پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مستقبل کپتان کے فیصلے پر منحصر ہے

الیکشن سے قبل اور الیکشن کے بعد سب سے زیادہ زیر بحث یہ معاملہ تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کا وزیر اعلی کون ہوگا۔


رضوان آصف August 19, 2020
الیکشن سے قبل اور الیکشن کے بعد سب سے زیادہ زیر بحث یہ معاملہ تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کا وزیر اعلی کون ہوگا۔ فوٹو : فائل

RAWALPINDI: وزیر اعظم عمران خان کی خوبی کہہ لیں یا خامی قرار دے دیں لیکن کپتان کی عادت ہے کہ وہ جائز یا ناجائزضد پر ڈٹ جائے تو پھر ڈٹا رہتا ہے خواہ کیسی ہی مخالفت مول لینا پڑے یا پھر اپنا ہی نقصان اٹھانا پڑ جائے۔

کھیل کے میدان میں یا سماجی فلاح وبہبود کے معاملات میں تو شاید یہ رویہ زیادہ نقصان دہ نہ ہوتا ہو لیکن سیاست اور حکومت میں یہ ہر طرح سے تباہ کن ہوتا ہے کیونکہ سیاست اور حکومت ''ہٹ دھرمی''کی بند گلی میں آگے کی منزل کھو بیٹھتی ہے، شاید اسی لیئے دنیا کے ہر مہذب جمہوری ملک میں سیاستدان اور حکمران اپنے رویوں کو ''اوپن'' رکھتے ہیں اور جہاں انہیں یقین کامل ہو کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر ان کے کسی فیصلے میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو وہ ''یو ٹرن'' لینے سے شرماتے یا گھبراتے نہیں ہیں اور جہاں انہیں معلوم ہو کہ کسی فیصلے پر ڈٹے رہنے میں اجتماعی مفاد ہے تو پھر وہ ہر دباو کو سہہ جاتے ہیں۔

لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کوئی حکمران یا سیاستدان اپنے کسی فیصلے کے منفی در منفی نتائج کو دیکھتے ہوئے بھی انہیں درست قرار دیتا اور شخصیات کی اندھی حمایت جاری رکھتا ہے تو وہ اپنی سیاست کے تابوت میں آخری کیل تو ٹھونک رہا ہوتا ہے لیکن ملک و قوم کو بھی زندہ درگور کر رہا ہوتا ہے۔ اسی لیئے دانا حکمران اپنی ٹیم کے انتخاب میں صلاحیت، استعداد، قابلیت اور حب الوطنی کو اپنے ساتھ وفاداری سے کہیں زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

سوشل میڈیا کی دنیا میں آج بھی کپتان کی وہ تقاریر محفوظ ہیں جن میں وہ دعوی کیا کرتے تھے کہ ان کی کابینہ مختصر ہو گی اور ان کی ٹیم کا ہر رکن اپنے آپ میں درنایاب ہوگا۔کپتان کی حکومت کے قیام کو دو برس مکمل ہوگئے ہیں اور ان دو برسوں میں عوام کی حالت نہیں بدلی ہے،کورونا تو چند ماہ کا معاملہ ہے لیکن مجموعی طور پر ملکی معاشی صورتحال اور حکومتی کارکردگی کے مسائل اور خامیاں تو روز اول سے چلی آ رہی ہیں۔کبھی کبھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن جیتنے کے فوری بعد کپتان کی ٹیم سلیکشن کے اختیار ''محدود'' کر دیئے گئے تھے۔

جہانگیر ترین کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر الیکٹ ایبلز نہ لیئے جاتے تو عمران خان کا وزیر اعظم بننا ناممکن تھا کیونکہ بطور سیاسی جماعت خود تحریک انصاف کے اندر یہ استعداد نہیں تھی کہ وہ حکومت بنانے کیلئے درکار نشستیں جیت پاتی۔الیکٹ ایبلز نے 70 کے لگ بھگ قومی نشستیں اور اس سے زیادہ صوبائی نشستیں جیت کر کپتان کو وزیر اعظم تو بنا ڈالا تاہم اس کے عوض بڑے گروپس کو وزارتیں اور عہدے دینا پڑے۔ حکومتی عہدوں پر ایسے چہروں کی بہتات بھی دکھائی دی جو ماضی قریب میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) کا حصہ رہے ہیں ۔

الیکشن سے قبل اور الیکشن کے بعد سب سے زیادہ زیر بحث یہ معاملہ تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کا وزیر اعلی کون ہوگا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی اولین خواہش تھی کہ پنجاب کیلئے عبدالعلیم خان اور خیبر پختونخوا کیلئے عاطف خان کو وزیر اعلی بنایا جائے۔ عاطف خان کی مخالفت پرویز خٹک گروپ نے کی اور محمود خان ڈارک ہارس بن کر سامنے آ گئے۔ پنجاب میں 25 جولائی کو الیکشن جیتنے کے فوری بعد ملک بھر میں تحریک انصاف کو یہ علم ہو گیا تھا کہ عبدالعلیم خان وزیر اعلی بن رہے ہیں یہاں تک کہ شاہ محمود قریشی اور چوہدری محمد سرور بھی یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے بھی علیم خان کی حمایت کردی ہے لیکن پھر تین دن بعد ہی نیب نے عبدالعلیم خان کو طلب کیا اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے متعدد کال نوٹس جاری ہوتے رہے اور تین سے چار دن میں ہی علیم خان آوٹ اور عثمان بزدار ''ان'' ہو گئے تھے۔

