آج خون ہوجائے

خاکسار نے قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی تو زبانی معذرت کرلی کہ پتا نہیں یہ کیسے ہوگیا۔


خاکسار نے قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی تو زبانی معذرت کرلی کہ پتا نہیں یہ کیسے ہوگیا۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر 61

ممتازصحافی و شاعر محترم عارف عزیز کی پُرزور فرمائش ہے کہ آج خون ہوجائے۔ ایک شاعر سے ایسی فرمائش کرنا اور پھر اُس سے، تعمیل کی توقع کرنا کس قدر اچنبھے کی بات ہے۔ شاعر تو وہ ہوتا ہے کہ اگر اخلاقاً کسی سے کہے کہ چلو بھئی میرا خون کردو تو بقول غالب؎ آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں+ عُذر میرے قتل کرنے میں، وہ اَب لائیں گے کیا ....یعنی اتنا مجبور ہوتا ہے، چہ جائیکہ کسی کا خون کرسکے۔ یہی بات جب اردو میں ''مقصدی شاعری کے امام'' اور تلمیِذِ غالبؔ، خواجہ الطاف حسین حالی ؔ کے یہاں دیکھیں تو یوں منظوم دکھائی دیتی ہے: ؎ میں تو مَیں، غیر کو مَرنے سے اب انکار نہیں+ اِک قیامت ہے، تِرے ہاتھ میں تلوار نہیں۔

اصل میں ہوا یوں کہ بہ یک وقت، ابریشم اور فولاد کی مجسم، ہلکی پھلکی تفسیر، عارف عزیز صاحب نے پہلے (موبائل فون کال میں) یہ استفسار فرمایا کہ خونیں تصادم درست ہے کہ خونی۔ خاکسار نے اُن کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے اول الذکر ہی کو درست قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اصل میں تو یہ خوں ریزتصادم ہونا چاہیے (یعنی وہ تصادم جس میں خون بہایا جائے)۔ جب معاملہ تحقیق تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ ہمارے یہاں اکثر اخبارات میں ''خونی'' تصادم ہی لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا ہے۔

{آگے بڑھنے سے پہلے کچھ شاعری کی تعریف بیان کروں۔ ''شاعری ایک قسم کی مصوری ہے۔ مصور، مادّی اشیاء کی تصویر کھینچتا ہے اور شاعر خیالات، جذبات اور احساسات کی'' (جج الیاس احمد مؤلف و مرتب ''گُل ہائے پریشاں'')۔ شاعری کیا ہے، فقط تصویرِِجذبات ِ نہاں+ قوت ِتخیل کے ہمراہ، تاثیرِزباں۔ شاعر کو دنیا کی دولت دے دیں، مگر جو حقیقی مسرت اُسے وا ہ واہ سے ملتی ہے، اس کا جواب نہیں؎ شاعر کو مَست کرتی ہے تعریف شعر کی+سَو بوتلوں کا نشہ ہے اک وا ہ واہ میں۔ زبان کا چٹخارہ ہی لینا ہے تو لگے ہاتھوں میرزاابراہیم ذوق ؔ کا یہ شعر بھی دیکھ لیں: ؎ کہے ہے خنجرِ قاتل سے یہ لہو میرا+ کمی جو مجھ سے کرے تو پیے لہو میرا۔ ''یاسیت کے امام'' (سہواً) قراردیے جانے والے شوکت علی فانیؔ بدایونی نے بھی کیا خوب کہا تھا: ؎ دِیدنی ہے رنگِ دل میں ڈوب کر کھِنچنے کے بعد+ تم ابھی کیا دیکھتے ہو، تھم کے خنجر دیکھنا۔ (ضمنی بات یہ ہے کہ امیر حسنین جلیسی مرحوم نے بالتحقیق، اس امر کی تردید کی تھی کہ فانیؔ بدایونی ''یاسیت کے امام'' ہیں۔

