رات کے پچھلے پہر والا تعویذ اور ہماری سیاست

سب اپنی اپنی جگہ نہ صرف مکمل رابطے میں ہیں بلکہ اسے اپنے حق میں موڑ بھی رہے ہیں


واصب امداد August 29, 2020
اپوزیشن اپنے تمام تر پتے نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے کھیل رہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بیک وقت ایک جملہ صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ یعنی اُس پر ہنسی بھی آسکتی ہے اور رونا بھی۔ وہ ہوش اُڑا بھی سکتا ہے اور ٹھکانے پر بھی لاسکتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر وہ جملہ ہے کون سا تو جناب وہ جملہ جناب وزیرِاعظم کا پسندیدہ یعنی 'میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا' ہے۔

خود دیکھ لیجئے کہ نواز شریف لندن میں ہیں، شہباز شریف ضمانت پر رہا ہیں، مریم نواز اور شاہد خاقان باہر ہیں، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، خواجہ برادران حتٰی کہ آصف علی زرداری بھی آزاد ہیں، مگر عمران خان کی وہی ضد کہ وہ این آر او نہیں دیں گے۔ یہ جملہ شاید خورشید شاہ اور حمزہ شہباز تک ٹھیک ہو، مگر اس جملے کے جواب میں اپوزیشن کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ جناب وزیرِاعظم آپ سے این آر او مانگ کون رہا ہے؟ یہ نہ تو آپ دے سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کے اختیار میں ہے۔ یہ جس کے در پر ماتھا ٹیکنے سے ملتا ہے، وہاں سر جھکایا جارہا ہے اور ابھی تک فیض بھی حاصل کیا جارہا ہے۔

آج شاید آپ کو وہ بیوقوف، لاچار، کمزور اور بے بس دکھائی دیں، مگر میں اپنے کم علم کی روشنی میں یہ ضرور سمجھ رہا ہوں کہ اپوزیشن اپنے تمام تر پتے نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے کھیل رہی ہے۔ حالیہ قانون سازی اور اس پر کی جانے والی بیان بازی ہی دیکھ لیجئے۔ آپ مریم نواز کی پریس کانفرنس میں ان کا محتاط رویہ دیکھ لیجئے، آپ شہباز شریف کے اسلام آباد کے اچانک دورے دیکھ لیجئے، اُن کی آخری پریس کانفرنس اور اُن کے چہرے پر خوف اور رقت دیکھ لیجئے، آپ احسن اقبال کا اداروں کو غیر سیاسی اور تحریکِ انصاف کے بیانیے سے الگ کہنے پر غور کرلیجئے، آپ بلاول کا صرف عمران خان کو ٹارگٹ کرنا نوٹ فرمالیجئے۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ سب اپنی اپنی جگہ نہ صرف مکمل رابطے میں ہیں بلکہ اسے اپنے حق میں موڑ بھی رہے ہیں۔

ان ہی رابطوں پر شيخ رشید سے جب پوچھا گیا کہ اپوزیشن تمام تر شور شرابے کے باوجود عین قانون سازی کے وقت چپ چاپ جیسا کہا جاتا ہے ویسا کیسے کرلیتی ہے؟ تو انہوں نے ایک ہی جملے میں ہماری سیاست میں پنہاں منافقت کی قلعی کھول دی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم انہیں پاس بٹھاتے ہیں اور پیار سے سمجھاتے ہیں۔ اِن کے دل چونکہ نظریات سے عاری ہیں لہٰذا یہ اپنے فائدے کی بات بڑے غور سے سنتے ہیں۔ بس یہی ہمارا رات کا پچھلے پہر والا تعویذ ہے۔ جو کرتے کرتے عموماً رات کا ایک بج جاتا ہے مگر پھر صبح جہاں کہتے ہیں وہاں یہ سب پہنچ جاتے ہیں اور جو کہا جاتا ہے وہ کردیتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر یہ اپنے فائدے کی بات غور سے سنتے ہیں، یعنی قانون سازی میں معاونت پر اگر انہیں کسی فائدے کی گارنٹی دی جارہی ہے تو وہ فائدہ یقیناً ان کے کیسز نہ کھولنے، احتساب کا پہیہ روکنے اور ان کی گئی ہوئی ساکھ کی بحالی کا ہی ہوگا۔ تو پھر این آر او نہ دینے کی بات کرکے کون کسے ماموں بنا رہا ہے، اس کا فیصلہ آپ خود کرلیجئے۔

رابطوں پر بات چل ہی پڑی تو اسحاق ڈار کے تازہ ترین انٹرویو کا بھی ذکر کرلیتے ہیں۔ وہ اپنے انٹرویو میں یہ کہتے ہیں کہ جب بیگم کلثوم نواز لندن میں انتہائی علیل تھیں اور میاں نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں سزا سنائی جاچکی تھی تو وہ انہیں چھوڑ کر پاکستان واپس آئے تاکہ جیل جاسکیں۔ یہاں تک کی بات سن کر سب ہی یہ سوچیں گے کہ میاں صاحب کو اپنے ملک پاکستان کے قانون کا کتنا پاس ہے کہ وہ اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر پاکستان صرف اس لیے آئے کہ یہاں کی عدالتوں نے انہیں سزا سنا دی ہے اور انہوں نے اب وہ پوری کرنی ہے۔ مگر اگلے ہی جملے میں اسحاق ڈار نے یہ فرما دیا کہ میاں صاحب کچھ خفیہ لوگوں سے رابطے میں تھے، جنہوں نے انہیں یقین دہانی کروا دی تھی کہ آپ کی سماعت اپیل کےلیے لگ جائے گی، آپ صرف ایک اپیل کی پٹیشن دائر کردیں۔ یاد رہے یہ وہ دور تھا جب 'ووٹ کو عزت دو' کی صدائیں ہر گلی اور محلے میں گونج رہی تھیں اور ہمارے اینکر اور تجزیہ نگاروں کی زبان یہ بتاتے نہیں تھک رہی تھی کہ اب میاں صاحب وہ نوے کی دہائی والے میاں صاحب نہیں اور اب وہ انقلابی اور نظریاتی ہوگئے ہیں۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب مریم نواز کا سوشل میڈیا سیل قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف محاذ پر موجود تھا۔ مگر حیرت ہے کہ میاں صاحب باہر سے تو خلائی مخلوق سے کیوں نکالا کی وجہ پوچھ رہے تھے مگر اندر ہی اندر رابطوں میں مصروف تھے۔

یہی رابطے اور پچھلے پہر کے تعویذ ہوتے رہے تو چالیس سال ہونے کے باوجود 80 کی دہائی کا پنجاب کا وزیرِ خزانہ ہماری سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوگا۔ دنیا زمین سے آسمان اور اب آسمانوں سے بھی آگے کی سیر پر ہوگی، مگر ہم نواز شریف آرہا ہے، نواز شریف جارہا ہے، نواز شریف بیمار ہے، نواز شریف صحت مند ہے، نواز شریف سیکیورٹی رسک ہے اور نواز شریف محب وطن ہے، جیسے جملوں اور سوچ سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ یوں آئے روز کبھی ہوا خوری تو کبھی کافی نوشی کی تصاویر اس نظام کو منہ چڑاتی رہیں گی اور جب کوئی بےخبر نواز شریف کو واپس لانے کی بات کرے گا تو کوئی عقلمند وزیر چوروں اور ڈاکوؤں کے واجب القتل ہونے کی دعا کردے گا تاکہ اگر کوئی قانونی راستہ نکلنا بھی ہو تو برطانیہ کی حکومت اپنے شہری کے جان کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے اسے پاکستان بھیجنے سے انکاری ہوگی۔ یعنی وقت گزرتا اور عوام پاگل بنتے رہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