علیم خان کے بعد سب سے مضبوط امیدوار میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید، ہمایوں یاسر اور ہاشم جواں بخت سمجھے جاتے تھے لیکن وہ سب بھی نظر انداز ہو گئے۔ بعض ذرائع یہ دعوی کرتے ہیں کہ علیم خان سمیت دیگر اہم رہنماوں کو نظر انداز کر کے ایک ''نامعلوم'' طرز کے نویں نکور انصافین کو وزیر اعلی بنانے کا مقصد وفاق کی گرفت پنجاب پر مضبوط رکھنا تھا۔ عمران خان کے سیاسی سفر پر نگاہ ڈالیں تو جس شدت اور مضبوطی کے ساتھ کپتان نے سردار عثمان بزدار کا ساتھ دیا ہے ویسی اندھی حمایت کسی پی ٹی آئی لیڈر کو بھی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میں حکومت سازی کے حوالے سے''ہما'' کی حیثیت رکھنے والے سب سے بڑے صوبہ کی وزارت اعلی کے منصب پر سردار عثمان بزدار کی تعیناتی عمران خان کیلئے شدید تنقید کا سبب بنی ہوئی ہے۔

اپوزیشن کا تو مزاج ہی یہ ہوتا ہے کہ اس نے ہر اچھے کام میں بھی برائی تلاش کرنا ہوتی ہے اور اگر حکومت خود کوئی غلط کام کر بیٹھے پھر تو اپوزیشن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں اس لئے اپوزیشن نے تو دو برس سے سردار عثمان بزدار کو ''ٹارگٹ'' بنا رکھا ہے لیکن عوام، میڈیا، بیوروکریسی، کاروباری افراد غرض یہ کہ پنجاب کے عوام کی اکثریت بھی صوبائی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ پنجاب میں گزشتہ دو برس کی حکومتی کارکردگی اور فیصلہ سازی کا غیر جانبدار تجزیہ بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ سب اچھا نہیں ہے۔

تمام باخبر حلقوں کو بخوبی علم ہے کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے بھی سردار عثمان بزدار کی کارکردگی پر تحفظات پیش کیئے جاتے ہیں اور متعدد بار وزیر اعظم کو اس حوالے سے ''نظر ثانی'' کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر بھی پنجاب حکومت کے حوالے سے شدید تحفظات پائے جاتے ہیں جن کا اظہار منظر عام پر آتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان آج کے دن تک سردار عثمان بزدار کی پشت پر آہنی دیوار بن کر کھڑے ہیں اور نیب میں سردار عثمان بزدار کی طلبی کے حوالے سے بھی ان کے خاموش مگر شدید تحفظات موجود ہیں۔ تحریک انصاف کے اہم حلقوں میں یہ سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں کہ کپتا ن سمجھتے ہیں کہ جب وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں اور ان کی ہر اہم''تجویز'' پر عملدرآمد بھی کر رہے ہیں تو پھر ان کے منتخب کردہ سردار عثمان بزدار کے خلاف اقدامات اور میڈیا ٹرائل ناقابل برداشت ہیں۔

دوسری جانب وزیر اعلی پنجاب کے خلاف نیب کارروائی نے صوبائی کابینہ اور بیوروکریسی کو بھی ''محتاط'' کردیا ہے اور حکومتی معاملات سست روی کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ آج کے دن تک عمران خان نے سردار عثمان بزدار کی حمایت ترک نہیں کی ہے اور شاید اس حمایت کی وجہ سے انہیں پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ مستقبل میں پنجاب میں تبدیلی لانا ناگزیر ہو جائے گا تو پھر کپتان کیلئے ایک بڑا چیلنج نئے وزیر اعلی کا انتخاب ہوگا۔کچھ حلقوں کا دعوی ہے کہ کپتان آئندہ بھی وزیر اعلی کا انتخاب لاہور کی بجائے کسی دوسرے ضلع سے کرے گا لیکن کپتان کی سوچ کو سمجھنے کا دعوی کرنے والوں کا دعوی ہے کہ لاہور سے عبدالعلیم خان اور میاں اسلم اقبال اب بھی ''دوڑ'' میں نمایاں طور پر موجود ہیں جبکہ لاہور سے باہر کے امیدواروں میں راجہ بشارت اہم ہوتے جا رہے ہیں۔

سب دعوے اپنی جگہ لیکن کپتان کب کیا سوچ لے اس بارے حتمی طور پر کچھ کہنا کبھی بھی ممکن نہیں رہا، بد ترین سیاسی مخالفت اورنازیبا بیان بازی کے بعد بھی شیخ رشید آج کپتان کی ٹیم میں شامل ہیں اور 10 برس تک کپتان کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والا ،اپنی صحت اور کاروبار کو داو پر لگانے اور پارٹی پر اربوں روپے خرچ کرنے والا جہانگیر ترین آج''راندہ درگاہ'' ہو چکا ہے تو پھر پنجاب کی وزارت اعلی کے منصب کے حوالے سے کچھ بھی ممکن ہے لیکن یہ طے ہے کہ اس بارے فیصلہ عمران خان ہی کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں