پنشن کی ادائیگی ایک پہاڑ یا اندھا کنواں
ایک طبقہ کہتا ہے کہ پنشن بالکل نہیں ہونی چاہیے جب کہ دوسرے کا خیال ہے کہ پنشن جاری رہنی چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان نے جب سے یہ کہا ہے کہ پاکستان میں پنشن کی ادائیگی کا معاملہ سرکلر ڈیٹ سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر ایک بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ایک طبقہ کہتا ہے کہ پنشن بالکل نہیں ہونی چاہیے جب کہ دوسرے کا خیال ہے کہ پنشن جاری رہنی چاہیے۔
پنشن کیا ہے اس کی ادائیگی ضروری کیوں ہے اور پاکستان میں پنشن کی ادائیگی مسئلہ کیوں بنی۔ یہ ہیں وہ سوالات ہیں جن کا جائزہ ضروری ہے۔ پنشن ریاست کی جانب سے عوام کو ادا کی جانے والی ایسی رقم ہے جو سرکاری طور پر مقررہ عمر کی حد پوری کرنے پر اس شخص کو یا اس کی بیوہ یا معذور افراد کو دی جاتی ہے جو اس کے قانونی طور پر اہل ہیں۔ اس لحاظ سے پنشن کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
پنشن کی ادائیگی کے لیے لیے دنیا بھر میں ایک طریقہ کار ہے جس کے تحت ایک مخصوص رقم دوران ملازمت ملازم کی تنخواہ سے سے کٹوتی کرکے جمع کی جاتی ہے اس رقم میں متعلقہ ادارہ، اجر یا حکومت ایک مخصوص تناسب سے رقم جمع کرتی ہے، اس رقم کو پنشن فنڈ کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی فنڈ سے پنشن کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
پنشن کے تصور کو سب سے پہلے رومن امپائر نے عملی شکل دی۔امریکا میں 1636 میں پنشن فنڈ قائم کیا گیا جب کہ برطانیہ میں 1592 میں پنشن فنڈ بنایا۔ ہے۔ اس فنڈ کی تشکیل کی اصل وجہ ایسے افراد کی مدد کرنا ہے جو ایک خاص عمر کے بعد تندہی سے کام نہیں کر سکتے یا کسی بھی وجہ سے معذور ہو کر محنت مزدوری کے قابل نہیں رہتے۔ تحقیق کے مطابق دنیا کے 120 سے زائد ممالک میں سوشل پنشن کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
پنشن کی سہولت کے اعتبار سے دنیا بھر میں بہترین نظام کی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔ نیدرلینڈ، ڈنمارک، فن لینڈ، سویڈن، سنگاپور، نیوزی لینڈ، کینیڈا،چلی، آئرلینڈ، سوئٹزر لینڈ، جرمنی، برطانیہ، ہانگ کانگ، امریکا، فرانس، پیرو، کو لمبیا، سعودی عرب،جاپان کے بعد ترکی کا نمبر 35واں ہے۔ پاکستان اور بھارت کو نچلی سطح پر شمار کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی پنشن کا نظام ہے۔ سرکاری محکموں سے ریٹائرڈ افراد کے لیے قومی بچت اسکیم میں پنشن اکاؤنٹ کھولنے کی بھی اجازت ہے۔ساٹھ سال سے زائد عمر کے پاکستانی شہری بھی قومی بچت اسکیم میں بہبود اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں۔ پنشن اور بہبود اکاؤنٹ پر ماہانہ منافع تمام شیڈول بینکوں کی نسبت سب سے زیادہ دیا جاتا ہے۔ حکومت نے اولڈ ایج بینیفٹ اسکیم بھی شروع کی ہے۔ اس اسکیم کے تحت ضعیف العمر یا ریٹائر ر افراد کو تھوڑی سی رقم ماہانہ گزارا الاؤنس کے طور پر دی جاتی ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ پاکستان میں ادارے موجود ہیں ۔ان کے قوانین اور قواعد و ضوابط بھی ہیں لیکن اصل مسئلہ ان پر عملدرآمد کا ہے اور یہ مسئلہ گڈ گورننس کے زمرے میں آتا ہے۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکومت سالانہ 470 ارب روپے پنشن کی مد میں ادا کر رہی ہے جو سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی سے بھی زیادہ ہے۔ سرکاری ملازمین کو تعیناتی کے وقت جوخط دیا جاتا ہے اس میں یہ شق بھی شامل ہوتی ہے کہ سروس مکمل کرنے یا ایک خاص مدت تک سروس کرنے کے بعد ان کو ماہانہ پنشن دی جائے گی۔ اس قانونی شق کا اطلاق تمام سرکاری اداروں پر بھی ہوتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے خصوصاً پی ٹی وی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف یہاں سالانہ 14ارب روپے پنشن کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔یہ بات قدرے حیرانی کی ہے کہ وزیراعظم صاحب نے ریلوے کا ذکر نہیں کیا جو 40 ارب روپے سالانہ پنشن ادا کرتا ہے اور مسلسل خسارے میں ہے، اسٹیل مل اور پی آئی اے میں ریکارڈ خسارہ ہو رہا ہے لیکن پی ٹی وی کے کارکنوںکی پنشن کا تخمینہ نمایاں طور پر پیش کیا ہے۔
حکومت کوئی بھی ہو، اسے اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ ادارے صرف انھی کے دور میں نہیں بنے بلکہ ان سے پہلے آنے والی حکومتوں میں بھی بنائے گئے ہیں۔محض بیان بازی یاالزام تراشی مسئلے کا حل نہیں بلکہ گڈ گورننس ضروری ہے۔
گڈ گورننس کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مسائل کیiنشاندہی کی جائے اور پھر ان کا حل تلاش کیا جائے۔ وزیراعظم صاحب کا یہ کہنا کہ پنشن فنڈ قائم کیا جائے گا، بہت اہم ہے۔ پنشن فنڈ کو غلط استعمال یا اس کی رقم میں خرد کرنے والوں کا تعین کرنے کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دینا ضروری ہے۔ فیصلہ کرتے وقت اس چیز کا بنیادی طور پر خیال رکھنا ضروری کہ پنشن ضعیف العمر اور ریٹائرڈ افراد کو ان کی پچیس، تیس یا چالیس سالہ خدمات کے عوض انھی کی تنخواہ میں سے کٹی ہوئی رقم کے ایک حصے کی ادائیگی کا عمل ہے جو انھیں گزارا الاؤنس کے طور پر دیا جاتا ہے۔
پنشن نہ تو حکومت کی جانب سے دی جانے والی کوئی زکوٰۃ یا خیرات ہے بلکہ ان افراد کی تقرری کے وقت ان سے کیا جانے والا ایک قانونی معاہدہ ہے جس سے کسی بھی طرح یکطرفہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اگر کسی بنا پر حکومت پنشن کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے ایک نیا قانون بنانا پڑے گاجس کا اطلاق آیندہ آنے والے سرکاری ملازمین پر ہوگا۔ حکومت کا اصل مسئلہ پنشن نہیں بلکہ گورننس ٹھیک کرنا ہے۔