غزل
تیز سورج نے مجھے یاد دلائے سائے
میں چلا جاتا ہوں امید کے سائے سائے
وہ جو فریاد پرندوں کی نہیں سنتے تھے
اب شجر کاٹ کے روتے ہیں کہ ہائے سائے!
اک تھکا ماندہ مسافر ہوں ٹھہرنا ہے ذرا
میں نہیں جانتا اپنے کہ پرائے سائے
سختیاں جھیل کے آسان ہوا میرا سفر
وسعتِ دشت میں ہر سو نظر آئے سائے
کس نے لفظوں کی ہری شاخ پہ آری رکھی
کس نے آواز کے جنگل سے چرائے سائے
یہ زمینوں کی تپش یوں ہی نہیں بڑھتی ہے
ہم نے اشجار نہیں کاٹے ، جلائے سائے
دوپہر کاٹنی دشوار ہوئی ہے جاذبؔ
کوئی ان پیڑوں کے پہلو سے اٹھائے سائے
(اکرم جاذب۔ منڈ ی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
گمان ریزوں کی شعلگی سے جلاؤں خود کو؟ ملال کاڑھوں؟
جمال زادی! میں تا بکے دل کے آئنے پر سوال کاڑھوں؟
نفس نفس میں رچی ہوئی ہے کئی جہانوں کی بے نیازی
ورا کیا خود کو آرزو سے، سو کیوں نظر میں ملال کاڑھوں
دل و نظر کے اداس کُو میں خموشیوں کی حکومتیں ہیں
میں کس لیے سُرکو زحمتیں دوں؟اجاڑ سازوں پہ تال کاڑھوں؟
یہ آنکھ ہجرت کے بے بہا گردباد سہہ کر بجھی ہوئی ہے
سو اب یہ ممکن نہیں کہ اس آنکھ میں کسی کا جمال کاڑھوں
میں کرب زادہ وَرَق وَرَق پر بلا کی وحشت بکھیرتا ہوں
مرے لیے اب کہاں ہے آساں بہار کے خد و خال کاڑھوں
(عبدالرحمان واصف۔کہوٹہ، راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
پھر آج ذہن سے میرے نکل گیا، رکھ کے
میں دل میں بھول گیا ہوں کہیں خدا رکھ کے
تھی ایک جست کی دوری، سو جب بھی دل نے کہا
فلک پہ چڑھ گیا پاؤں تلے ہوا رکھ کے
کہاں گئے ہیں خریدار جانے؟ آج فقیر
کھڑا ہے دیر سے ہاتھوں پہ اک دعا رکھ کے
میں شور چھان رہا ہوں کسی صدا کے لیے
پرکھ رہا ہوں صدائیں جُدا جدا رکھ کے
وگرنہ روشنی کافی اُدھڑ گئی ہوتی
کہ کردی وقت پہ میں نے رفودِیا رکھ کے
اک آدھ لے ہی گیا ہو نہ دل سے ،جاتے ہوئے
سو اپنی دھڑکنیں بھی دیکھ لوں ذرا رکھ کے
(عزم الحسنین عزمی۔ڈوڈے ، گجرات)
۔۔۔
غزل
وہ جو دریا کنارے بیٹھے ہیں
جانے کس کے سہارے بیٹھے ہیں
غسل کرنا ہے خوش گمانی سے
بدگمانی اتارے بیٹھے ہیں
ان کے حالات کیوں نہیں بدلے
زندگی جو گزارے بیٹھے ہیں
دھند چھائی ہوئی ہے چاروں طرف
لوگ بیکار سارے بیٹھے ہیں
کیا یہ کم ہے کہ ہم رضا سے تری
خواہشیں اپنی مارے بیٹھے ہیں
(نعیم رضا بھٹی۔ منڈی بہاء ُالدین)
۔۔۔
غزل
ہمیں تم سے ملنے کی چاہت نہیں ہے
مگر تم سے کوئی عداوت نہیں ہے
کروں کیسے اس شخص پر میں بھروسہ
کسی طور جس میں صداقت نہیں ہے
میں زنجیر پا ہوں زباں کھولنے پر
یہاں سے نکلنے کی صورت نہیں ہے
کرے فیصلہ حق میں مقتول کے جو
یہاں ایسی کوئی عدالت نہیں ہے
دکھائے کوئی دل کسی کا تو سمجھو
کہ مقبول اس کی عبادت نہیں ہے
کبھی آزما دیکھ جاوید ؔہم کو
ہمیں بھول جانے کی عادت نہیں ہے
(جاوید کشمیری)
۔۔۔
غزل
سرِ بازار ہو جائے اگر دیدار ناچوں گا
ہتھیلی پہ رکھے جان و جگر سرکار ناچوں گا
نہیں موقوف مسجد ہو کہ مندر ہو کہ میخانہ
بھلے مقتل میں ہو جائے کسی سے پیار ناچوں گا
میں اپنی ذات میں تنہا، انوکھا شحص ہوں لوگو!
مجھے مل جائیں مجھ جیسے کہیں دو، چار ناچوں گا
بڑی مشکل سے پایا ہے درِ جانان اے لوگو!