خاکسار بھی اسی کا قائل ہے کہ اُن کے کلام کا دوبارہ بنظرِغائرمطالعہ کیا جائے اور یہ تہمت ہٹائی جائے۔ جو شاعر یہ کہہ سکتا ہو: میں نے فانی، ڈوبتے دیکھی ہے نبض ِکائنات+جب مزاج یار کچھ برہم نظر آیا مجھے.....اس کی جمالیات پر غور کیے بغیر، اُسے مایوسی کا عَلَم بردار ٹھہرانا کس قدر زیادتی ہے۔ اور یہ بھی فانی ہی کا شعر ہے: ذکر جب چھِڑگیا قیامت کا+بات پہنچی تِری جوانی تک)۔ ایک غیرمعروف شاعر رضوان علی خان رضوان ؔنے کہا تھا: ؎ بے گناہوں کے لہو' میں جو نہا کر نکلی+کس قدر شوخ ہے قاتل، تِری تلوار کا رنگ۔ امیرؔ مینائی کا یہ شعر مشہور ِزمانہ ہے: قریب ہے یار، روزِمحشر، چھُپے گا کُشتوں کا خون کیونکر+جو چُپ رہے گی زبان ِ خنجر، لہو' پکارے گا آستیں کا۔ (قریب ہے یارو، غلط مشہور ہے)۔ امیرؔ مینائی کا یہ شعر قدرے کم مشہور ہے، مگر اپنی جگہ کلاسیکی روایت کا عکاس ہے: ؎ خون ِ ناحق کبھی چھپتا ہے چھپائے سے امیرؔ+کیوں مِری لاش پہ بیٹھے ہیں وہ دامن ڈالے۔ شاعر تو جب محاورے میں لفظ لہو (خون) برتتا ہے تو ایسی بات کہہ جاتا ہے کہ واقعتاً حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے: ؎ خشک سیروں، تنِِ شاعر کا لہو ہوتا ہے+تب نظر آتی ہے اِک مصرعِ تَر کی صورت (امیرؔ مینائی)۔ {یہ الگ بات کہ اس دورِ تن آسانی و سہل انگاری میں بہت سے لوگ شعر کہتے نہیں، لکھتے نہیں، بنالیتے ہیں۔

بنانے والے تو پوری پوری کتاب بنالیتے ہیں جیسے ہمارے ایک خورد معاصر نے اپنی اثر رسوخ والی ملازمت میں کئی کتب بنالیں، جن میں شامل ایک کتاب بنانے کے لیے اکثر مواد خاکسار کے جریدے ہائیکو انٹرنیشنل سے نقل کرلیا۔ ویسے نقل کی بات کریں تو ہمارے ایک نہایت بزرگ صحافی ، افسانہ نگاروشاعر نے پہلے تو اِسی جریدے کی تعریف میں کالم بزبان انگریزی لکھا، ہم نے اظہارِتشکر کیا، پھر نجانے کیا سُوجھی کہ (کم ضخامت کا) ایک نیا رسالہ جاری کیا جس کے عنوان میں 'انٹرنیشنل' کا لاحقہ لگایا (انھی دنوں بعض اور ادبی جرائد کے ناموں میں بھی اسی خیال سے اس لاحقے کا اضافہ کیا گیا کہ شاید وہ بھی ''انٹرنیشنل'' ہوجائیں) اور اس میں ماسوائے چند ایک صفحات کے، سب کچھ ہائیکوانٹرنیشنل 'اقبال حیدرنمبر' سے نقل کردیا (وہ بھی نئی کتابت کی بجائے عکسی نقل)۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ ایک ڈیڑھ ماہ کے اندر، دوسرا شمارہ شایع کیا تو اُس میں اِسی منقولہ مواد کی تعریف، بعض ناواقف حضرات کے قلم سے شامل کرلی۔

خاکسار نے قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی تو زبانی معذرت کرلی کہ پتا نہیں یہ کیسے ہوگیا، اَب کے شمارہ شایع کروں گا تو اُس میں معافی نامہ بھی شامل کروں گا، مگر خیر اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ (ویسے راز کی بات یہ ہے کہ ماقبل بھی ایک اور صاحب نے اسی موضوع پر خاکسار کے ادبی مواد پر مبنی ادبی جریدے کے دو شمارے شایع کیے اور اسی کے حلقۂ احباب سے دادتحسین وصول کی تھی)۔ بات کی بات ہے کہ ہماری پیاری، راج دُلاری زبان اردو میں یہ وصف بھی بہت منفرد ہے کہ ایک ہی لفظ یا ترکیب کا۔یا۔ اس کے مماثل کا استعمال، موقع محل کی مناسبت سے مختلف ہوجاتا ہے اور بعض اوقات کم فہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ''خون بہَادیں!'' تو یہ جملہ بہ یک وقت دو طرح سے دو مختلف معانی دے رہا ہے۔ خون، بہا دیں یعنی خون کرکے بہادیں یا کسی جانور کا خون کہیں پڑا ہوا ہے تو اُسے پانی سے بہادیں۔ یا۔خون (خوں) بہا دیں یعنی کسی کے قتل کی تلافی کے لیے کچھ رقم ادا کریں جسے فقہی اصطلاح میں دِیَت کہا جاتا ہے اور انگریزی میں Blood-money۔ اسی تناظر میں یہ شعر دیکھیں: ؎ لہو جمنے سے پہلے خوں، بہادے+یہاں انصاف سے قاتل بڑا ہے۔ اردو زبان میں لفظ خون، لہو، قتل، رنج اور ہلاکت کے معانی دیتا ہے۔ ''کسی کا خون ہونا'' ایک تو لفظی معنی دیتا ہے۔

دوسرے یہ محاورے میں بھی بحُسن وخوبی استعمال ہوتا ہے۔ شعر دیکھیے: حنا وہ مَلتے ہیں اتنا کوئی نہیں کہتا +کہ خون ِ عاشقِ شیدا، حضور ہوتا ہے۔ اسیرؔ لکھنوی کے اس شعر میں حنا مَلنا یعنی مہندی لگانا، اُس سے خون جیسی شوخ رنگت کا نمایاں ہونا، پھر اس رنگت پر عاشق کا مَر مٹنا، فدا ہوجانا یعنی اُس کا خون ہوجانا........اس قدر پُرلطف مضمون آفرینی ہے کہ کم از کم اس خاکسار کے لیے اس کی سادہ لفظوں میں ستائش محال ہے۔ البتہ ایک ٹیڑھ یہاں بھی ہے۔ حِنا یعنی مہندی عربی زبان سے مستعار ہے اور مؤنث ہے، جبکہ اسیرؔ لکھنوی نے مذکر باندھا ہے۔

میرے ناقص مطالعے میں ایسی کوئی دوسری نظیر نہیں، ذی علم احباب سے گزارش ہے کہ اس بابت راہنمائی فرمائیں۔ ''خون ہونا''، فعل ِلازم ہے، جس کے معانی، فرہنگ آصفیہ میں یوں درج کیے گئے ہیں: قتل ہونا، تلوار سے مارا جانا، جان سے جانا، زخمی ہونا، مجروح ہونا، دُکھنا، رنجیدہ ہونا جیسے دل خون ہوتا ہے۔

اب وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ہمارے یہاں دل خون ہونے یا دل کا خون ہونے کی بجائے 'ارمانوں کا خون ہونا' زیادہ مشہور ہوگیا ہے۔ لغات دیکھتے ہوئے انکشاف ہوا کہ فارسی میں خون شُدَنِ دل یعنی انتہائی رنج وغم کے علاوہ خون شُدَنِ اُمید یعنی امیدوں کا خون ہونا اور خون شُدَنِ آرزو یعنی آرزؤوں کا خون ہونا بھی موجود ہے۔ ممکن ہے اسی کے زیراثر جدید اردو میں ارمانوں کا اور جذبات کا خون ہونے لگا ہو۔ بہرحال یہ شعر بھی ملاحظہ ہو، کیسے خون ہوا یا کیا گیا: ؎ آبلے ہوتے ہیں خوں، رنج بڑا ہوتا ہے +کوئی کانٹا جو پیروں سے جُدا ہوتا ہے۔

شاعر بہت دقت پسند معلوم ہوتا ہے۔ آبلوں یعنی پھوڑوںکا خون ہونا.....اللہ اکبر! سیدھا سیدھا نہیں کہا کہ آبلے پھُوٹ گئے۔ دوسرا مصرع بھی اپنی جگہ منفرد ہے۔ اب ایسی شاعری اور ایسے شاعروں کا وجود کہاں۔ بات چلی تھی، محترم عارف عزیز کی نکتہ دانی سے تو دوبارہ اُسی پر آتے ہیں۔ لغت میں لفظ 'خونی ' فاعل اور مذکر ہے جس کے معانی یہ ملتے ہیں: قاتل، گھاتِک (یعنی گھات لگانے والا)، ہَتھیارا، سفّاک، خوں ریز، وہ شخص جس نے کسی کو مارڈالا ہو۔ بطور صفت اس کے مفاہیم یہ ہیں: جَلّاد، ظُلمی، ظالم، اَنّیائی (مولوی سید احمد دہلوی نے 'ظلمی' لکھ کر اسے بھی سنداعتبار بخش دی، ورنہ ہم یہی سمجھتے تھے کہ منّی بیگم لہک لہک کر گاتے ہوئے جو کہتی ہیں، ''جُلمی (ظُلمی کا مُحَرَّف)! اِک بار مسکرادو''، تو اس کا کوئی مقام لغت میں نہیں۔ اب دیکھیں کہ لفظ خونیں کا کیا مفہوم ہے۔

یہ بہ یک وقت فاعل بھی ہے اور صفت بھی ۔ معانی: خون آلودہ، سرخ، لال، خون سے نسبت رکھنے والا۔ یہ تفصیل دیکھنے کے بعد کوئی بھی بہ آسانی فیصلہ کرسکتا ہے کہ تصادم، خونیں ہوتا ہے یا خوں ریز، مگر خونی نہیں۔ لغات ِکشوری از مولوی تصدق حسین رضوی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خونی (فاعل) کا مطلب ہے، قتل کرنے کے لائق اور خونیں (فاعل) سے مراد ہے خون سے لِتھڑا ہوا۔ اب یہ ایک اور ہی سمت کی طرف لے جانے والی عبارت ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں خون آلودہ کے معانی یوں درج ہیں: (فاعل، صفت ) لہو میں لِتھڑا ہوا، خون میں بھرا ہوا، لہولُہان۔ (لہان کے لام پر زبر نہیں ہے)۔ لغات دیکھتے چلے جائیں تو ہمیں اپنی بھولی ہوئی زبان کے الفاظ، تراکیب اور محاورے نظر آتے ہیں۔

