تعلیم میں ناکامی اور اساتذہ کی کردارکشی

کیا آپ اپنے ذاتی مسائل کا رونا رو کر تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں؟ ایسے تو آکسفورڈ اور کیمبرج بھی آپ کو ڈگری نہیں دے گی


کیا آپ اپنے ذاتی مسائل کا رونا رو کر تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حال ہی میں کراچی میں پی ایچ ڈی اسکالر کی خودکشی کا واقعہ سامنے آیا۔ میں اس واقعے کی تفصیل میں تو نہیں جاؤں گا لیکن ان اسباب اور وجوہات کا تعین ضرور کروں گا جو ایسے طلبا و طالبات کی ناکامی کی صورت میں پیش آتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ایسے تمام افراد کو اپنے اساتذہ اور سپروائزرز کے خلاف بغض نکالنے کا موقع مل گیا، جو اپنی تعلیم کو جذبات اور جھوٹی مظلومیت کے سہارے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ وہ محدود طبقہ ہے جس کے خیال میں اگر وہ لڑکی ہے تو اسے اس وجہ سے مارکس میں ترجیح ملنی چاہیے کیونکہ اس کا داخلہ Need Basedاسکالرشپ پر ہوا ہے۔ تو سر اگر مجھے آپ نے مارکس نہیں دیے تو میرا اسکالرشپ ضائع ہوجائے گا۔ سر میرا لاسٹ سیمسٹر ہے، میری انگیجمنٹ ہوچکی ہے، شادی ہونے والی ہے، براہ کرم مجھے اچھے سے مارکس لگادیں۔ اور اگر وہ لڑکا ہے تو کیونکہ وہ اوبر چلاتا ہے، گھر کا واحد کفیل ہے، یا بہنیں کنواری بیٹھی ہیں تو اس لیے سر مجھے پیپر میں اچھے نمبر لگا دیں۔ یہ وہ عام بہانے ہیں جن کا سامنا اکثر اساتذہ کو کرنا پڑتا ہے۔

کیا آپ اپنے ذاتی مسائل کا رونا رو کر تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں؟ ایسے تو آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی بھی آپ کو ڈگری نہیں دے گی۔ زندگی تلخ حقائق کا سامنا کرنے کا نام ہے اور دنیا مظلومیت و جذباتیت کے نام پر آپ کو بھیک تو دے گی لیکن پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں، خواہ آپ اپنی جان بھی لے لیں۔ ایسے طلبا و طالبات کی تعلیمی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور ایسے طلبا و طالبات سیمسٹر سسٹم میں اس انداز سے نمبر لگوانے میں کامیاب ہوجائیں تو اپنے ہم نشیں اور ہم جولیوں میں بڑے فخر سے اپنے کارنامے بیان کرتے ہیں کہ کس طرح فلاں استاد کو بے وقوف بنایا۔ یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بحیثیت استاد ہمیں ہر طرح کے طلبا و طالبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا کوئی بھی ہنر یا تعلیم کبھی محنت یا شوق کے بغیر کبھی حاصل ہوسکتی ہے؟ اور ایسے بہانے ایک یا دو دفعہ تو چل جاتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب استاد ایسے طلبا کو سمجھ کر جب میرٹ پر فیصلہ کرنے لگتا ہے تو یہی طلبا و طالبات ایسے اساتذہ کی کردارکشی پر اتر آتے ہیں۔

استاد کو یقیناً اپنے کام کا تجربہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی مقالہ وہ اعتراض لگا کر واپس کرتا ہے تو طالب علم کی ذمے داری ہے کہ اصلاح کے بعد دوبارہ استاد کے سامنے اسے پیش کرے۔ اس معاملے میں کلی و حتمی اختیار استاد کو ہی ہوتا ہے۔ لیکن میرے مشاہدے کے مطابق ایسے طلبا ایم فل اور پی ایچ ڈی کو ایک پارٹ ٹائم جاب کے طور پر لیتے ہیں۔ کورس ورک تو کسی نہ کسی طرح نکل ہی جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارے استاد ڈاکٹر حافظ عبداللہ کے مطابق طالب علم پیپر سے قبل تمام مواد کو اپنے گلے میں ٹھونستا ہے اور پیپر پر الٹی کی طرح اگلتا ہے۔ جب باہر نکلتا ہے تو کافی ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ خیر اس مسئلے سے بمشکل جان چھڑوا کر ایسے طلبا و طالبات کو حقیقی مسئلہ تب درپیش ہوتا ہے جب مقالے کا مرحلہ پیش آتا ہے۔ اب تمام اساتذہ کے پاس جاکر ایسے طلبا منتیں ترلے کرتے ہیں کہ سر کوئی ٹاپک آپ کی نظر میں ہے تو بتا دیجیے۔ بھئی تحقیق آپ نے کرنی ہے یا آپ کے استاد نے؟ چونکہ ایسے طلبا میں خود تو صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے اس لیے اگر استاد نے کسی موضوع کی طرف رہنمائی کردی تو اب اس استاد کی جان پر بن آتی ہے۔ کیونکہ اب synopsis بنوانے کے لیے کتب اور لٹریچر بتانا بھی اسی کے ذمے داری ہے، کیونکہ موضوع بھی انہوں نے ہی بتایا ہے۔ اور مزید یہ کہ اب اس مقالے کا اختتام بھی اسی استاد نے کروانا ہے۔ استاد کی ذمے داری یہ نہیں کہ وہ موضوع سے لے کر مقالے کے اختتام تک آپ کی ذمے داری اپنے سر لے۔ کوئی بھی آپ کےلیے اتنا فارغ نہیں ہے۔ یقیناً رہنمائی استاد کی ذمے داری ہے لیکن یہ تب ہوگا ناں جب آپ بھی کچھ کام کرنے کو تیار ہوں۔ طالب علم کی ذمے داری کے حوالے سے وہ بندر والی مثال ہی یاد آتی ہے کہ جب شیر نے بندر کی فرمائش پر اسے بادشاہ بنادیا تو کبھی وہ ادھر بھاگتا کبھی ادھر، لیکن کرتا نہیں تھا۔ ایک دن تنگ آکر شیر نے اس سے کہا کہ تم مسئلہ تو کوئی حل نہیں کرتے، بس بھاگتے پھرتے ہو۔ جس پر بندر نے کہا ''حضور تسی اے چھڈو بس میریاں آنیاں جانیاں ویکھو''۔

بھئی اگر آپ نے تحقیق کرنی ہے تو اپنے رجحان اور ذوق کے مطابق موضوع کے انتخاب سے لے کر اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ذمے داری آپ کی ہے۔ استاد نے رہنمائی کرنی ہے آپ کا کام نہیں کرنا۔ مجھے یاد ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں جب میرا ایم فل کا مقالہ تھا تو میں بار بار اپنے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد عبداللہ کے پاس ٹاپکس کی لسٹ بناکر لے جارہا تھا اور میرے تجویز کردہ عنوان بار بار مسترد ہورہے تھے۔ لیکن پھر ایک وقت آیا کہ عنوان بھی فائنل ہوا اور کام بھی مکمل ہوا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں اپنے مقالے کی فائنل کاپی استاد محترم کی مکمل ہدایات کی روشنی میں لے کر جاتا تھا، لیکن پھر کوئی نیا نکتہ یا نئی تجویز سامنے آجاتی تھی اور مجھے دوبارہ اپنے کام کو ریوائز کرنا پڑتا تھا۔ ایسا تقریباً 5 دفعہ ہوا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ کیونکہ استاد محترم نے مجھے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اپنی اغلاط ابھی درست کرلیں، بعد میں اگر ایکسٹرنل سپروائزر نے اعتراض لگایا تو آپ کو دگنا وقت درکار ہوگا۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ایم فل یا پی ایچ ڈی کوئی مذاق نہیں، یہ ایک مکمل اور فل ٹائم جاب ہے۔ اگر آپ کے پاس یہ سب ذہنی، مالی اور نفسیاتی مشقت اٹھانے کا وقت اور ہمت ہے تو اس ذمے داری کو اپنے سر لیجئے، وگرنہ اس کام میں ہاتھ نہ ڈالیے اور نہ ہی اپنی ناکامی پر اپنے اساتذہ کی کردارکشی کیجئے۔

زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو اپنے اساتذہ، والدین اور بڑوں کی بات مان کر ہی کامیابی ملے گی، وگرنہ تجربے کرکے برسوں بعد آپ اس بات کو سمجھیں گے۔ عقل مند دوسروں کے تجربے سے فائدہ اٹھاتا ہے اور بے وقوف خود غلطیاں کرکے سیکھتا ہے۔ ہر شعبے میں مستثنیات ہوسکتے ہیں، لیکن ہمیں رائے ہمیشہ اکثریتی پہلو کو مدنظر رکھ کر قائم کرنا چاہیے اور کبھی بغیر تحقیق کے کسی معاملے سے متعلق حتمی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں