پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ
ہماری حکومت کو پھونک پھونک کر اور چھان پھٹک کے بعد کوئی مشترکہ فیصلہ کرنا ہے۔
لگتا یوں ہے کہ جناب عمران خان ملک میں کسی تبدیلی کے لیے نہیں بلکہ سیاستدانوں کے اثاثوں کی تلاش کے لیے حکومت کر رہے ہیں اورگزشتہ دو دہائیوں کی اپنی سیاسی جدو جہد میں وہ انھی اثاثوں پر غورو فکر کرتے رہے ہیں چنانچہ پہلے تو انھوں نے خود اپنے حقیر اثاثوں کا انکشاف کیا اور پھر وہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی والوں کے اثاثوں کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے ہیں ۔
اگر یہ کہا جائے توشاید غلط نہ ہو گا کہ عمران خان نواز لیگ کے اثاثوں کی جستجو میں سیاست کے خارزار میں داخل ہوئے ہیں کیونکہ ہمارا خیال تھا اور یہ روح افزاخوش فہمی بھی تھی کہ عمران خان سیاسی مخالفت سے بالاتر ہو کر پورے ملک کے سیاستدانوں کے لیے کوئی یکساں احتسابی عمل شروع کریں گے اور قوم کے سامنے ان کے استحصالیوں کے اعمال کھلیں گے لیکن ابھی تک کے حالات و قرائن بتاتے ہیں کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی جن میں نواز لیگ کو برتری حاصل ہے اس کا صرف احتساب ہو رہا ہے جس کے مثبت نتائج کا قوم کو انتظار ہے ۔
عمران خان نے وہ کام شروع کیا ہے جو پوری قوم گزشتہ ستر برسوں میں خواہش کے باوجود نہیں کر سکی تھی اور نہ ہی اس کا کوئی امکان دکھائی دیتا تھا ۔ لیکن عمران خان کے احتسابی نعرے نے اس کام کا آغاز کیا اور قوم نے اس نعرے کا جواب ان کو ووٹوں کی صورت میں دیا۔ قوم عمران خان پرٹوٹ پڑی کہ اس کی دعاؤں کا جواب آرہا ہے ۔
قوم کی امیدوں کا مرکز عمران خان کی ذات ہے ان کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ وہ قوم کو مایوس نہ کرے اور اپنی احتسابی مہم کو سیاسی مخالفین تک محدود نہ کرے ورنہ وہ خود قوم کے غضب کا نشانہ بن جائے گا بلکہ اس سے زیادہ خطرہ یہ ہے کہ قوم کا اس ملک پر جو تھوڑا بہت اعتماد رہ گیا ہے وہ بھی ختم نہ ہو جائے کیونکہ عمران خان اس وقت قوم کی ایک امید ہے اور امیدوں کا ٹوٹنا بڑا ہولناک ہوتا ہے ایک مدت کے بعد پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام نے ایک جماعت کو ووٹ دیے ہیں بلکہ خیبر پختون خوا والوں نے تو اپنی روایات کے برعکس عمران خان کی جماعت کو مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار دیا ہے۔
کراچی سے ایک طویل مدت کے بعد ایم کیو ایم کے بعد تحریک انصاف بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جو اس بات کا اعلان تھا کہ ان کی بات کو طورخم سے کراچی تک سنا گیا ہے چنانچہ انھیں ایک جماعت یا صوبے کی سیاست نہیں پورے پاکستان کی سیاست کرنی ہو گی۔ پورا ملک ان کا منتظر ہے۔ اس ملک میں غلاظت کے انبار لگے ہوئے ہیں اور ناجائز اثاثوں کے پہاڑ موجود ہیں عمران خان اگر سیاست میں صفائی کر سکیں تو وہ محسن پاکستان کہلائیں گے اگر وہ محدود ہو گئے چھوٹے لوگوں میں گھر گئے تو وہ قوم کو مایوس کریں گے ۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تازہ امن معاہدے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا ۔ انھوں نے اس معاملے میں پاکستان کے دوٹوک موقف کا اظہار کیا ہے جب کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اس توقع کا اظہار کر دیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران بھی اسرائیل امن معاہدے میں شامل ہو جائیں گے، معلوم یوں ہوتا ہے کہ امریکا نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔
مشرق وسطیٰ امن معاہدے میں سعودی عرب کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان ممالک اس معاہدے کے بعد امت مسلمہ کے مرکز سعودی عرب کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہاں کیا فیصلہ ہوتا ہے لیکن اندرون خانہ کیا چل رہا ہے وہ جلد سامنے آجائے گا اس دوران ہماری فوجی قیادت سعودی عرب کا دورہ کر چکی ہے جب کہ ہمارے وزیر خارجہ ان دنوں دوست ملک چین کے دورے پر ہیں جس میں وہ ممکنہ طورپر چینی قیادت کو خطے میں وقوع پذیر ہونے والی تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ بھی کریں گے اور ان سے مشورہ بھی کریں گے ۔ چین پاکستان کا ہمیشہ سے اہم اتحادی اور دوست رہا ہے اور اس وقت خطے میں ہونے والی تبدیلیاںاور ممکنہ طور پر طاقت کے نئے بلاک میں چین کا کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
چین سی پیک کی صورت میں پاکستان میں ار بوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے اور اس معاہدے کے تحت ابھی بہت سا کام باقی ہے ۔ چین کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان کسی ایسے بین الاقوامی بلاک کا حصہ بن جائے جس کے مفادات چین سے ٹکراؤ رکھتے ہوں لہٰذا اس کی یہ کوشش ہو گی کہ پاکستانی قیادت اس اہم معاملے پر ذمے داری سے ایسا فیصلہ کرے جو دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کو مزید مضبوط کرے لیکن چین کے دوسری جانب امریکا ہے جو پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کو کسی صورت میں اپنے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا اور اس کی آخری وقت تک یہ کوشش ہو گی کہ پاکستان ہمیشہ کی طرح اس کا ساتھ دے اور وہ اس کو استعمال کرتا رہے ۔
ایٹمی پاکستان کوان حالات میں مشکل فیصلے کرنا ہیں دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ قومی قیادت کو اس اہم ترین معاملے میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ پاکستان مستقبل میں کس بلاک کا حصہ بنے، اس کے لیے پہل حکومت کوکرنا ہو گی اپنے سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کی تمام سیاسی قیادت کو پاکستان کے مستقبل کے مفادات کے لیے متحد کرنا ہے اور فوجی قیادت کی مشاورت سے ملک اورقوم کے مستقبل کا فیصلہ قومی قیادت مشترکہ طور پرکرے تا کہ کل کلاں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ قومی قیادت کا نہیں بلکہ ایک جماعت کا فیصلہ تھا۔ ایسے فیصلوں کے دوررس نتائج ہوتے ہیں لہٰذا ہماری حکومت کو پھونک پھونک کر اور چھان پھٹک کے بعد کوئی مشترکہ فیصلہ کرنا ہے ۔ نیت ٹھیک ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ درست فیصلے کرنے کی توفیق دیتا ہے۔