راحت اندوری
حال ہی میں ہم سے جدا ہونے والے راحت اندوری کا شمار بھی ایسے ہی شعرا کی پہلی صف میں ہوتا ہے۔
QUETTA:
تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد تقریباً پچاس برس اُردو زبان پر بہت بھاری گزرے ہیں کہ اس کو برصغیر کی مشترکہ زبان کے بجائے صرف مسلمانوں اور پاکستانیوں کی زبان قرار دے دیا گیا اور یوں بھارت میں اُردو والوں کے لیے زمین تنگ سے تنگ تر ہوتی گئی۔
اس ابتلا کے دور میں چند اُردو کے رسالے اور کتابیں تو چھپتی رہیں مگر عمومی طور پر جن دو چیزوں نے عوام اور خواص دونوں سطحوں پر اُردو کو زندہ رکھا، وہ بھارت کی فلم انڈسٹری اور مشاعروں کی روائت ہے، اگرچہ اب گزشتہ کچھ برسوں سے فلم انڈسٹری میں بھی اُردو کے نام پر زیادہ تر ایک جناتی سی زبان استعمال ہوتی ہے مگر اس سے قبل کی فلمی شاعری نے بلاشبہ اُردو کو عوا می سطح پر زندہ اور مقبول رکھا ہے لیکن جہاں تک اُردو مشاعروں کی روائت کا تعلق ہے وہ ''کوی سب ملن'' کے ہندی مشاعرہ نما پروگراموں کے باوجود شروع سے آج تک نہ صرف فروغ پذیر ہیں بلکہ اس میں کچھ ایسے شاعر بھی سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے اس روائت کی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔
حال ہی میں ہم سے جدا ہونے والے راحت اندوری کا شمار بھی ایسے ہی شعرا کی پہلی صف میں ہوتا ہے، وہ اپنے سادے برجستہ، طنزیہ اور عوامی انداز کی وجہ سے پورے مشاعرے کو اپنے پیچھے لگا لیتا تھا اور بلاشبہ اُس کی موجودگی کسی بھی مشاعرے کی کامیابی اور مقبولیت کی ضامن سمجھی جاتی تھی ۔ شروع شروع میں وہ خود بھی ترنم سے بڑھتا تھا جو بھارتی مشاعروں کی عام اور مقبول روش ہے لیکن بہت جلد اُس نے اس بونس کے لینے سے انکار کرتے ہوئے تحت اللفظ میں شعر خوانی کا ایک ایسا انداز متعارف کرایا جس میں ایک خاص طرح کی غیر سنجیدگی کے باوجود ایسی اپیل اور کشمکش تھی کہ وہ سب شاعروں میں الگ اور منفرد نظر آتا تھا۔
مجھے اس کے ساتھ گزشتہ چالیس برس میں کئی بار بھارت، پاکستان، خلیجی ممالک، سعودی عرب، امریکا اور کینیڈا وغیرہ میں مشاعرے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے ہر جگہ اُسے مشاعرہ لُوٹتے ہی دیکھا ہے اب یہ بحث الگ ہے کہ صرف مشاعروں کی مقبولیت سے کسی شاعر کا مقام متعین کرنا درست ہے یا نہیں لیکن راحت پر یہ اصول اس لیے لاگو نہیں ہوتا کہ اُس کے کلام نے کتابی صورت میں چھپ کر بھی معقول حد تک مقبولیت حاصل کی ہے البتہ مشاعرے کے اسٹیج کی حد تک وہ اپنی مثال آپ ہی تھا۔ پاکستان کے چار ایسے شاعر اس وقت میرے ذہن میں آ رہے ہیں جن کے مشاعرہ پڑھنے کا انداز نہ صرف عام شعرا سے مختلف تھا بلکہ وہ اس میں راحت اندوری کی طرح ادائیگی کے ڈرامائی پینتروں سے بھی کام لیتے تھے، ان میں اُستاد دامن (پنجابی)، صہبا اختر، دلاور فگار اور ساقی فاروقی شامل ہیں۔
بھارت میں راحت کے علاوہ بھی بہتوں نے اس اداکارانہ انداز کو اپنانے کی کوشش کی ہے مگر کسی کو بھی راحت جیسی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اُسے مائیکروفون کی زبان سے نسبتاً زیادہ آگاہی تھی اور یوں اس کی ڈلیوری کا انداز بھرپور انداز میں سامعین پر اثر کرتا تھا اور سونے پر سہاگہ اُس کی شاعری کے وہ مضامین تھے جن کا براہ راست تعلق عوام کے عمومی جذبات سے ہوتا تھا۔
مجھے یاد ہے کوئی دس بارہ برس قبل حیدر آباد دکن کے ایک مشاعرے میں اُسے تین بار عوام کے پُرزور اصرار پر مزید پڑھنے کے لیے بلایا گیا بطور انسان بھی میں نے اُسے کم از کم پاکستانی دوستوں اور مہمانوں کی حد تک ہمیشہ بہت مہذب اور محبتی پایا اُس کی اس محبت ا ور احترام کی کئی یادیں میرے دل میں محفوظ ہیں لیکن کالم کی گنجائش کے پیش نظر میں انھیں آیندہ کے لیے محفوظ رکھتا ہوں اور اُس کی مغفرت کی دعاکے ساتھ اُس کے چند ایسے اشعار آپ سے شیئر کرتا ہوں جو مجھے بہت پسند ہیں سب سے پہلے ایک نعت کے چند اشعار دیکھئے:
امینِ حرف و صدا بھی یہیں کہیں ہوگا
شفیعِ روزِ جزا بھی یہیں کہیں ہو گا
یہ ذاتِ پاکِ رسولِ خداؐ کی محفل ہے
مجھے یقیں ہے خدا بھی یہیں کہیں ہو گا
اور اب کچھ متفرق اشعار:
میرے حُجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو، لے آئو، زمین پر رکھ دو
......
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا
......
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
......
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو
گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے
دروازے پر لکھا ہوا ہے سچ بولو
......
ایک چنگاری نظر آئی ہے بستی میں اُسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارا کر کے
منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پہ بلالوں گا اشارا کر کے
......
بچا کے رکھنا محبت کے پھیر سے خود کو
یہ اچھے اچھوں کی حالت بگاڑ دیتی ہے