سو اب گرتی ہے گر جائے مری دستار، ناچوں گا
وہ ہاں کہہ دیں تو کیا اچھا، وہ ناں کہ دیں بُرا کیا ہے؟
بھلے اقرار ہو محسنؔ یا پھر انکار ناچوں گا
(محسنؔ اکبر۔حجرہ شاہ مقیم)
۔۔۔
غزل
اداس رات ہے اور ہر دیا بجھا ہوا ہے
یہ حادثہ تو مرے ساتھ بارہا ہوا ہے
کچھ ایسا خوف مسلط ہے آج کل دل پر
سیاہ رات سے جیسے کوئی ڈرا ہُوا ہے
وہ آئینے سے ہوا روبرو تو چیخ پڑا
تمہاری وجہ سے جو بھی ہوا برا ہوا ہے
نئی قسم کے تقاضوں کا قفل ہے در پر
مگر وہ وعدہ جو دہلیز پر پڑا ہوا ہے
ہر ایک بوند میں پنہاں ہیں درد کی ٹیسیں
ضرور بارشوں میں اشک بھی ملا ہوا ہے
تمہارا مجھ سے تعلق ہے ماورا ماہیؔ
جو ظاہراً تو جدا ہے مگر جڑا ہوا ہے
(ماہ رخ علی ماہی۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
اپنی مرضی کے وہ پانی میں نہیں رہتا ہے
دیر تک کوئی روانی میں نہیں رہتا ہے
ایک کردار جو کرتا ہے فسانہ آغاز
پھر وہ کردار کہانی میں نہیں رہتا ہے
وقت بھی وقت ہے لے آتا ہے اپنی رہ پر
دل کسی یاد پرانی میں نہیں رہتا ہے
جتنی بولی بھی لگے بیچ کے آئیں اس کو
زیست کا بھاؤ گرانی میں نہیں رہتا ہے
یاد آتے ہیں پلٹنے کے بہانے قیومؔ
کچھ بھی جب نقل مکانی میں نہیں رہتا ہے
( قیوم طاہر۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
میرے پاؤں میں راستا ہے میاں
دشت مجھ کو بُلا رہا ہے میاں
عین ممکن ہے چوری ہو گیا ہو
دل کئی دن سے لا پتا ہے میاں
تم نہ سمجھو گے عشق کا مفہوم
تم نہ سمجھو گے خواب کیا ہے میاں
ہم کہیں درمیاں رکے ہوئے ہیں
ابتدا ہے نہ انتہا ہے میاں
ہر کسی پر کُھلی ہوئی ہے زمیں
ہر کوئی خاک چھانتا ہے میاں
میں اسد ؔہوں کمال کرتا ہوں
مجھ کو درویش کی دعا ہے میاں
(پیر اسد کمال۔سعودی عرب)
۔۔۔
غزل
گود پلے کندھوں پہ اٹھانے پڑ جاتے ہیں
اچھے اچھے لوگ گنْوانے پڑ جاتے ہیں
پشتِ زمیں پر سارے مبہم نقش ہیں ہم
مبہم نقش تو یار مٹانے پڑ جاتے ہیں
سازِ طرب میں سوز کا پہلو ہوتا ہے
یعنی ساز اورسوز ملانے پڑ جاتے ہیں
گھنٹے دو گھنٹے کا جھگڑا ہوتا ہے
میرے اس کے بیچ زمانے پڑ جاتے ہیں
رشتہ داروں کو خوش رکھنے کی خاطر
اپنی جان پہ قہر اٹھانے پڑ جاتے ہیں
کیسے کیسے لوگوںکی خاطر شاہدؔ
کیسے کیسے لوگ بھلانے پڑ جاتے ہیں
(محمد اقبال شاہد۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
تب برے تھے نہ اب ہی اچھے ہیں
لوگ جیسے تھے اب بھی ویسے ہیں
لمس تیرا اگر میسّر ہو
دیپ روغن بغیر جلتے ہیں
مرنے والوں کا کچھ پتا کیجے
جینے والے تو روز مَرتے ہیں
ہائے! خوش فہمیاں جوانی کی
میں تمہارا ہوں آپ میرے ہیں
یار! میں نے تو ایک دیکھا تھا
آپ کے تو ہزار چہرے ہیں
(امتیاز انجم۔اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
لاکھوں بیماروں کا لشکر نہیں دیکھا جاتا
اک کہانی نئی گھر گھر ،نہیں دیکھا جاتا
زندہ لوگوں پہ زمیں تنگ ہوئی ہے کیسی
ہر طرف اُٹھ گیا محشر، نہیں دیکھا جاتا
اس قدر ہو گئیں اب رات کی عادی آنکھیں
ہم سے اب صبح کا منظر نہیں دیکھا جاتا
توڑ کر رکھ دیے شیشے کے گھروندے سارے
ایک نادیدہ سا پتھر نہیں دیکھا جاتا
خیریت پوچھیں عزیزوں سے کہ پُرسہ دیویں
کیا کریں حال ہے ابتر نہیں دیکھا جاتا
آسماں والے صدا دیتی ہے دنیا ساری
رحم کر اہل زمیں پر نہیں دیکھا جاتا
( ظفر سلطان۔ کراچی)