خاموشی اظہار کی سب سے مشکل اور خوب صورت شکل ہے، جس میں ہم وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جو ہماری زبان ہمیں کہنے سے روکتی ہے۔ ہم انسان جو باتیں زبان سے نہیں کہہ سکتے وہ باتیں خاموش اور چپ رہ کر کہہ جاتے ہیں۔ جب الفاظ ہمارے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں تو پھر بولنے کےلیے سب سے بہترین زبان خاموشی ہے۔ وہ جذبے اور وہ احساسات جن کا الفاظ احاطہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں، وہ خاموشی کے قالب میں ڈھل کر ایک خوب صورت اظہار بن جاتے ہیں۔ خاموشی کی زبان میں باتیں کرنے کا فن گفتگو جاننے والے درجہ کمال پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔
یہ خاموشی، جو اب گفتگو کے بیچ ٹھہری ہے
یقین جانو! یہی اک بات ساری گفتگو سے گہری ہے
ہم جس شور زدہ ماحول میں زندہ ہیں، وہاں خاموشی میں دبی ہوئی آواز کوئی نہیں سننا چاہتا۔ اگر آپ نے دوسروں کی اور اپنے اندر کی خاموشی کو سمجھنا نہیں سیکھا، تو یقین کیجئے آپ نے کچھ نہیں سیکھا۔ یعنی خاموشی بھی ایک طرز گفتگو ہے، بشرطیکہ آپ کے پاس خاموشی سننے اور سمجھنے والا دل ہو اور خاموشی کی زبان کو محسوس کرنے والے احساسات ہوں۔ خاموشی کی زبان کو سننا اور سمجھنا بھی ایک فن ہے۔ جس میں جو جتنی زیادہ مہارت حاصل کرگیا وہ اتنا ہی زیادہ باشعور ہوگیا۔ خاموشی کی زبان کو سمجھنے کےلیے ضروری ہے کہ آپ کے باہر ہی نہیں اندر بھی سکون اور سکوت ہو۔ پھر اَن کہی باتیں اور بے زبان جذبات خودبخود ہی ہماری سماعتوں میں اپنا رنگ بکھیرنے لگتے ہیں۔
ایک خاموش انسان کے چہرے کے تاثرات اور اس کی حرکات و سکنات کے ذریعے اس کے جذبات اور احساسات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ انسان کے اندر کی کیفیت اس کے خدوخال اور اس کی بدن بولی سے عیاں ہوتی ہے۔ ہمارے چہرے کے تاثرات اور ہماری بدن بولی ہماری اندرونی کیفیات کی بھرپور عکاسی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری بدن بولی اس وقت بھی ہمارے جذبات کا بخوبی اظہار کررہی ہوتی ہے جب ہم خاموش ہوتے ہیں۔ ہماری بدن بولی ہماری شخصیت کی مکمل ترجمان ہوتی ہے۔
ایک انسان کے باہر جتنا شور ہوتا ہے، اس کے اندر اتنی ہی خاموشی کنڈلی مارے بیٹھی ہوتی ہے۔ آج کل کی مصروف زندگی میں ہر کوئی ایسا پھنسا ہے جیسے ایک موٹا شخص تنگ دروازے میں۔ ہم ایسی بھیڑ کا شکار ہیں جہاں سے نکلنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ ہم آئے دن نت نئی کہانیاں سنتے ہیں اور ان کا اثر لینے کے بجائے چٹخارے لگا کر اسے آگے ایسے نشر کر رہے ہوتے ہیں جیسے ہم سے زیادہ اہم ڈیوٹی یہ کسی کی نہیں ہے۔ ہم سب شور اور آواز کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ ہم میں سے کسی کے پاس بھی خاموش رہنے اور خاموشی کو محسوس کرنے کا وقت نہیں۔ ہمارے اندر اور باہر ہر طرف شور ہی شور ہے اور ہم اس شور میں خود سے بھی ہم کلام ہونے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری سماعتیں، ساعتیں تیزی سے سکون اور سکوت جیسی نعمتوں سے خالی ہوتی جارہی ہیں۔
کہتے ہیں خاموشی کا احترام کرو، یہ آوازوں کی مرشد ہے۔ آوازوں کے اس مرشد کا مقام وہ دل ہی جان سکتا ہے جو آج کی مادی دنیا کے شوروغل اور ہنگاموں کے رنج اور الم سے بری طرح بھر چکا ہو اور شدت سے سکون اور خاموشی کا متمنی ہو۔ آج کی ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی کی دنیا نے انسان سے اس کی تنہائی اور سکوت چھین لیا ہے۔ ہم غورو فکر جیسی شاندار نعمت سے تقریباً محروم ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں بے حد ضروری ہے کہ خاموشی کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ خاموشی کو سنا جائے اور خاموشی کو اختیار بھی کیا جائے۔ یقین کیجیے اگر آپ خاموشی کو سننا سیکھ جائیں گے تو پھر آپ پر فکر و تدبر کی ایسی ایسی راہیں اور زندگی کے ایسے ایسے اسرار کھلنا شروع ہوجائیں گے، جن کے اظہار سے زبان ہمیشہ سے قاصر ہے اور ہمیشہ قاصر رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