پولیس مقابلہ چشم کشا حقائق…
غیر قانونی اسلحہ کے ملزمان کے خلاف دو خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔۔۔
غیر قانونی اسلحہ کے ملزمان کے خلاف دو خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جو پبلک پراسیکیوٹر رینجرز کی جانب سے مقدمات فوری چلائیںگے۔ موجودہ آپریشن کے تینوں مراحل میں بڑی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ برآمد کرنے کے دعوے کیے گئے اور ایک بڑی تعداد اس الزام میں گرفتار کی گئی۔ ماتحت عدالتوں نے عمومی طور پر پیش کیے جانے والے تمام چالانوں میں نامزد ملزمان کو ضمانتوں پر رہائی دے دی ہے۔ کیوںکہ اس کی ایک بنیادی وجہ کمزور تفتیش اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بے گناہ افراد پر متعدد اسلحہ رکھنے کی کوشش میں متعدد سقم موجود تھے۔
غنیمت یہ ہے کہ موجودہ آپریشن میں جتنے مقدمات غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے سلسلے میں قائم کیے گئے تھے ماتحت عدالتوں نے چالان پیش کرنے کے بعد انھیں ضمانت دینے میں تامل نہیں برتا اور بے گناہ عوام کو مزید اذیت سے بچایا، تاہم چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹس کے جج صاحبان اور جوڈیشنل مجسٹریٹ صاحبان کی توجہ ''پولیس مقابلے'' کی جانب کروانا مقصود ہے۔
تعزیرات پاکستان میں پولیس مقابلے کے لیے سیکشن 353 لگائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ دفعہ 324 یعنی ارادہ قتل، جان سے مارنے کی کوشش اور ایک سے زیادہ افراد ہونے کی صورت میں دفعہ 34 کا اطلاق کیاجاتا ہے، اس وقوع میں 13/D یا 23/A اسلحہ برآمدگی کی صورت میں عائد کیا جاتاہے اور ایک دوسری FIR اس ضمن میں کاٹی جاتی ہے۔
جیل میں ہونے کے سبب ان جعلی پولیس مقابلوں کے بارے میں بڑی دلچسپ معلومات حاصل ہوئیں۔ پہلے اس حوالے سے کچھ قیدیوں کے مقدمات کا ذکر کرنا مناسب ہوگا تاکہ پولیس مقابلوں کے حوالے سے درست صورت حال سامنے آسکے۔
تھانہ لانڈھی 4 سے 2010 میں گرفتار کیے گئے محمد علی احمد خان پر 271/10 کے تحت مقدمہ با الزام 13/D، 324/34، 353 عائد کیا گیا۔ 3 سال بعد اس مقدمے کا فیصلہ ہوا اور محمد علی احمد خان 3 سال بعد باعزت بری ہوا۔ 19 ماہ وہ جیل میں قید رہا اور اس کی ضمانت منظور نہیں کی گئی تھی۔ مقدمہ پولیس مقابلے کا بنا تھا، جس میں کوئی پولیس اہلکار، عوام یا دیگر زخمی نہیں ہوا۔ 5 افراد کے ساتھ پولیس مقابلہ ہونے کے بعد کسی کا زخمی نہ ہونا حیران کن ہی تھا۔ لیکن اس کے ساتھ 324 کی دفعہ لگائی گئی تھی کہ ''جان سے مارنے کی کوشش کی گئی '' لیکن یہ تو باعزت رہائی پانے والے ایک شخص کی روداد تھی۔ حالات و واقعات پر تنگی صفحات کی وجہ سے بحث مختصر کرتا ہوں۔
تھانہ سہراب گوٹھ میں پنجاب لودھراں سے آنے والے ایک کاروباری مشتاق احمد پر مارچ 2013 میں 353, 324/34،13/D کے دو مقدمات درج ہوئے۔ مشتاق احمد کے مطابق پولیس اہلکاروں نے الٹا اسے اغوا کیا۔ 34 لاکھ روپے کے چیک زبردستی کٹوا کر بینک سے کیش کروائے اور پھر جعلی پولیس مقابلے میں ملوث کردیا۔ ان کے مطابق انھوں نے سی سی ٹی وی فوٹیج سمیت تمام ثبوت عدالت میں جمع کرائے اور جعلی پولیس مقابلے میں کوئی زخمی بھی نہیں ہوا۔ اس کے باوجود 9 ماہ سے وہ جیل میں قید ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس مقدمے میں ایک ملزم کو ضمانت دے دی گئی لیکن انھیں بااثر پولیس آفیسر ضمانت نہیں لینے دے رہا۔ جب کہ اسی مقدمے دوسرے ملزمان ضمانت پر ہے۔
تھانہ گارڈن میں 2012 میں عبدالمالک پر 179/12 کے تحت مقدمہ با الزام پولیس مقابلہ لگا اور ان پر بالا دفعات لگائی گئیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے گائوں سنجرپور سے ہے اور یہ ایک فیکٹری میں سیکیورٹی گارڈ تھے۔ CIA نے 6 افراد کو اس طرح گرفتار کیا کہ ان کے پاس ارادہ پولیس مقابلہ کے وقت کوئی گاڑی نہیں تھی۔ رات کے دو بجے تھے اور یہ تمام پولیس والے بھی ''معجزانہ طور پر'' 6 افراد کی فائرنگ سے محفوظ رہے۔ عبدالمالک کو ڈیڑھ سال میں صرف دو مرتبہ عدالت میں پیش کیا گیا۔
تھانہ عوامی کالونی میں درج FIR نمبر 117/12 کے تحت گرفتار رحمت اﷲ پر بھی پولیس مقابلہ با الزام 353, 324 اور 13/D کے تحت دوسرا مقدمہ بنایا گیا۔ 11ماہ سے جیل میں قید ہے۔ ''معجزانہ طور پر'' اس کیس میں بھی پولیس اہلکار بچ گئے اور ان کو جان سے مارنے کی تمام کوشش ناکام ہوئی۔ نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔
گزشتہ دنوں ایک حساس ادارے کے پولیس آفیسرز کے حوالے سے ''روزنامہ ایکسپریس'' میں خبر شایع ہوئی کہ ہر سال محرم الحرام سے کچھ دن قبل پولیس مقابلوں میں وہ طالبان کو ہلاک کردیتے ہیں اور شہر کو بڑے ''نقصان'' سے بچالیتے ہیں۔ متواتر 4 سال میں 4 مبینہ مقابلے عوام کو حکومتی اداروں کے لیے قابل غور ہے۔ پولیس مقابلوں کے حوالے سے متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں کہ کس طرح جعلی پولیس مقابلوں میں ملزمان ہلاک کردیے جاتے ہیں۔ حیرت ناک مثالوں میں رحمان بلوچ اور ارشد پپو کا واقعہ ہے۔ جہاں اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس میں موجود کالی بھیڑیں، سیاسی مقاصد کے لیے کس طرح پولیس مقابلوں کی آڑ لیتی ہے اور اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے۔
متنازعہ پولیس مقابلوں میں جس طرح بے گناہ افراد کو نامزد کیا جاتا ہے اور زخمی ہوئے بغیر ان پر مقدمات لاد دیے جاتے ہیں، وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوال ہے۔ متعدد ملزمان اور پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے کسی اہلکار یا ملزم کا زخمی نہ ہونا اور عوام کو خبر نہ ہونا خود سب سے اہم مشکوک صورت حال ہوتی ہے۔
عمومی طور پر ان مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تمام گواہیاں پولیس اہلکاروں کی ہوتی ہیں، عوام کی جانب سے کوئی گواہی اور شواہد نہیں ہوتے۔ زیادہ سے زیادہ گاڑی پر دو فائر سے زیادہ کے نشان نہیں ہوتے۔ فائرنگ سے پولیس موبائل کے شیشے تک بچ جاتے ہیں۔ کیوںکہ وہ مہنگے ہوتے ہیں اور سب خرچہ تو پولیس اہلکاروں کو ہی برداشت کرنا ہوتا ہے۔ جعلی پولیس مقابلوں کا سب سے تاریک پہلو اس وقت سامنے آیا جب سفاری پارک میں خود ایک پولیس افسر کو جعلی پولیس مقابلے میں لینڈ مافیا کے ہاتھوں ہلاک کرادیا گیا۔ سی سی فوٹیج سے تمام بھانڈا پھوٹ گیا، ورنہ اصل حقیقت کبھی سامنے نہ آسکتی۔
اصل المیہ یہ ہے کہ عدالتوں میں جب جج صاحبان کے سامنے یہ مقدمات پیش کیے جاتے ہیں تو وہ انویسٹی گیشن آفیسر سے پوچھتا ہے کہ ''کیا کوئی زخمی ہوا؟'' جواب ملتاہے کہ ''نہیں''۔ ''عوام میں سے کوئی زخمی ہوا؟'' جواب ملتا ہے کہ ''نہیں''۔ گاڑی پر نشانات ہیں۔ جواب ملتاہے کہ ''ایک گولی سائیڈ اور ایک بمپر پر لگی'' ونڈ اسکرین پر کیوں نہیں لگی؟ تو جواب میں خاموشی ملتی ہے۔
اس موقع پر جج صاحب کے ریمارکس ہوتے ہیں کہ ''خدا کا خوف کرو'' لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ ظاہر ہونے کے بعد بھی کہ مقابلہ جعلی اور خود ساختہ ہے ملزم جیل میں برسوں پڑا رہتا ہے۔ ضمانت حاصل کرنے میں شدید مشکلات اور ستم یہ ہے کہ کورٹ میں پیشی بھی متواتر نہیں ہوپاتی اور اکثر مقدمات تو چل بھی نہیں پاتے اور اس کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔
اس صورت حال میں عدلیہ کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ایسے مقدمات کو ترجیحی طور پر چلائیں اور جھوٹے مقدمات جس میں ''معجزانہ طور پر بچ گئے'' اور ''مخبر خاص'' کی اطلاع تھی پر ملزم کو فائدہ دیں تاکہ وہ ضمانت کراکر اپنے اہل و عیال کے پاس جاسکے اور اس کی زندگی تباہ نہ ہو۔ سپریم جوڈیشنل کمیٹی کو اپنے ماتحت عدالتوں میں چلنے والے تمام مقدمات کے حوالے سے تفصیلی پالیسی مرتب کرنا ہوگی اور ایسے مقدمات جس میں شنوائی نہیں ہورہی اور لاتعداد قیدی قسمت کے بھروسے پر برسوں سے بند ہیں انھیں انصاف فراہم کرنے کے لیے مربوط طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا۔
خصوصی عدالتیں بناکر مقدمات کو جلد چلانا اچھا فیصلہ ہے۔ لیکن ایسے تمام مقدمات جس میں برسوں بعد قیدی ''باعزت بری'' ہوتا ہے اس کے ساتھ انصاف کون کرے گا اور جس نے ان کے خاندان کی زندگیاں برباد کیں انھیں چھوٹ کیوں دی جاتی ہے کہ وہ یہ عمل جاری رکھتے رہیں۔