کون بنے گا بنگلا دیش کا وزیر اعظم
موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور قائد حزب اختلاف بیگم خالدہ ضیا کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے۔
حسینہ واجد عوامی لیگ اور بیگم خالدہ ضیا بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہی کررہی ہیں۔ فوٹو : فائل
الزامات در الزامات، مخالفانہ بیان بازی، محاذآرائی، کشیدگی، بائیکاٹ کی دھمکیاں اور مظاہرے ترقی پذیر ممالک میں انتخابی موسم کی نشانیاں سمجھی جاتی ہیں ، خاص طور پر ایشیائی ممالک میں یوں تو حکم رانوں اور حزب اختلاف میں سیاسی جنگ ہر وقت ہی چلتی رہتی ہے، لیکن انتخابات کے قریب تو صورت حال اتنی سنگین ہوجاتی ہے، جس سے لگتا ہے کہ انتخابی معرکہ جیتنا شاید ان جماعتوں یا ان کے راہ نماؤں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
ان دنوں یہی حالات بنگلادیش کو درپیش ہیں جہاں انتخابی بگل بج چکا ہے اور ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قائدین موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور قائد حزب اختلاف بیگم خالدہ ضیا کے درمیان ایک بار پھر شدید کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے۔ حسینہ واجد عوامی لیگ اور بیگم خالدہ ضیا بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہی کررہی ہیں۔
ملک بھر میں18سیاسی جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد کی جانب سے حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جس میں پرتشدد مظاہرے بھی دیکھنے میں آرہے ہیں، دوسری جانب پولیس اور دیگر سیکیوریٹی فورسز کی جانب سے اپوزیشن کے حامیوں کو کنٹرول کرنے کی کوششوں نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور مظاہروں میں جانی نقصان نے بنگلادیش کی سیاسی فضا کو بہت آلودہ کردیا ہے۔ بنگلا دیشی الیکشن کمیشن کے سربراہ قاضی رقیب الدین احمد نے اعلان کیا ہے کہ عام انتخابات آئندہ سال یعنی 2014 کے اوائل میں ماہ جنوری کے پہلے ہفتے میں کرائے جائیں گے، لیکن اپوزیشن نے مختلف حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور حزب اختلاف نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے بات نہ مانی تو ہم الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیں گے۔
اپوزیشن کے شدید احتجاج، انتخابی عمل کے بائیکاٹ کی دھمکیوں اور حکومت کے ساتھ کشیدگی کے باوجود ماہرین سیاست کو بنگلادیش کے عام انتخابات میں روایتی حریفوں شیخ حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیا کے درمیان وزارت عظمیٰ کے لیے ایک بار پھر سخت مقابلے کی توقع ہے۔ گذشتہ کئی ادوار میں عنان حکومت اور حزب اختلاف کی مسند ان دونوں خواتین کے پاس ہی رہی ہے اور اگر اس بار بنگلادیشی وزیراعظم کے لیے کسی نئی شخصیت کا انتخاب ہوا تو یہ بنگلادیشی سیاست کی بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔ شیخ حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیا مختلف ادوار میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی حیثیت میں کام کرچکی ہیں۔
دونوں کے حامیوں کی بہت بڑی تعداد ملک میں موجود ہے، جو چاہتی ہے کہ اپنی پسندیدہ شخصیت کو وزیراعظم بنتا دیکھے۔ بنگلا دیش میں 9 بار پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہوچکا ہے۔ یہ الیکشن 1973، 1979، 1986، 1988، 1991، فروری 1996، 12جون 1996، 2001اور دسمبر 2008 میں ہوئے۔
انتخابی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بنگلادیش نیشنل پارٹی (بی این پی) اور بنگلادیش عوامی لیگ ہی سب سے نمایاں جماعتوں کی صورت میں سامنے آتی ہیں جن کی سربراہی برسوں سے ان دونوں خواتین کے پاس ہے۔ زیرنظر مضمون میں ہم بنگلادیشی سیاست کے دونوں اہم کرداروں شیخ حسینہ واجد اوربیگم خالدہ ضیا کے حوالے سے کچھ معلومات قارئین کی نذر کررہے ہیں، تاکہ لوگوں خاص طور پر سیاست کے طالبعلموں کو کچھ معلومات مل سکیں۔
بیگم خالدہ ضیا