خون آنکھوں میں اُترنا، خون بِگڑنا (فعل لازم: خون میں فساد آنا، خون کا خراب ہوجانا، کوڑھ یا جذام ہونا۔ عوام: شامت آنا، بدنصیبی کا سامنا ہونا جیسے تیرا خون تو نہیں بِگڑا جو اِس کے سر ہوتا ہے)، خون بیٹھنا (فعل لازم: خون کا نیچے کی طرف رُجوع کرنا، مقعد سے خون آنا، بواسیری خون نکلنا)، خون پینا، خون جگر پینا یا کھانا، خون چلانا، خون خرابا (بجائے خرابہ)، خون خشک ہونا، خوں خوار، خون ِدل پینا، خون ریزی، خون سر چڑھنا۔یا۔ سر پر سوارہونا، خون سفید ہونا (ویسے یاد آیا کہ اس محاورے سے قطع نظر، لال بیگ یعنی کاکروچ کا خون سفید ہوتا ہے)، خون سُوکھ جانا، خون کا جوش، خو ن کا دورا (بجائے دورہ)، خون کا عِوَض، خون کرنا، خون گردن پر سوار ہونا، خون گِرَفتہ (فاعل، اسم مذکر یعنی اجل رسیدہ، اجل گرفتہ: جس کی موت سر پر آگئی ہو)، خون لینا، خون نکلوانا (فعل متعدی: فصد کھُلوانا ، فصد لوانا، خون کم کرانا یعنی حِجامہ [Cupping])، خون ہونا، خوناب (خوں ناب) یعنی خون کے آنسو، پانی ملا ہوا خون۔ شعر: رنگ آمیزیاں کیسی ہیں، کس کا ڈر ہے دیکھو تو+مجھے تو کچھ نظر آتا ہے یہ خوناب اپنا سا (مومنؔ) نیز لال، سرخ، خونِ خالص، خون ناب، وہ خون جو حالت غم و رنج یا محنت و مشقت میں آنکھوں کے رستے آنسو ہوکر یا مسامات سے پسینہ بن کر ٹپکے، عموماً رنج و غم، محنت ومشقت۔ اور دیکھیں، خونی دست، خونیں جامہ پہننا یعنی بادشاہ کا، قتل کا حکم دینے یا غصہ ظاہر کرنے کے واسطے سرخ جامہ پہننا۔ اب ذرا یہ حیران کُن الفاظ ومعانی دیکھیں: خون ِ کبوتر یعنی نہایت سرخ، کبوتر کے خون کی مانندلال، چُہچہا، شراب ِ سرخ۔ خونِ خُرُوس یعنی سرخ شراب، خون ِناموس یعنی شراب، خوں نابہ ِ خُم یعنی شراب۔ اردولغت بورڈ کی اردولغت (تاریخی اصول پر) سے اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں: خُونِیں۔۱. وہ شے جس سے لال رنگ نمایاں ہو، خون کے رنگ کا۔

۲. خون میں لتھڑا ہوا یا بھیگا ہوا، خون آلود۔۳. خون آمیز۔۴. خون کرنے والا۔۵. خون سے نسبت رکھنے والا، قتل اور خون سے تعلق رکھنے والا۔ خُونِیں۔۱. وہ شے جس سے لال رنگ نمایاں ہو، خون کے رنگ کا۔ ۲. خون میں لتھڑا ہوا یا بھیگا ہوا، خون آلود۔۳. خون آمیز۔۴. خون کرنے والا۔۵. خون سے نسبت رکھنے والا، قتل اور خون سے تعلق رکھنے والا۔ خُون رِیز۔۱. خون بہانے والا، سَفَاک، ظالم، ستمگر، جان ستان۔۲. غمگین، رنجیدہ۔۳. (کنایتاً) اجرام فلکی میں تباہی بربادی لانے والا ستارہ مریخ۔ خُون ریزی۱. کشت و خون، قتل و غارت گری۔۲. خون نکلنے کا عمل، لہو ریختگی۔ {یہاں ذرا ٹھہرکر ایک غیرمتعلق نکتہ بھی برداشت کرلیں۔ شرابوں میں ایک نام شیمپین بہت مشہور ہے جو لال ہوتی ہے۔

خاکسار کو یہ لگتا ہے کہ ہمارے یہاں جو لال شربت کا سب سے مشہور مصنوعہ (Product) ہے جس کی مقبولیت کے بعد، لال مشروبات کا سلسلہ چل نکلا وہ شاید پہلے پہل اسی کے مقابل تیارکی گئی تھی۔ جدید فارسی سے استفادے کا سلسلہ جاری رہے تو اردو گو طبقے کو انگریزی اصطلاحات کا ترجمہ تلاش کرنے یا وضع کرنے میں آسانی رہے۔ Blood pressure کے لیے فشار ِ خون تو مستعمل ہے، مگر Blood poisoningکے لیے اردو والے پریشان ہوتے ہوں گے، اس کے لیے فارسی میں مسمویتِ خون اور عفونتِ خون موجود ہے۔ خون اور اس سے مماثل رنگت کے لیے ایک پرانا لفظ قِرمِز بھی موجود ہے، جس کا استعمال جدید اردو میں کم ہوگیا ہے، لیکن جدید فارسی میں ہنوز مستعمل ہے۔ قِرمِز (کرم کز کا معرّب) دراصل، بیربہوٹی جیسے سُرخ کیڑے کا نام ہے جو جھاڑیوں پر پلتا ہے اور اس سے ریشم یا کسی اور کپڑے کو رنگا جاتا تھا۔ اسے انگریزی میں Kermes vermilioکہتے ہیں، جبکہ قِرمِزی رنگ کو Crimson redکہا جاتا ہے۔

ترکی زبان کے لفظ قِزِل (یا قِزیل) یعنی سرخ سے قزل باش (سرخ ٹوپی پہننے والے) جیسا اسم معرفہ بنا جس کا تاریخ میں ذکر ملتا ہے۔ {اہم اطلاعات: کالم کے آخر میں دو باتیں موضوع سے غیرمتعلق بھی دیکھ لیجئے۔ آج جب یہ کالم اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہوا تو انتہائی افسوس ناک خبر ملی کہ ہمارے بزرگ معاصر سید اطہرعلی ہاشمی صاحب، داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔ مرحوم نے اصلاح زبان کے کالم میں دو مرتبہ خاکسار کے کالم زباں فہمی کی تعریف فرمائی۔ اُن سے ایک اتفاقیہ ملاقات بھی ہوئی۔

گو مختصر۔ اب ایسی علمی شخصیات ہمارے یہاں خال خال ہی رہ گئی ہیں۔ اللہ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جامعہ الازہر کے شعبہ اردو کے سربراہ اور اردو ادیب، ڈاکٹر احمد القاضی نے ایک سرکاری تفویض (Assignment)کے سلسلے میں خاکسار سے رابطہ کیا تو ایک سے زائد بار کہا کہ اہلِ پاکستان سے ہماری طرف سے استدعا کریں کہ اس شعبہ اردو اور دیارغیر میں اردو کی خدمت کرنے والے احباب پر بھی نظرِکرم کریں۔ اسی جامعہ کے شعبہ اردو کی ایک طالبہ محترمہ مریم سلیمان نے خاکسار کی ادبی خدمات سے متعلق ایم اے کا مقالہ بزبان عربی تحریر کیا اور میری نظم ''کشمیربزورتقریر'' کا عربی میں ترجمہ بھی کیا ہے}۔

مآخذ

٭ گل ہائے پریشاں ، مرتبہ و مؤلفہ الیاس احمد (سابق جج)۔ ناشر وقار الیاس، اشاعت ِثانی، کراچی (سن اشاعت ندارد)

٭ اردو کے ضرب المثل اشعار، تحقیق کی روشنی میں، مرتبہ و مؤلفہ محمد شمس الحق۔ (نظرثانی واضافہ شدہ اشاعت)، ناشر فِکشن ہاؤس، لاہور: ۲۰۱۰ء

٭ فرہنگ آصفیہ از مولوی سید احمد دہلوی

٭ لغات ِکشوری از مولوی تصدق حسین رضوی

٭ اردو لغت (تاریخی اصول پر)۔ اردو لغت بورڈ، قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن، حکومت پاکستان[www.http://udb.gov.pk]

٭ فرہنگ انگلیسی۔ فارسی از عباس آریان پور کاشانی و منوچہر آریان پور کاشانی[English-Persian Dictionary]

٭فرہنگ فارسی از ڈاکٹر محمد عبداللطیف، کتابستان، لاہور

٭اردو کے مشہور اشعار (دورمتقدمین سے دور متاخرین تک) از غضنفر علی خان و معراج جامی۔ کراچی: ۱۹۹۵ء

٭دیوان ِ ٹرانسپورٹ مرتبہ ایس ایم شائق، ناشر شمسی پبلی کیشنز۔کراچی : ۲۰۰۷ء

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں