ریڈیو پاکستان حیدرآباد

اداکاروں، صداکاروں، فن کاروں اور گلوکاروں کی نرسری


اداکاروں، صداکاروں، فن کاروں اور گلوکاروں کی نرسری

WASHINGTON: ریڈیو وہ ٹیکنالوجی ہے جو ریڈیائی لہروں کا استعمال کرتے ہوئے معلومات جیسے آواز وغیرہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے۔ ابتدائی دور میں ریڈیو ہی معلومات کا ایک موثر ذریعہ تھا۔ موجودہ سائنسی ترقی کے باوجود ریڈیو کی اہمیت اور افادیت آج بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔

انگریزی اور اطالوی مشترکہ قومیت کے حامل گوگ لی اِلمومارکونی Guglielmo Marconiالیکٹریکل انجینئر (برقی انجینئر اور موجد) تھے جنھوں نے ریڈیو ٹیلیگراف نظام ایجاد کیا اور دنیا میں ان کو ریڈیو کے بانی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

مارکونی نے 1895 سے 1899 کے دوران اپنے ریڈیو ٹیلی گرافی تجربات کے ذریعے وائرلیس سگنلز کی ٹرانسمیشن کے کام یاب تجربات کیے۔ مارکونی کی پہلی وائرلیس ٹرانسمیشن دو میل کے فاصلے پر محیط تھی جو انھوں نے اپنے والد کی اٹلی میں موجود جاگیر پر کی۔ اور پھر یہ آٹھ میل یا اس سے زائد فاصلے کے درمیان کی گئی۔ اس کے بعد انگلش چینل اور پھر بحراوقیانوس کے پار سگنلز بھیجے گئے جس میں کینیڈا کے علاقے نیو فاؤنڈلینڈ سے برطانیہ انگلش کے حرف ایس کو مارس کوڈ کی صورت میں بھیجا گیا۔

ریڈیو مارکونی کی ایجاد ہے جو اس نے 1895 سے لے کر 1899 کے درمیان کیے جانے والے مختلف تجربات کی روشنی میں ایجاد کیا۔ انیسویں صدی کا اختتام اس دنیا میں ایک نئی دنیا تخلیق کر رہا تھا، یہ آواز کی دنیا تھی۔ ایک جانب امریکا، اسکاٹ لینڈ، جرمنی اور فرانس میں براڈ کاسٹنگ کے نظریے کے خدوخال ابھر رہے تھے تو دوسری جانب امریکا میں تھامس ایڈیسن نے ''آواز ریکارڈ کرنے کا آلہ'' ایجاد کرلیا تھا۔

چوڑی دار سلینڈر پر ایڈیسن نے اپنی آواز ریکارڈ کرلی تھی۔ یہ آواز آج بھی آواز خزانے میں موجود ہے۔ ریکارڈنگ اور براڈ کاسٹنگ کے تال میل میں سے دنیا کی ساری رونقیں ہیں۔ 1900 میں ریکارڈ ہونے والی ریکارڈنگز بطور یادگار، ریڈیو پاکستان کے سینٹرل پروڈکشن یونٹ کے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔

سن 1906 سے براڈ کاسٹنگ کی ابتدا ہوئی۔ لیکن پہلا باقاعدہ ریڈیو اسٹیشن 1916 میں امریکا کے شہر پٹس برگ (Pitts Burgh) میں شروع ہوا۔ قیام پاکستان تاریخ کا اہم سنگ میل ہے۔

ریڈیو نے اس وقت سنہری تاریخ رقم کی جب 13 اور 14 اگست 1947 کی درمیانی شب یہ اعلان نشر ہوا ''السلام علیکم! پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس، ہم لاہور سے بول رہے ہیں، 13اور 14 اگست 1947 کی درمیانی رات 12 بجے ہیں، طلوع صبح آزادی۔۔۔۔'' ظہور آذر انگریزی اور مصطفی علی ہمدانی اردو کی آوازوں میں پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے لاہور اسٹیشن سے نشر ہونے والے آزادی پاکستان کے یہ اعلانات ملک میں ریڈیو پاکستان کے باقاعدہ آغاز کی نوید بنے۔

پشاور، لاہور اور ڈھاکا میں باقاعدہ ریڈیو اسٹیشنز اگرچہ آزادی سے قبل ہی قائم ہوچکے تھے لیکن یہ ریڈیو اسٹیشنز آزادی سے قبل آل انڈیا ریڈیو کی شناخت کے ساتھ اپنی نشریات پیش کر رہے تھے۔ آزادی وطن کے ساتھ ہی ان تینوں ریڈیو اسٹیشنز نے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے نمایندہ کے طور پر آن ایئر Onair ہونا شروع کردیا۔ ریڈیو پاکستان کی ''سنگچر ٹیون'' کے لیے موسیقی کے دو سُروں ''رکھب'' اور ''پنجم'' کو استعمال کیا گیا۔

