متحدہ عرب امارات کا دانش مندانہ فیصلہ
صدر ٹرمپ نے جس معاہدے کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہ تاریخی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اچانک اور حیران کن اعلانات کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے اکثر بیانات غیر متوقع اور چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔ 13 اگست کو انھوں نے ایک بیان کے ذریعے پوری دنیا بالخصوص ہمارے ملک میں بہت سے لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ انھوں نے دنیا کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے ہیں اور ان دو ''عظیم'' دوستوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طے پا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے جس معاہدے کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہ تاریخی ہے۔ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تنازعات اور دشمنی کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ اسرائیل کے وجود میں آتے ہی اس محاذ آرائی کا آغاز ہوگیا تھا۔ برطانیہ نے 1942ء میں جرمنی کے خلاف عرب لیگ کا تصور کیا تھا۔ 1945ء میں یہ تنظیم قائم ہوگئی جس میںفلسطین کو بھی شامل کیا گیا جس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ عرب دنیا اسرائیل کے وجود کو کسی بھی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ تنازعہ بنیادی طور پر مذہبی حوالہ بھی رکھتا ہے جس پر بہت زیادہ لکھا، پڑھا اور بولا جاچکا ہے لیکن یہ اس وقت ہماری بحث کا موضوع نہیں ہے۔ بہرحال یہ تذکرہ ضروری ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے مشرق وسطیٰ اور فلسطین کا پورا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگین تھا۔ ترکی کے قبضے کے خلاف یہاں جو مزاحمت ابھری اس کے دو رنگ تھے۔ ترک نسلی بالادستی نے عرب قوم پرستی کی تحریک پیدا کی جب کہ یہودی بھی ترکوں کے خلاف ہو گئے اور ان میں صہیونیت کا ابھار ہوا۔ پہلی جنگ عظیم میں عربوں اور یہودیوں دونوںنے اتحادی طاقتوں کا ساتھ دیا۔
یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ صہیونیت اور عرب قوم پرستی دونوں تحریکوں کی بنیاد یورپ میں ڈالی گئی تھی۔ صہیونی کانگریس 1897ء میں باسل جب کہ عرب کلب کا قیام 1906ء میں فرانس میں عمل میں آیا تھا۔ یہودی برادری کے لوگوں نے 20 ویں صدی کے آغاز سے قبل ہی فلسطین کی جانب بڑی تعداد میں نقل مکانی کرنی شروع کر دی تھی اور عثمانی ترک زمینداروں سے زمین خرید کر وہاں آباد ہونا شروع کر دیا تھا۔ 19 ویں صدی کے اختتام تک فلسطین کی آبادی تقریباً 6 لاکھ تھی جن کی اکثریت مسلمان عربوں پر مشتمل تھی۔
1948ء میں جب اسرائیلی ریاست قائم کی گئی تو عربوں اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ ہوئی، لبنان، شام، اردن اور عراق کی فوجوں نے کافی بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا لیکن جلد ہی انھیں وہاں سے پسپا ہونا پڑا اور اسرائیل نے اردن اور مصر کے زیر اثر مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا۔
اس لڑائی کی وجہ سے کم از کم 70 ہزار فلسطینی اپنے ہی علاقے میںمہاجر بن گئے کیوں کہ عرب رہنمائوں نے ان سے یہ وعدہ کیاتھا کہ جنگ میں فتح کے بعد وہ اپنے آبائی علاقوں میں واپس چلے جائیں گے ۔ اس جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد بہت سے فلسطینی اپنے گھروں کو واپس نہ جاسکے کیوں کہ ان علاقوں پر اب اسرائیل کا قبضہ ہوچکا تھا۔ 1948ء اور 1952ء کے دوران تقریباً 7 لاکھ یہودی نقل مکانی کرکے اسرائیل آگئے جن میں سے تقریباً 3 لاکھ وہ تھے جو عرب ملکوں میں آباد تھے۔
1956ء میں مصر نے سوئز نہر کو قومی ملکیت میں لے لیا اور اس نہر کو اسرائیل کے لیے بند کردیا۔ اسرائیل نے جوابی اقدام کیا ، برطانیہ اور فرانس کی مدد سے جزیزہ نما سینائی پر اپنا قبضہ جما لیا۔ اس محاذ آرائی کو ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے مداخلت کی، اسرائیل مصر کے علاقوں سے واپس جانے پر تیار ہوگیا لیکن اس کے بدلے میں مصر، اسرائیل کو جہاز رانی کی اجازت دینے اور سینائی کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بدستور قائم رہی جس کی انتہا تیسری عرب اسرائیل جنگ کی شکل میں سامنے آئی۔
جون 1967ء میں اس جنگ کا آغاز ہوا جو محض 6 دن جاری رہنے کے بعد 10 جون 1967ء کو ختم ہو گئی۔ یہ جنگ اسرائیل اور اس کے پڑوسی عرب ملکوں مصر، اردن اور شام کے درمیان لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں ایک بار پھر اسرائیل کو زبردست فتح حاصل ہوئی اور اس نے چند دنوں کے اندر حیرت انگیز کامیابی حاصل کرتے ہوئے غزہ کی پٹی، سینائی، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ 1967ء کی تیسری عرب، اسرائیل جنگ سے یہ حقیقت واضح ہوگئی تھی کہ مغربی طاقتیں اسرائیل کے ساتھ ہیں اور اسے شکست دینا عرب ریاستوں کے لیے شاید ممکن نہیں ہوسکے گا۔
امریکا کی طرف سے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں جن میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ سب سے اہم قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ معاہدہ امریکی صدر جمی کارٹر کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ 17 ستمبر 1978ء کو طویل خفیہ مذاکرات کے بعد مصر اور اسرائیل امن معاہدے پر رضامند ہوگئے۔ اس امن معاہدے کی عالمی سطح پر کافی پذیرائی ہوئی اور مصر کے صدر سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم بیجن کو مشترکہ طور پر نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ اس وقت تک مصر عرب دنیا کا سب سے طاقتور ملک سمجھا جاتا تھا۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل کے خلاف قائم عربوں کا متحدہ محاذ ختم ہوگیا۔
عرب دنیا میں مصر کے خلاف شدید جذبات پیدا ہوئے جب کہ عراق کے صدر صدام حسین نے مصر کا خلا پر کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مصر اور اسرائیل کے درمیان 1980 ء میں سفارتی تعلقات قائم ہوگئے، ایک دوسرے کے خلاف عائد پابندیاں ختم کردی گئیں اور دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ پروازوں کابھی آغاز ہوگیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد عرب اسرائیل تعلقات میں رفتہ رفتہ بہتری آنے لگی۔ 1993ء میں پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدہ اور 1994ء میں اسرائیل اور اردن کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔
عرب ، اسرائیل تعلقات میں کشیدگی کے مذہبی، نسلی، سیاسی اور معاشی اسباب ہیں۔ ان کے درمیان کشیدگی کی تاریخ بہت قدیم ہے لیکن اب متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ یو اے ای آبادی کے لحاظ سے ایک بہت چھوٹا ملک ہے لیکن اس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا فیصلہ ہراعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے جس پر جذباتی نہیں بلکہ سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے درج ذیل حقائق کو پیش نظر رکھا جانا چاہیے۔
-1 آج کی دنیا19 ویں صدی کی دنیا سے بالکل الگ ہے۔ موجودہ صدی میں جنگوں کے ذریعے ملکوں پر نہ قبضہ کیا جاسکتا ہے اور ان کو توڑناممکن نہیںہے۔ موجودہ دنیا ایک معاشی اکائی بنتی جارہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام یا فوجی کشیدگی سے ہر ملک کا نقصان ہوگا لہٰذا جنگ جویانہ پالیسیوں کی کامیابی کا امکان بھی ختم ہوگیا ہے۔
-2 اسرائیل کی آبادی تقریباً 90 لاکھ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا صرف 0.11 فیصد ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ لیں کہ کراچی کی آبادی اسرائیل سے تین گنا زیادہ ہے۔ اسرائیل نے یہ سمجھ لیا تھا کہ معاشی ترقی، جدید ٹیکنالوجی، سائنس اور تحقیق کے ذریعے ہی اس کی بقا ممکن ہے۔ اس وقت اسرائیل کی کل داخلی پیداوار 387 ارب ڈالر یعنی پاکستان سے 100 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ اس کی برآمدات 60 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں اوراس کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ انسانی ترقی کے حوالے سے بھی وہ دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔
-3 عرب اور مسلمانوں کی صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب 80 کروڑ ہے اور عالمی آبادی میں اس کا تناسب 24 فیصد ہے۔ دنیا کے 50 سے زیادہ مسلمانوں کی کل یعنی مشترکہ جی ڈی پی فرانس کی جی ڈی پی سے کم ہے جب کہ امریکا کی صرف ایک ریاست، کیلی فورنیا کی جی ڈی پی فرانس سے زیادہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں نے اپنے اپنے ملکوں کے لیے کتنے ''کارہائے نمایاں'' سرانجام دیے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کا اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ جب سے تیل کی سیاست کا خاتمہ ہوا ہے اور بے پناہ دولت کمانے کا ذریعہ ختم ہورہا ہے اس کے بعد سے عرب ملک بھی اپنا انداز فکر تبدیل کرتے ہوئے حقیقت کی دنیا میں واپس آ رہے ہیں۔ ہم بھی خوابوں، نعروں اور ترانوں کی دنیا سے جتنا جلد باہر نکل آئیں اتنا ہی ہمارے ملک اور عوام کے لیے بہتر ہوگا۔