوئے، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (عوامی) میں شامل ہوئے۔ بی ایس او عوامی کا فلسفہ تھا کہ اسلام آباد بلوچستان کے وسائل کا استحصال کرتا ہے اور بلوچ سردار بھی بلوچستان کی پسماندگی کے ذمے دار ہیں۔
اکرم دشتی نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی سے ایم اے کیا۔ وہ دائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت کے طلبہ کے مقابلے میں ترقی پسندوں کو منظم کرنے کی کوششوں میں صف اول میں شامل تھے اور پروگریسو فرنٹ کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اکرم دشتی طالب علمی کے دور میں مکران ضلع میں کے بارے میں کراچی کے اخبارات و رسائل میں خبریں و مضامین شایع کرانے کی جستجو میں لگے رہتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کا دور بلوچستان میں بھی جبر کا دور تھا۔ مکران ڈویژن کے اضلاع تربت، گوادر، پنجگور وغیرہ میں مقامی افراد کی آمدوفت اور سامان کی منتقلی پر پابندیاں عائد تھیں۔ اکرم اور ان کے ساتھی عوام کی مشکلات کے خاتمہ کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ اکرم اور ان کے ساتھیوں نے بلوچستان نیشنل موومنٹ قائم کی۔ اکرم صوبائی وزیر بنے اور بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر کے عہدہ پر فائز رہے مگر ہمیشہ پروٹوکول سے بے نیاز ایک سیاسی کارکن رہے۔
اکرم بلوچ نیشنل پارٹی کی جانب سے سینیٹ کے رکن ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں تربت، گوادر اور پنجگور کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سینیٹ کی توجہ مبذول کرائی۔ ان کا استدلال ہے کہ تربت اور اطراف کے علاقے بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔ واپڈا مکران ڈویژن کے غریبوں سے تو ہر ماہ بل وصول کرتا ہے مگر طاقتور طبقے بجلی کے بل نہیں دیتے جس کی سزا عام آدمی کو ملتی ہے۔
سینیٹر اکرم دشتی کا مدعا ہے کہ تربت اور گوادر میں ریڈیو پاکستان کے دو اسٹیشن قائم ہیں مگر ان ریڈیو اسٹیشن کی نشریات میں بلوچی زبان کے پروگراموں کا تناسب انتہائی کم ہے ۔ عملے کی کمی ہے اور آسامیاں خالی موجود ہیں مگر ان آسامیوں پر مقامی افراد کے تقرر کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ انھوں نے سینیٹ میں اپنی تقریر میں بارکھان کے صحافی انور کھیتران کے قتل کا مسئلہ اٹھایا۔ انھوں نے سینیٹ کومزید بتایا کہ بلوچستان میں صحافیوں کے حالات انتہائی خراب ہیں۔
بلوچستان میں اب تک 40 کے قریب صحافی فرائض کی ادائیگی میں شہید ہوچکے ہیں۔ انھوں نے سینیٹ میں اپنے خطاب میں پی آئی اے کے حکام کے رویہ کی مذمت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی سے تربت جانے کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ تیز رفتار اور سستا طریقہ ہے۔ پہلے کراچی سے روزانہ فلائٹ جاتی تھی۔ تربت سے خلیجی ممالک کے لیے بھی روزانہ پروازیں چلتی تھیں۔
تربت اور مکران ڈویژن میں آباد ہزاروں خاندان کا روزگار خلیجی ریاستوں سے وابستہ ہے۔ میر اکرم دشتی اس دفعہ اسلام آباد سے اپنے گھر تربت نہ جاسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی سے کوسٹل ہائی وے کے ذریعہ تربت جب جاتے ہیں تو 12گھنٹے صرف ہوتے ہیں مگر پی آئی اے والوں نے اس پسماندہ علاقہ کے مسائل کو اہمیت نہیں دی۔ اس مسئلہ کا حل وزیر اعظم کے پاس ہے۔ تربت کا ایک سول اسپتال ہے۔ اس اسپتال میں آئی سی یو نہیں ہے، پورے مکران ڈویژن کے کسی اسپتال میں وینٹی لیٹر دستیاب نہیں ہیں۔ تربت کے سول اسپتال میں COVID-19 کے ٹیسٹ کے لیے کٹ دستیاب نہیں تھیں اور نہ ہی تربیت یافتہ عملہ موجود تھا۔
یوں یہ پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ ہے جہاں کورونا کا پتہ چلانے کا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا مگر مکران ڈویژن میں بہت سے افراد اس مرض سے متاثر ہوئے۔ کچھ گھروں میں جاں بحق ہوئے اور جو صاحب استطاعت تھے، وہ اپنے پیاروں کو کراچی لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ اکرم کا کہنا ہے کہ حادثات میں ہونے والے کئی زخمی سول اسپتال میں وینٹی لیٹر نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ ٹریفک اور دیگر حادثات میں زخمی ہونے والے بعض خوش قسمت کسی طرح کراچی پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی جان بچ جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے سے عوام اور ریاست کے درمیان فاصلے طویل ہوگئے ہیں۔
تربت کے ایک مکین محمد جان دشتی کا کہنا ہے کہ جب تربت کے سول اسپتال کی صورتحال اتنی خراب ہے تو چھوٹے علاقے کے اسپتالوں کی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تربت اور اطراف کے علاقوں میں اسکول زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس علاقہ میں ہونے والی بلوچ جنگجوؤں کی کارروائیوں اور ان کے خلاف آپریشن سے اسکول براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ ان اسکولوں میں تدریس کا سلسلہ معطل ہے، یہی صورتحال سرکاری کالجوں کی ہے۔
تربت یوں تو سی پیک کی مرکزی شاہراہ سے منسلک ہے جو بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر ہوئی مگر تربت شہر کی سڑکوں اور اطراف کو جانے والی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ تربت سے ایک طرف ایران سے متصل ہوجانے والی سڑک جو وفاقی وزیر زبیدہ جلال روڈ کے نام سے مشہور ہے زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہ سڑک ایران سے تجارت کے لیے بنیادی شہ رگ تصور کی جاتی ہے، سیکڑوں افراد کا روزگار اس شاہراہ سے وابستہ ہے۔ اسی طرح تربت کے قریب بلیدہ تحصیل کو ملانے والی سڑک برسوں سے مکمل نہیں کی گئی۔
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ہر سال صوبائی بجٹ میں ان سڑکوں کی دوبارہ تعمیر کے لیے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔ یہ فنڈز کہاں جاتے ہیں کوئی جواب دینے والا نہیں ہے۔ تربت چند سال قبل تک ایک طرح کی خانہ جنگی کا شکار رہا مگر علاقہ میں امن قائم ہوا۔ لوگوں کی زندگیوں میں سکون آیا مگر اب پھر تربت بم دھماکوں کی زد میں ہے۔ گزشتہ مہینے تربت کے بازار میں ہونے والے دھماکے میں جانی اور مالی نقصان ہوا۔ مگر اب اس علاقہ میں گینگسٹرز بھی فعال ہوگئے ہیں۔ دو ماہ قبل ایک گھر میں لوٹ مار میں مزاحمت کرنے پر ایک ماں جاں بحق ہوئی اور اس کی ننھی بچی زخمی ہوئے تھی۔ اس واقعہ کی پورے ملک میں مذمت ہوئی ۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اس واقعہ کی بازگشت سنائی دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ محلہ والوں نے ملزمان کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا ۔ ایسی ہی وارداتیں مکران ڈویژن کے دیگر علاقوں میں بھی ہوتی ہیں۔ تربت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور پاکستان کا 39واں شہر ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تربت کے اطراف میں قدیم آثار موجود ہیں۔ اس شہر کو ذرا سی کوشش کر کے سیاحت کا مرکز بنایا جاسکتا ہے۔ اکرم دشتی تشدد کی سیاست کے خلاف ہیں۔ انھوں نے ساری زندگی پرامن سیاسی جدوجد کی۔ ان کے نظریات بندوق سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے والے گروہوں کے خلاف ہیں۔ ان کو اپنے نظریات پر یقین ہے مگر اگر کوئٹہ اور اسلام آباد کے حکمرانوں نے اکرم دشتی کی بات نہ سنی تو ...