15اگست 1945کو جنم لینے والی بیگم خالدہ ضیا 2بار بنگلادیشی وزیراعظم کی حیثیت سے کام کرچکی ہیں۔ پہلی بار 1991سے لے کر 1996 تک انھوں نے عنان حکومت سنبھالی۔ اس کے بعد دوبارہ انھیں 2001 سے 2006 تک وزیراعظم بننے کا موقع ملا۔ بیگم خالدہ ضیا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ملکی تاریخ کی پہلی اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے بعد اسلامی دنیا کی دوسری خاتون ہیں، جنھیں جمہوری حکومت کی بطور وزیراعظم سربراہی ملی۔
وہ بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ ہیں۔ یہ پارٹی ان کے شوہر ضیاء الرحمٰن نے 1970میں بنائی تھی ضیاء الرحمٰن فوجی افسر تھے، جو شیخ مجیب الرحمٰن کے بعد 1977میں صدر کے عہدے تک پہنچے۔ 1945 میں ایک بزنس مین اسکندر ماجومدر اور طیبہ ماجومدر کے گھر جنم لینے والی خالدہ ضیا کی زندگی سیاسی جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ 1981میں اپنے شوہر کے قتل کے بعد خالدہ ضیا نے بی این پی کی سربراہی سنبھالی۔
1982میں جب آرمی چیف جنرل حسین محمد ارشاد نے فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تو خالد ضیا اپنے ہم خیالوں کے ساتھ جمہوریت کے میدان عمل میں جدوجہد کرتی رہیں، ان کی 8 سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہی تھا کہ 1990 میں حسین محمد ارشاد کو مسند اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا اور 1991میں ہونے والے عام انتخابات میں خالدہ ضیا کی پارٹی نے کام یابی حاصل کی اور وہ وزیراعظم بن گئیں، 1996 میں بھی ان کی پارٹی نے الیکشن میں کام یابی حاصل کی، لیکن یہ انتخابات بہت سی جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے بہت متنازع ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے چند ماہ میں ہی دوبارہ انتخابات کرائے گئے اور اس بات خالدہ ضیا کی جماعت الیکشن ہارگئی۔ تاہم2001میں انھیں ایک بار پھر وزارت عظمیٰ سنبھالنے کا موقع ملا۔ خالدہ ضیا کی قیادت میں بی این پی نے انتخابی معرکوں میں اپنے حریفوں کو شکست دینے کے لیے بہت سی دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی اتحاد کیا، ان پارٹیوں میں سابق صدر ارشاد کی جاتیہ پارٹی، جماعت اسلامی بنگلا دیش اور اسلامی اواکیا جوٹ شامل تھیں۔
مختلف حلقوں نے خالدہ ضیا پر جماعت اسلامی سے اتحاد کرنے کی وجہ سے کافی تنقید کی۔ تاہم ان پارٹیوں کے اتحاد کی وجہ سے ہی 2001 میں خالدہ ضیا کو دوبارہ بطور وزیراعظم ایوان وزیراعظم جانے کا موقع ملا۔ خالدہ ضیا نے قومی سطح پر ترقی کے بہت سے منصوبے شروع کیے، جن کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کاروں کی توجہ بھی ایشیا کے اس ترقی پذیر ملک کی جانب مبذول ہوئی، ساتھ ہی ساتھ خالدہ ضیا نے خارجہ پالیسی کو بھی سب کے لیے دوستانہ بنانے کے اقدامات کیے۔ ان کی پالیسیوں اور فیصلوں کو غیرملکی ذرائع ابلاغ نے بھی کافی سراہا۔
2006 میں جب خالدہ ضیا کی حکومت کی مدت پوری ہورہی تھی تو سیاسی کشیدگی نے نیا موڑ لیا اور پُرتشدد واقعات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ عبوری حکومت بنائی گئی لیکن کچھ عرصے بعد 2007 میں آرمی چیف نے مداخلت کرکے ملک میں ایمرجینسی لگادی اور پھر من پسند نگراں حکومت بنائی۔ مارچ 2007 میں خالدہ ضیا کے بڑے صاحبزادے طارق رحمان اور اسی سال اپریل میں چھوٹے بیٹے عرفات رحمان کو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا، خالدہ ضیا سے بھی کسی کو ملنے کی اجازت نہیں تھی، اس کے بعد خالدہ ضیا کو کرپشن کے الزام میں گرفتار بھی کرلیا گیا۔
اس ساری صورت حال کی کی وجہ سے تقریباً 2 سال کے لیے (2008تک ) بنگلہ دیش میں عبوری حکومتیں رہیں۔2008کے انتخابات میں شیخ حسینہ واجد کی پارٹی اور اس کی اتحادیوں نے ملک گیر کام یابی حاصل کی۔
٭بیگم خالدہ ضیا کی سال گرہ بھی بنگلادیش میں اور عالمی سطح پر بھی ایک اہم موضوع رہی ہے، یہ بات ابھی تک حل طلب ہے کہ خالدہ ضیا کی سال گرہ کی اصل تاریخ کیا ہے؟ وہ 15اگست کو سال گرہ مناتی ہیں، جب کہ ان کے میٹرک کے سرٹیفکیٹ میں تاریخ پیدائش 9اگست 1945، شادی کے سرٹیفکیٹ میں 5ستمبر جب کہ پاسپورٹ میں 19اگست لکھی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خالدہ ضیا 15اگست کو اپنی سال گرہ اس لیے مناتی ہیں، کیوںکہ اسی تاریخ کو ان کی سیاسی حریف شیخ حسینہ واجد کی تقریباً ساری فیملی بشمول ان ے والد شیخ مجیب الرحمٰن کو قتل کیا گیا اور یہ تاریخ قومی سطح پر سوگ کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے خالدہ ضیا کے قریبی ساتھیوں نے بھی انھیں مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں، جب کہ اس موضوع پر عدالت بھی ان کے خلاف نوٹس جاری کرچکی ہے۔
مختلف تنازعات کے باوجود بیگم خالدہ ضیا بنگلادیشی سیاست کا اہم کردار ہیں۔ ان کو اور ان کی پارٹی کو چاہنے والوں کی تعداد کم نہیں، عالمی سطح پر بھی ان کی حکومت کے متعدد فیصلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ 24 مارچ 2011 کو امریکی ریاست نیوجرسی میں انھیں ''فائٹر فار ڈیموکریسی'' کا ایوارڈ دیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں خالدہ ضیا کی بی این پی کیا کردکھاتی ہے۔
شیخ حسینہ واجد
بنگلادیش کی موجودہ وزیراعظم اور بنگلادیش عوامی لیگ کی قائد شیخ حسینہ واجد کی تاریخ پیدائش 28 ستمبر 1947ہے، وہ 1996سے 2001کے عرصے کے دوران بھی وزارت عظمیٰ کی ذمے داریاں سنبھال چکی ہیں۔ ملک کے پہلے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمٰن کی صاحب زادی ہونے کے ناتے سیاست سے ان کا تعلق بہت پرانا ہے۔ حسینہ واجد کی والدہ کا نام فضیلت النسا تھا۔ ایک نیوکلیئر سائنس داں وازید میاہ (wazed miah) سے شادی حسینہ واجد کی زندگی کا ایک اور اہم موڑ رہا۔ ان کی شادی 1968میں ہوئی، 9مئی 2009کو حسینہ واجد کے شوہر اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے جو امریکا اور کینیڈا میں رہتے ہیں۔
بیگم خالدہ ضیا کی بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور حسینہ واجد کی عوامی لیگ کو ایک دوسرے کا روایتی حریف سمجھا جاتا ہے اور ہر سیاسی معرکے میں دونوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اپنی پارٹیوں کو فتح دلائیں۔ تقریباً 4دہائیوں پر مشتمل سیاسی کیریئر کا تجربہ لیے حسینہ واجد اپنی پارٹی کو بہتر سے بہتر مقام دلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اپنی سیاسی زندگی میں دوبار وزیراعظم بننے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بھی کردار ادا کیا۔ 1975میں اپنے والد کے قتل کے بعد انھیں کافی عرصہ انڈیا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنا پڑی، اور انھیں 1981میں وطن واپس آنا نصیب ہوا۔
بطور قائد حزب اختلاف 2004اور2007 میں ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے، انھیں جیل بھی جانا پڑا۔ 2007 میں تو فوجی حکومت کے دور میں حسینہ واجد پر مخالف سیاسی جماعت کے 4کارکنوں کے قتل کا مقدمہ بھی بنا، لیکن ان تمام نشیب و فراز سے گزر کر وہ آج ایک بار پھر اقتدار کی مسند پر بیٹھی ہیں۔2008کے عام انتخابات میں بنگلادیش عوامی لیگ نے 14جماعتی انتخابی اتحاد کی صورت میں الیکشن میں دو تہائی اکثریت سے کام یابی حاصل کی اور پارلیمنٹ کی 299 نشستوں میں سے 230نشستیں جیت کر حریف جماعتوں کو انگشت بدنداں کردیا۔
گو کہ ان کی حریف بیگم خالدہ ضیا نے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کردیا تھا لیکن ان کا یہ احتجاج اور ناراض بھی شیخ حسینہ واجد کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے نہیں روک سکی۔ داخلی اور خارجی سطح پر اپنے دوسرے دور حکومت میں حسینہ واجد کو بہت سے مسائل و تنازعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بنگلادیشی سیاست کی ان دونوں اہم شخصیات بیگم خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ واجد کے سیاسی کیریر کے بارے میں پیش کیا گیا مختصر جائزہ بتاتا ہے کہ دونوںخواتین نے قومی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے، اقتدار، قید، جلاوطنی، الزامات، رہائی، عروج اور زوال، غرض یہ کہ انھوں نے سیاسی بساط کی ہر چال کا سامنا کیا بھی ہے اور خود بھی چالیں چلی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں کس کی پارٹی عوام سے خود کو منوانے میں کام یاب ہوتی ہے، اس وقت تو بنگلادیش کی سیاسی فضا پرتشدد احتجاج، جلاؤ گھیراؤ، ہلاکتوں، الزامات در الزام کی وجہ سے کافی آلودہ ہے لیکن جلد یا بہ دیر الیکشن تو ہونا ہیں اور اس انتخابی معرکے میں پتا چل جائے گا کہ عوام کو کون کتنا زیادہ محبوب ہے؟