''رے'' اور ''پا'' یعنی ''یہ ریڈیو پاکستان ہے'' ریڈیو پاکستان کا نصب العین قرآن پاک کے احکامات سے منتخب ہوا اور جو آیت اس سلسلے میں منتخب ہوئی وہ ہے ''قولو اللناسِ حُسنا'' (یعنی لوگوں سے حسن اخلاق سے باتیں کرو)۔ پاکستان بننے کے بعد پہلا ریڈیو اسٹیشن کراچی میں 1948 کو قائم ہوا، تو یہ گویا سندھ کا پہلا ریڈیو اسٹیشن قرار پایا۔ اردو کے ساتھ ساتھ یہاں سے آدھے گھنٹے کے سندھی میں پروگرام بھی شروع کیے گئے جس کا کریڈٹ علی محمد چھاگلہ اور ایم بی انصاری جیسی شخصیات کے سر جاتا ہے۔

صوبہ سندھ کا شہر حیدرآباد اس لحاظ سے ہمیشہ مالا مال رہا کہ یہاں سے نام ور اداکاروں، شعرا، ادیب، دانشوروں، سیاست دانوں، گلوکاروں اور تعلیم دان اور تعلیمی اداروں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام اور وقار بڑھایا۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد اسٹیشن کو اگر بڑے اداکاروں، صداکاروں، فن کاروں اور گلوکاروں کی نرسری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان بننے کے بعد دوسرا ریڈیو اسٹیشن صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں 17 اگست 1955 کو حیدرآباد کی مشہور زمانہ عمارت ہوم اسٹیڈ ہال میں قائم ہوا جس کا افتتاح پیر علی محمد راشدی نے کیا تھا۔

حیدرآباد سندھ میں گاڑی کھاتہ سے چڑھائی چڑھ کر قلعہ کی طرف جائیں تو سیدھے ہاتھ پر ایک عمارت ہے، دائیں طرف گھاس کا بہت بڑا میدان، عمارت کے چاروں طرف بھی گھاس اور پھول لگے ہوئے تھے، یہ ہوم اسٹیڈ ہال ہے جہاں پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کے کئی اہم اجلاس ہوئے۔ یہاں ایک بہت بڑی لائبریری تھی جو آج بھی موجود ہے۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا اسٹیشن اسی عمارت میں بنایا گیا۔ حیدرآباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا تو ایک ہلچل مچ گئی۔

ادیب، شاعر، استاد، اور فن کار بننے کے خواہش مند افراد اس طرف متوجہ ہوگئے۔ حیدرآباد کی تہذیبی سرگرمیوں میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ خصوصاً تعلیمی اداروں کی تقریبات ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے دم سے ہی دل چسپ اور کام یاب ہوتی تھیں۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد اسٹیشن پر ایک کلو واٹ کا ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا، ریڈیو حیدرآباد کی پہلی اناؤنسمنٹ مشہور اداکار اور صداکار ابراہیم نفیس نے کی تھی۔ بعد میں حمایت علی شاعر بھی یہاں اناؤنسمنٹ کرتے رہے۔ اس ریڈیو اسٹیشن کی قدردانی کے باعث پاکستان کو نامور فنکار میسر ہوئے۔

پاکستانی فلم انڈسٹری کے بہترین ہیرو محمد علی نے اپنی فن کارانہ کاوشوں کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد ہی سے کیا۔ مصطفی قریشی اس ادارے کے تربیت یافتہ ہیں۔ ان کی بیگم مشہور گلوکارہ روبینہ قریشی نے بھی گلوکاری کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کیا۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے لوگ گاڑی کھاتہ میں مشہور سلطان ہوٹل کی پہلی منزل پر شام کو یا رات گئے بیٹھا کرتے تھے، ان میں حمایت علی شاعر، محمد علی ان کے بڑے بھائی ارشاد علی، سلطان جمیل نسیم اور کبھی بینش سلیمی۔ جو لوگ ریڈیو کے لوگوں کو دیکھنا چاہتے تھے وہ لوگ بھی اِدھر اُدھر کی میزوں پر آ بیٹھتے۔

حیدرآباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہونے سے بڑی تبدیلیاں ہوئیں۔ ادبی نشستیں ہونے لگیں، مشاعرے ہوئے، لوگ چائے خانے میں بیٹھ کر ریڈیو کی نشریات سے محظوظ ہونے لگے، ان دنوں سندھی ڈراما میں مصطفی قریشی اور عبدالکریم بلوچ بے حد مقبول تھے۔

تقریروں کے سلسلے میں عروج فاطمہ، رضیہ سلطانہ، نسیم جہاں اور حسین جہاں بھی پروگراموں میں حصہ لیتیں، ثریا حیدرآبادی، روبینہ قریشی گلوکاری کا جادو جگاتیں ان دنوں ریڈیو حیدرآباد پر سید مسعود علی، محمود الحسن، الیاس عشقی پروڈیوسر تھے۔ صوتی اثرات کے لیے اقبال جعفری ہوا کرتے تھے۔

ابراہیم نفیس بطور اناؤنسر صداکاری سے وابستہ رہے۔ حیدرآباد کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیارپوری اس کے ڈائریکٹر رہے اور علی محمد چھاگلہ جنھوں نے پاکستان کے قومی ترانے کی دھن ریکارڈ کروانے میں مدد کی تھی، وہ بھی حیدرآباد اسٹیشن کے ڈائریکٹر رہے۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے پہلے اسٹیشن ڈائریکٹر ظفر حسین تھے۔ علی محمد چھاگلہ صاحب کے سگے بھائی نے پاکستان کے قومی ترانے کی دھن بنائی تھی جو اب تک چل رہی ہے اور انشا اللہ قیامت تک بجتی رہے گی۔ ان کا زمانہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے لیے سنہرا دور کہلاتا ہے۔

ریڈیو حیدرآباد کے ابتدائی فن کاروں، گلوکاروں اور دانشوروں جنھوں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے فن کا لوہا منوایا اور پاکستان کا نام روشن کیا اس کہکشاں میں نام ور صحافی، عالمی شہرت یافتہ سفرنامہ نگار اور کالم نگار قمر علی عباسی، مشہور شاعرہ، ادیبہ، سماجی کارکن برائے حقوق انسانی و حقوق نسواں فہمیدہ ریاض، مہتاب چَنّہ، منظور قریشی ٹی وی فنکار، عابدہ پروین، قربان جیلانی، سید صالح محمد شاہ، بدر ہاشمی، یعقوب ذکریا، ممتاز مرزا، مائی بھاگی اور تاج مستانی جیسے ستارے شامل تھے۔ شفیق پراچہ سابق ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور سیکریٹری اپنی طالب علمی کے زمانے سے بچوں کے لیے کہانیاں اور فیچر لکھتے تھے۔

امر جلیل، مزاحیہ شاعر پروفیسر عنایت علی خاں، پروفیسر انوار احمد زئی، پروفیسر سید قوی احمد، غرض کہ بے شمار ستارے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے افق پر روشن رہے۔ اب چند ان پروگراموں کا ذکر جنھوں نے پورے پاکستان میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا وقار بلند کیا۔ ریڈیو پاکستان کے مقبول ان پروگراموں میں ہفتہ خواتین، ہفتہ اطفال، ہفتہ طلبا و طالبات، یوتھ ویک، جشن تمثیل، ہفتہ تمثیل اور دیگر پروگرامز شامل ہیں۔ 1962 کو ریڈیو اسٹیشن ہوم اسٹیڈیم ہال سے موجودہ عمارت نزد حیدرآباد پریس کلب میں منتقل ہوا، جس کا افتتاح 28 دسمبر 1962 کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کیا۔

اس وقت یہاں دس کلو واٹس کا ٹرانسمیٹر لگایا گیا تھا، پھر یہاں 1971 میں سو کلو واٹس کا طاقت ور ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا۔ اور دس کلو واٹ سے چینل 2 کے پروگرام نشر کیے جانے لگے۔ دسمبر 1972 میں ریڈیو کارپوریشن کا درجہ ملا۔ اب یہاں 14 جولائی 2002 سے FM کی نشریات کا آغاز ہو چکا ہے۔ A.M ٹرانسمیشن بوسٹر ڈیتھا اور مٹیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ طاقت ور ٹرانسمیٹر نصب ہونے کی وجہ سے حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن کا دائرہ نشریات وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔

ریڈیو پاکستان نے بڑھتی ہوئی آبادی کو باخبر رکھنے کے لیے اپنے نیٹ ورک کے دائرے کو بہت وسیع کردیا۔ اب پاکستان کے گوشے گوشے میں ریڈیو پاکستان کے اسٹیشنز، یونٹ اور میوزک چینلز قائم ہیں اور لوگوں کو ہر لمحہ باخبر رکھا جا رہا اور تفریح فراہم کی جارہی ہے۔

اس نیٹ ورک کو مزید وسیع تر کرنے کے لیے ایف ایم ریڈیو چینلز بھی پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں قائم کردیے گئے ہیں۔ ایف ایم 101 اور ایف ایم 93 ریڈیو پاکستان کے ذیلی ادارے ہیں۔

ایف ایم 101 کے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں یونٹس قائم ہونے کے بعد سننے والوں کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان کی انتظامیہ نے حیدرآباد میں Cm کا یونٹ قائم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جنوری 2002 میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی انتظامیہ کو احکامات موصول ہوئے جس کے تحت ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے پروگرام منیجر محمد اسلم بلوچ کو یہ ذمے داری سونپی گئی کیوںکہ FM-101 کراچی یونٹ کو قائم کرنے میں بھی محمد اسلم بلوچ کی کاوشیں شامل تھیں۔

FM-101 حیدرآباد کے علیحدہ بلاک کے لیے ریڈیو حیدرآباد کے سیکنڈ فلور کو منتخب کرکے پروجیکٹ سیل کراچی کے عملے نے کام شروع کردیا اور 5 مہینے کی انتھک محنت کے بعد یونٹ مکمل ہوگیا اور یکم جولائی 2002 کو FM-101 حیدرآباد کی آزمائشی نشریات کا آغاز کر دیا گیا، جب کہ باقاعدہ افتتاح 2002 کو اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات محترم نثار اے میمن نے کیا۔

افتتاحی تقریب کو محمد اسلم بلوچ (بانی و انچارج) نے اپنی ٹیم کی مدد، انتھک محنت، جستجو اور سچی لگن کے ذریعے کام یاب بنایا۔ تقریب ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے سبزہ زار پر منعقد کی گئی تھی۔ تقریب میں بڑی شخصیات ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، جناب غلام ربانی آگرو اور پروفیسر سید قوی احمد نمایاں تھے۔ FM-101 حیدرآباد کی نشریات صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک ہوا کرتی تھیں۔ تاہم حیدرآباد اور اندرون سندھ کے سامعین کی دیرینہ خواہش اور مطالبے کے پیش نظر 6 دسمبر 2005 سے نشریات کا دورانیہ شام 6 بجے سے بڑھا کر صبح 4 بجے تک کردیا گیا۔ بعدازاں 5 نومبر 2006 سے نشریات صبح 7 بجے سے صبح 6 بجے تک کردی گئیں۔

صبح 7 بجے سے شب 12 بجے تک مقامی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں اور شب 12 بجے سے صبح4 بجے تک اسلام آباد اسٹوڈیوز سے انٹرنیشنل نشریات پیش کی جاتی ہیں۔ اس طرح تقریباً 21 گھنٹے کی نشریات سامعین تک پہنچائی جا رہی ہیں۔

شروعات میں Tailor Company کا 2 کلو واٹ کا طاقت ور ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا تھا۔ تاہم نشریات کا دائرہ اندرون سندھ کے دوردراز علاقوں تک پہنچانے کے لیے ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان مرتضیٰ سولنگی اور ڈائریکٹر انجینئرنگ عبدالحفیظ میمن کی ذاتی دل چسپی کے باعث اس وقت Rohdhe and Schwarz Germany 2.5 کلو واٹ کا مزید طاقت ور ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا ہے۔ اب ٹھٹھہ، بدین، بھٹ شاہ، نواب شاہ، عمر کوٹ، سانگھڑ اور سپرہائی وے سمیت تقریباً200 مربع کلو میٹر کے رقبے میں نشریات بالکل صاف سنائی دیتی ہیں، جس کے باعث سامعین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوگئی ہے۔

ریڈیو پاکستان حیدرآباد ایک علمی، ادبی، سماجی اور ثقافتی ادارہ ہے اور صاحبانِ علم و فن کا گہوارا ہے۔ یہ وادی مہران کے صوفی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے پیغام کو پہنچانے والا ادارہ ہے۔ یہ ریڈیو اسٹیشن بھی کسی ریل گاڑی کی مانند ہے۔

فن کی گٹھڑیاں اٹھائے کئی فن کار آتے ہیں، ہر ایک منزل مقصود پر اترجاتا ہے۔ حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن پر یوں ہی لوگ آتے گئے، چلتے اور رکتے گئے۔ ٹی وی اور فلم کے اکثر مقبول فن کاروں نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو اسٹیشن حیدرآباد سے کیا۔ ریڈیو حیدرآباد ایک اکیڈمی ہے جہاں سے فن کار فنی تربیت حاصل کرسکتے ہیں۔ ریڈیو کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے حکومتی سطح پر پروگراموں کے انعقاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریڈیو سے روشناس کرایا جاسکے۔ ریڈیو ہمارا تاریخی اور قومی اثاثہ ہے، اس ورثے کی حفاظت کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں