غزل
خاک سے خاک کا میلان نہیں تھا،اب ہے
دل مرا کوئی بیابان نہیں تھا،اب ہے
قدر ہوتی نہیں پانی کی اگر پیاس نہ ہو
لطف جو وصل کے دوران نہیں تھا،اب ہے
میں نے آغاز کیا اپنے سفر کا جس روز
فاصلہ گھٹنے کا امکان نہیں تھا،اب ہے
آسماں ٹوٹ پڑا میری صدا سننے پر
جو مرے حال سے انجان نہیں تھا،اب ہے
زندگی میں نے محبت میں لٹا دی عاجزؔ
مرنا میرے لیے آسان نہیں تھا،اب ہے
(عاجزکمال رانا۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
اب جہاں ہوں وہاں سے ہلوں گا نہیں ،میں ملوں گا نہیں
ناشگفتہ ہوں یعنی کھلوں گا نہیں ،میں ملوں گا نہیں
یہ جو اپنے تئیں ایک شہ کار ہوں، یہ میں بے کار ہوں
اور تارِبقا سے سلوں گا نہیں ،میں ملوں گا نہیں
لوگ پوچھیں گے میرا چراگاہوں سے،پر میں جاتے سمے
راہ کے پیڑ سے بھی ملوں گا نہیں،میں ملوں گا نہیں
میرے تن پر ہوس کی تہیں بن گئیں اور اب جب تلک
عشق کے ناخنوں سے چھلوں گا نہیں، میں ملوں گا نہیں
واقفِ لذتِ وصل ہوں تو سہی،ہے یہی زندگی
پر حسینوں کا احسان لوں گا نہیں،میں ملوں گا نہیں
(ظہور منہاس۔مظفر آباد کشمیر)
۔۔۔
ٖغزل
وقت کے کاغذ پہ ٹیڑھے زاویے رہ جائیں گے
فوت ہو جائیں گے سب اچھے ، برے رہ جائیں گے
کیا پتا تھا؟ ہم ترے ملنے کی اک حسرت لیے
کچھ پرائی کھڑکیوں سے جھانکتے رہ جائیں گے
میں نکما پاس کر لوں گا وفا کا امتحاں
اور تم ایسے کئی اچھے بھلے رہ جائیں گے!
ان دنوں مہلک ہواؤں کا بھی کچھ امکان ہے
ہم کو یہ ڈر ہے کہ دروازے کھلے رہ جائیں گے
(حامد عزیز۔ آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
خوش آمدید تو کہہ، پیاس رائیگاں کر کے
میں آ گیا ترا دریا رواں دواں کر کے
بھٹک کے مر گئے مجھ میں کئی مسافرٍ دل
مجھے وہ چھوڑ گیا دشتِ بے اماں کر کے
وہ سرحدوں کی طرف دیکھتی ہوئی مائیں
وطن کو دیتی ہیں لختٍ جگر جواں کر کے
معاہدے کے مطابق تو رنج بھی نہ ملے
دیا ہے دھوکہ مجھے زندگی نے ہاں کر کے
عذابِ آب جب اترا بھڑکتے شعلوں پر
تو احتجاج کیا آگ نے دھواں کر کے
ہم اپنا ماتھا زمیں سے اٹھائیں گے لیکن
تمہارے نقش کف ِپا کو آسماں کر کے
(راکب مختار۔ شورکوٹ، جھنگ)
۔۔۔
غزل
جلوہ نما تھا عشق پسینے میں مر گئے
پروانے گردِ شمع مدینے میں مر گئے
وہ بچ گئے جو موجوں کے ہم راہ چل دیے
جو رہ گئے تھے باقی سفینے میں مر گئے
اس نے تمام درد کی قسطیں بھری نہ تھیں
سو اس کے سارے خواب ہی سینے میں مر گئے
کچھ کو دوام موت کی آغوش نے دیا
کچھ تھے فنا کا رزق جو جینے میں مر گئے
جو پل دہائیوں سے خوشامد پسند تھے
وہ سب تو ہجرتوں کے مہینے میں مر گئے
نجمی خدا کی ذات ہی بس مغفرت کرے
جو یار میرے بغض میں کینے میں مر گئے
(سیّد نجم الحسن نجمی ۔حویلیاں، ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
محبت تو بلا کا نام ہے جی
مسلسل التجا کا نام ہے جی
تمہاری ہچکیوں کا میں سبب ہوں؟
سراسر جھوٹ ہے ،الزام ہے جی
چلیں آئیں جھجھک کو چھوڑ دیجے
اگر ہم سے کوئی بھی کام ہے جی
اُنہی کی دید آنکھوں کی شفا ہے
انہی کو دیکھ کر آرام ہے جی
مسلسل مانگتے ہیں آپ کو ہم
وظیفہ اور دُعا ناکام ہے جی
سحر افطار کرتی آ رہی ہوں
کہ میرا صائمہ ہی نام ہے جی
(صائمہ یوسف زئی۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
عشق تہمت ہے تو تہمت سے الگ ہوجانا
کیسے اس شخص کی نسبت سے الگ ہو جانا
