جینے کا حق
اللہ کی مہربانی اور کسی کی دعا کام آگئی کہ جو عمران خان جیسا وزیر اعظم مسند اقتدار پر براجمان ہوا۔
اللہ کی مہربانی اور کسی کی دعا کام آگئی کہ جو عمران خان جیسا وزیر اعظم مسند اقتدار پر براجمان ہوا۔ بے شک مہنگائی بہت بڑھی ہے، ٹیکسوں میں اضافہ ہوا ہے، گاڑیوں کی قیمتیں ہر روز بڑھ رہی ہیں، بے چارے متوسط طبقے کے لوگ کچھ رقم پس انداز کرکے چھوٹی موٹی گاڑی خرید لیتے تھے اس کی وجہ سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب ہے۔
بہت کم تعداد میں بسیں چلتی ہیں، ان بسوں میں رش کے باعث خواتین کا بیٹھنا تو درکنار کھڑا ہونا بھی مشکل ہے تو ان حالات میں باعزت اور باوقار حضرات کسی نہ کسی طرح سواری کا انتظام کر لیتے ہیں لیکن اب یہ امید بھی گئی، ساتھ میں پٹرول کی قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں گزشتہ دنوں پٹرول پمپ کے مالکان نے اپنی من مانی کی اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرنے کے لیے ذرہ برابر راضی نہیں ہوئے، پمپ کئی دن بند رہے اور عوام پانی کی تلاش کی طرح پٹرول تلاش کرنے مختلف جگہوں کا سفر کرتی اور خوار ہوتی رہی، ان ستم زدہ حالات میں جھکنے کے بجائے سرکاری پمپوں میں اضافہ کرتے اور سستا پٹرول فراہم کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
گزرے ماہ و سال کی طرح ان دنوں بھی خودکشی کرنے کا رجحان اور اس کا گراف مسلسل بلند ہوتا رہا ہے اس کی وجہ غربت اور معصوم بچوں کا عید کے کپڑوں کی تمنا، جوکہ ان کا حق ہے، ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اگر حکومت ہر علاقے میں ایک ایسا ادارہ بیت المال کی شکل میں قائم کرے جہاں سے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کی جائیں، عید، بقر عید اور دوسرے قومی تہواروں پر افلاس زدہ لوگوں ان کے معصوم بچوں کی خواہشات پوری کی جائیں، مظلوم بچے 14 اگست، 23 مارچ کو جھنڈا اور سبز رنگ کی چھوٹی موٹی چیزیں خریدنے کے لیے ترستے ہیں انھیں ہر سال تحفتاً دی جائیں، تاکہ وہ عزت نفس اور تحائف کے تبادلے کی اہمیت کو سمجھ سکیں، اس عمل سے بھیک مانگنا اور چوری کے امکانات کم سے کم ہوں گے۔
امرا اور مخیر حضرات اپنے صدقات وخیرات اور غربا کی امداد کے لیے جو رقم جمع کریں گے، اسی رقم سے یہ کارخیر بخوبی انجام دیا جاسکتا ہے لیکن یہاں تو غریب کا حق ہڑپ کرنے والوں کی کمی نہیں ہے یہ لوگ دولت کے بھوکے اور کفن چور ہیں۔ پچھلی حکومتوں میں ایسے دل خراش واقعات سامنے آئے اور اب بھی آ رہے ہیں ان کی کوئی روک تھام نہیں ہے۔
صوبائی خودمختاری نے اچھے اچھے لوگوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے، ان تمام مسائل اور مصائب کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کے کردار پر شک کرنے کی گنجائش ہر گز نہیں ہے، اس کی وجہ جب وہ حکومت میں آئے تو خزانہ خالی اور ہر ادارہ دیوالیہ تھا سابقہ حکومت کو ملک کے استحکام کی فکر تھی اور نہ اس کے وقار کی کارگل کی کامیابی جنرل (ر) پرویز مشرف کا بڑا کارنامہ تھا لیکن نواز شریف نے امریکا کی ایما پر کرے کرائے پر پانی پھیر دیا۔
آج کشمیریوں کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے سال بھر کا عرصہ ہو چکا ہے، کرفیو لگا کر مودی نے حیوانیت کا بھرپور طریقے سے ثبوت دیا ہے، ایک سال کا عرصہ بہت طویل ہوتا ہے ہر لمحہ مایوسی اور مجبوری کی مثال ہے۔ کشمیریوں کو ہر روز شہید کیا جا رہا ہے، نوجوان شہادت کی راہ پر گامزن ہیں، بیمار، معذور، بزرگ اور خواتین ہندوستانی فوج کی سفاکی کو عرصہ دراز سے سہہ رہے ہیں، لاکھوں کشمیری لڑکیاں ان درندوں کی ہوس کا نشانہ اور پیلٹ گن کے حملے سے اپنی بینائی گنوا بیٹھی ہیں، نوجوانوں کے اغوا اور تشدد کی داستانیں پوری دنیا میں گشت کر رہی ہیں لیکن مجال ہے کوئی آواز اٹھائے۔
ملائیشیا کے مہاتیر محمد، ترکی کے طیب اردگان اور دوسرے ممالک نے اپنا اسلامی بلاک بنانے کا کام شروع کردیا ہے، اسلامی حمیت اور دینی غیرت کا تقاضا ہی یہ تھا، قائد اعظم نے انھی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان بنایا تھا۔ لیکن انھیں یہ تو نہیں معلوم تھا کہ اس پاک سرزمین پر اسی قوم سے میر و صادق بار بار پیدا ہوں گے اور کفار کی خوشنودی کے لیے اپنا اسلامی تشخص اور اسلامی ملک کی بقا کو داؤ پر لگا دیں گے ان کی اور ان کے رفقا کی قربانی و ایثار کو یکسر بھلاکر پاکستان میں نفرت، تعصب اور اقربا پروری کو پروان چڑھائیں گے۔
لیکن وہ اس بات سے بھی باخبر تھے کہ ہندوؤں کی دشمنی کے ساتھ ساتھ انھیں پاکستان کے مخالفین کی طرف سے بھی خطرہ ہے اس کے باوجود ہمت مرداں اور مدد خدا کے تحت اپنے کام میں مصروف رہے۔ تعمیر پاکستان کے وقت علما کی بڑی تعداد مخالف تھی لیکن جب قائد اعظم وفات پاتے ہیں تو اس عظیم مرد مجاہد کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی پڑھاتے ہیں مولویوں کے اس اعتراض کے بعد کہ انھوں نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی تو انکشاف کیا کہ رات انھوں نے سرور کونین حضرت محمد ؐ کی زیارت کی تھی اور میرے آقاؐ کا حکم تھا۔ یہ مرتبہ اللہ تعالیٰ نے قائد اعظم کی انتھک محنت اسلام سے محبت کے صلے میں عطا فرمایا تھا۔ سبحان اللہ!