اس سے ملنا کسی امید سے حیرانی میں
اس کو تکتے ہوئے حسرت سے الگ ہوجانا
اب کسی یاد سے رکھنا نہ سروکار کوئی
اب ہراک خواب کی کلفت سے ا لگ ہوجانا
زندگی توُ نے فقط اتنی سہولت دی ہے
خودکشی کر کے اذیت سے الگ ہوجانا
پہلے اک شخص کو چاہت سے شناسا کرنا
پھر اسی شخص کی چاہت سے الگ ہو جانا
پاؤں رکھنا تیرا دہلیز کی ویرانی پر
اور در وبام کا وحشت سے الگ ہوجانا
(محب وفا۔ مہاراشٹر، ہندوستان)
۔۔۔
غزل
نہ صدائیں دے نہ وصال کر مری وحشتوں کو بحال کر
ذرا دیکھ آئنہ درد کا مرے کم سخن کا خیال کر
وہ ستم ہوا کہ زمین پر کوئی لاش دیکھی نہ جا سکی
سبھی آس پاس میں مر گئے دلِ بے وفا کو نکال کر
تجھے اس چمن کی پڑی ہوئی مجھے اس چمن کا خیال ہے
مرے سامنے نہ تو غم سنا مرے حال پر نہ سوال کر
ذرا دیکھ تختہ ٔ دار میں کہاں کون سولی پہ چڑھ گیا
ذرا پوچھ ڈھول پہ تھاپ پر مرا انگ انگ اجال کر
مجھے فکر شعر و سخن کہاں مجھے زندگی کا شعور ہے
ذرا اٹھ جہانِ خراب سے مرا اشک اشک سنبھال کر
یہ چہار سمت نویدِ غم جو سنا رہے ہیں ندیم کو
انھیں روک جلدی دغا نہ دے مرے بے اماں کو نکال کر
(ندیم ملک۔ کنجروڑ، نارووال)
۔۔۔
غزل
ناوک سے اُس کے آج بھی کوئی مَفر نہیں
یارو کوئی اماں نہیں ہے الحذر نہیں
دن ڈھل گیا ہے راستے کو دیکھتے ہوئے
آنا تھا اُس کو آج وہ آیا مگر نہیں
یہ ہجر فتنہ سوز ہے حاذق بھی کیا کرے
کوئی دَوا بھی آج کے دن کار گر نہیں
اب تو ترے فراق کو معمول کر لیا
ہلچل سی ایک دل میں ہے زِیر و زَبر نہیں
میں آرزوئے شوق بھی لے کر گیا تو تھا
اُس نے یہ صاف کہہ دیا بارِ دگر نہیں
شاید مری حیات کا جادہ تمام ہے
ساجد کسی طرف سے بھی اچھی خبر نہیں
(شیخ محمد ساجد۔لاہور)
۔۔۔
غزل
رنجیدہ نظر آتے ہیں اب حسن ِ نظر پر
وہ لوگ جو مسرور تھے آغازِ سفر پر
دل سے جو پکاریں تو سنی جاتی ہے اب بھی
حیرت میں کئی لوگ ہیں آہوں کے اثر پر
کرتا ہوں مگر کر نہیں سکتا میں ادا شکر
لے آئی ہے جو ذات نبی پاک کے در پر
ماں جی کی دعائوں کا سبھی فیض ہے لوگو
خوش ہوں میں خداوند کے ہر بخشے ثمر پر
چاہوں بھی تو گن سکتا نہیں ہوں میں کسی طور
اللہ کی ہیں اتنی عنایات ظفرؔ پر
(ظفر اقبال گوندل۔ کٹھیالہ خورد، ملکوال)
۔۔۔
غزل
اندھیری رات میں خود کو اجال رکھوں گا
یوں تیرے شہر کی رونق بحال رکھوں گا
تمہارے شہر نے مجھ کوکیا ہے کیوں پامال
تمہارے سامنے اپنا سوال رکھوں گا
عذابِ جاں کومیں کافور کرکے رکھ دوں گا
ترے جمال کا دل میں خیال رکھوں گا
کروں گا خود کو میں مستور گھر کے کمرے میں
برے دنوں کو میں کچھ ایسے ٹال رکھوں گا
میں اس برس تو فقط دل کی بات مانوں گا
تمہارے ہجر کے آگے وصال رکھوں گا
گلاب رت ہے مگر ہر طرف ہے خاموشی
پرند بولیں میں ان کا خیال رکھوں گا
جو لوگ تجھ سے ہیں کچھ بدگمان سے زاہد
میں ان کے سامنے تیرے کمال رکھوں گا
(حکیم محبوب زاہد۔ منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
زندگی ہی سنوار دیتے ہیں
دینے والے وہ پیار دیتے ہیں
کچھ حسیں ہوتے ہیں مسیحا سے
جینے کا جو خمار دیتے ہیں
کتنے غم خوار ہوتے ہیں آنسو
بوجھ دل کا اتار دیتے ہیں
ساتھ جس راہ پر چلے تھے ہم
اب وہ رستے فگار دیتے ہیں
رنگ ہیں وہ تری اداؤں میں
جو جہاں کو نکھار دیتے ہیں
پیار کے رستے ہیں معین ایسے
اک خوشی، غم ہزار دیتے ہیں
(معین فخر معین۔ کراچی)