سارے رنگ
مجھے پہلی بار یہ معلوم چلا کہ 30 سالہ محسن یحییٰ نے ’زیبسٹ‘ (SZABIST) سے قانون کی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی
''وہ زندگی بھی کفایت سے لکھوا کر لایا۔۔۔!''
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
یہ 12 اگست 2020ء کا دن تھا، مجھے ایک اطلاع ملی کہ ''محسن یحییٰ کا انتقال ہوگیا ہے۔۔۔!''
میں پہچانا نہیں، اب تک کی زندگی میں اس نام کا صرف ایک ہی لڑکا آیا تھا۔۔۔ اس لیے میرا دھیان اس کی طرف گیا۔۔۔ دل میں واہمے اور وسوسے لیے دفتر پہنچا اور دفتری کاموں سے پہلے کمپیوٹر کھول کر 'فیس بک' پر 'محسن یحییٰ' لکھ کر ٹٹولا۔۔۔ وہی شناسا 'محسن یحییٰ' کا فیس بک اکائونٹ سامنے آگیا۔۔۔ اس کے پاس فیس بک میں شامل دو مشترکہ احباب سے استفسار کیا، دونوں ہی نے اس افسوس ناک خبر کی تصدیق کر دی کہ یہ وہی محسن یحییٰ ہے۔۔۔ کچھ دنوں کی علالت کے بعد انتقال ہوگیا!
میرا ذہن ایک دم چکرا سا گیا۔۔۔ کیوں کہ میں ایک عجیب سے احساس کے ساتھ یہ خبر کھوج رہا تھا کہ ذہن کے کسی خانے میں یہ خواہش تھی کہ کاش، جلدی سے یہ معلوم چلے کہ یہ تو کوئی اور محسن یحییٰ ہے، اور میں مطمئن ہو جائوں۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔۔! محسن میرا کبھی دوست تو نہیں رہا اور نہ ہی مجھے اس سے بہت زیادہ قربت کا دعویٰ ہے۔
اس کے باوجود برسوں پہلے ہم محلے کی مسجد سے متصل نجم مدرسے میں قاری خلیق کی کلاس میں اور 'عقیلہ باجی' کے ہاں ٹیوشن ساتھ ساتھ پڑھے ہیں۔۔۔ اس کا گول اور بھرا بھرا سا چہرہ۔۔۔ اور 'بریسز' (Braces) لگے ہوئے دانت لبوں کے درمیان سے جَھلکنے لگے اور چشمِ تصور میں کھلکھلاتا اور مسکراتا ہوا محسن میری آنکھوں کے سامنے آتا چلا گیا۔۔۔ درد کی ایک لہر میرے دل میں اٹھنے لگی اور میری نگاہیں دھندلا کر رہ گئیں۔۔۔! کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ زندگی میں ایسا لمحہ بھی آئے گا۔۔۔!
مجھے احساس ہوا کہ بچپن میں میری محسن سے جب بھی بات ہوئی، تو ہم زیادہ تر کسی پرلطف بات پر ہنسے یا کسی شگوفے یا لطیفے پر ساتھ ساتھ لوٹ پوٹ ہوئے۔۔۔ میں نے پہلے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا تھا، مگر شاید ہمارے گھروں کی تربیت اور ماحول بھی ایک جیسا تھا، تبھی تو ہم بہت سی ایسی 'بے وقوفانہ' باتوں پر بھی بے ساختہ ہنس لیتے تھے، جن پر شاید اس عمر کے دیگر بچوں کو ہنسنے میں تامل ہو۔۔۔ پھر ہمارے درمیان وہ بار بار دُہرائے جانے والے مخصوص الفاظ 'چٹکلے' بن جاتے اور ہم وقتاً فوقتاً وہ فقرے چست کر کے اور وہ جملے ایک دوسرے پر اچھال کر ہنستے رہتے۔۔۔ ٹیوشن میں ہم تین بہن بھائی اور وہ دو بہن بھائی ساتھ پڑھے۔
محسن نے ہم بہن بھائیوں کی اپنی وضع کردہ 'بولی' یا وہ الفاظ بھی اُچک لیے تھے، جو ہم نے دراصل خود ہی اپنے گھر میں اپنے مختلف بچگانہ جذبات کے اظہار کے لیے 'ایجاد' کیے تھے۔۔۔ پھر وہ بھی اکثر میرے چھوٹے بھائی سے کہتا 'فرقان، ذرا بتانا، وہ کیا بولتے ہو۔۔۔؟' اور جب وہ بولتا تو یہ دونوں ہمارے ساتھ مل کر اس نئے لفظ کا خوب لطف اٹھاتے۔۔۔!
نہایت سادہ، کم گو، متفکر اور کسی حد تک گم صم دکھائی دینے والا محسن کبھی کبھی پراسرار سا بھی لگنے لگتا تھا۔۔۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ کسی پر کھلتا ہی نہیں تھا، اگر آپ اس سے بات کریں، تو وہ گریزاں نہیں رہتا تھا۔ زیادہ تر وہ اپنے کام سے کام رکھتا، سنجیدہ رہتا اور بس کسی کام کے لیے ہی گھر سے نکلتا اور پھر واپس اپنے گھر کی راہ لیتا۔۔۔ ہم تو پھر بھی اپنی گلی میں نکل کر کھیل لیتے، لیکن یاد نہیں پڑتا کہ کبھی اسے گھر سے باہر کھیلتے کودتے دیکھا ہو۔۔۔
مجھے پہلی بار یہ معلوم چلا کہ 30 سالہ محسن یحییٰ نے 'زیبسٹ' (SZABIST) سے قانون کی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ جامعہ کراچی کے شعبۂ 'جرمیات' (کرمنالوجی) میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہاں تدریس پر بھی مامور رہا۔۔۔! میں یہ جان کر اپنی بے خبری پر ہاتھ ملتا رہ گیا۔۔۔ مجھے یہ ہَوا ہی نہ لگی کہ میرے ساتھ پڑھا ہوا اور میرا محلے دار محسن یحییٰ 'سماجی علوم' (سوشل سائنسز) کا شاہ سوار ہے، یہ میرے لیے ایک اور 'صدمہ' تھا کہ مجھے محسن کی یہ ساری کام یابیاں اس کی ناگہانی موت کے بعد معلوم ہو رہی ہیں۔۔۔
اس سے پہلے 'وکالت' جیسے 'بدنام' شعبے میں طبع آزمائی کرنے والے ساتھیوں میں، میں صرف جنید عاقلین کو ہی جانتا تھا، اور مجھے یقین نہیں آیا تھا کہ نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول میں 'کے جی ٹو' میں میرے ساتھ پڑھنے والے جنید عاقلین کی تو تینوں امتحانات میں فرسٹ پوزیشن آئی تھی، وہ بھلا سائنس و کامرس چھوڑ کر کس دشت میں نکل گیا؟ لیکن آج معلوم چلا کہ ان کے ساتھ محسن یحییٰ نے بھی اپنی صلاحیتوں سے اُجالنے کے لیے اسی 'قانون' کے شعبے کو چنا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ لکیر کا فقیر نہیں تھا، بلکہ اس نے سوچ سمجھ کر اور اپنی دل چسپی کی بنیاد پر اپنی الگ راہ منتخب کی، ہمارے ایک پرانے شناسا بھائی ناصر تیموری بتاتے ہیں کہ دراصل انہوں نے ہی محسن کو 'جرمیات' کے مضمون سے متعلق معلومات فراہم کی تھیں۔۔۔
مجھے افسوس یہ ہے کہ محسن کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کے لیے یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں۔۔۔ اور اس کے جانے کے بعد ہی یہ انکشاف بھی ہوا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے وابستہ برادرم اسد اسلم بھی ان کے کالج کے زمانے کے ساجھے دار ہیں۔۔۔ مجھے اسد سے بھی یہی شکوہ ہوا کہ اللہ کے بندے، دنیا جہاں کی باتیں ہوتی رہتی ہیں، کبھی تو محسن کے کاموں سے متعلق بھی سُن گُن دی ہوتی! خیر وقت تو گزر گیا، اب صرف محسن یحییٰ کے لیے دعائے مغفرت اور ان کے اہل خانہ، بالخصوص والدین کے لیے صبرِ جمیل کی دعا ہی کی جا سکتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنا کرم فرمائے، یہ ان کے لیے بہت بڑی آزمائش ہے! اسد اسلم کے اس جملے کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ:
'محسن، بہت زیادہ کفایت شعار تھا، اس لیے وہ زندگی بھی کفایت سے لکھوا کر لایا۔۔۔!'
۔۔۔
تشکیل پاکستان کی ضرورت محسوس کیوں ہوئی؟
مرسلہ: ابراہیم یحییٰ، کہکشاں،کلفٹن
لکھنئو میں مسلم لیگ کے جلسے (منعقدہ 1937ء) میں راجا صاحب محمود آباد نے مسلم اقتصادیات سے متعلق ایک تجویز پیش کی۔ جس کی تائید میں، میں نے کہا کہ کانگریس بنگال میں جہاں 95 فی صد کاشت کار مسلمان ہیں، 95 فی صد زمیں دار ہندو ہیں، وہاں کانگریس زمیں داری کی تنسیخ کے خلاف ہے، مگر برعکس اس کے 'یو پی' جہاں 95 فی صد کاشت کار ہندو ہیں اور صرف 25 فی صد مسلمان زمیں دار ہیں، وہاں کانگریس زمیں داری کو ختم کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔
'یو پی' میں مسلمانوں کا تجارت میں بھی حصہ قلیل ہے۔ مسلمانوں میں جو تھوڑی بہت 'زمیں داری' ہے اس کو کانگریس ختم کر کے انہیں کنگال بنا دینا چاہتی ہے۔
(کتاب 'اسلام اور پاکستان کی مخالفت' از چوہدری خلیق الزماں سے اقتباس)
۔۔۔
قرۃ العین حیدرجب عمرہ کرنے گئیں۔۔۔
جسٹس (ر) حاذق الخیری
قرۃ العین حیدر نے بچیوں کے رسالے ''بنات''سے لکھنا شروع کیا، ان کی پہلی کہانی ''چاکلیٹ کا قلعہ'' ''بنات'' میں شایع ہوئی تھی۔ قرۃ العین حیدر اپنی کزن ڈاکٹر نور افشاں کے ساتھ 'ماری پور' میں رہتی تھیں، جو ان دنوں پاکستان ایئرفورس میں اسکوارڈن لیڈر تھیں، میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے گھر پر ہوئی، آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے بنگلے واقع بلاک 'بی' نارتھ ناظم آباد میں ہوئی، کوئی سات، آٹھ سال پہلے جب وہ ہندوستان سے آئی تھیں، تو انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی، مشفق خواجہ اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔
میں نے بڑے عرصے بعد ان کو دیکھا تھا، وہ ضعیف ہو چکی تھیں، مجھ کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ دائیں ہاتھ سے مفلوج ہوگئی ہیں، جس ہاتھ نے ان کا عمر بھر ساتھ دیا، اس ہی ہاتھ سے انہوں نے ضخیم ناول ''آگ کا دریا'' اور ''سفینۂ غم دل'' اور بے شمار کہانیاں تحریر کیں، مجھے اس کا علم اس وقت ہوا، جب میں نے انہیں ایک قلم پیش کرتے ہوئے کہا ''عینی بہن! ہمارے اور آپ کے خاندانی تعلقات 100 سال کے قریب ہوگئے ہیں۔
اس موقع پر میں ایک قلم آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں، جو ان تعلقات کی نشانی ہے۔'' انہوں نے بڑی خوشی سے قلم قبول کیا، اور خاص طور سے ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریک نسواں میں ''عصمت'' اور ''تہذیب نسواں'' کا ذکر کیا، کہنے لگیں کہ پروفیسر وقار عظیم نے مردانہ ادب اور نسوانی ادب اس طرح بانٹ دیا ہے، جیسے ٹرین میں مردانہ ڈبے اور زنانہ ڈبے ہوتے ہیں۔
باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ عمرہ کرنے گئی تھیں، تو انہوں نے خانہ کعبہ کے کئی چکر لگائے، لیکن 'حجرِ اسود' تک رسائی نہ ہو سکی کہ اسے چوم سکیں، انہیں اپنی آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی، کہ یک لخت انہیں ایک کالی لمبی چوڑی عورت نے پورا اٹھاکر 'حجرِ اسود' کے قریب کر دیا کہ وہ اسے چوم سکیں اور اس طرح ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوگئی، ڈاکٹر نور افشاں کے مطابق قرۃ العین حیدر کی تحریریں بکھری رہتی تھیں، کبھی وہ بیٹھے بیٹھے ریپر پر، کسی بچے کی کاپی پر، لفافے کے پیچھے کہیں بھی، کسی وقت بھی لکھنا شروع کر دیتی تھیں اور تیزی سے لکھتی تھیں۔
پھر انہیں یک جا کر کے ایک ترتیب اور تسلسل سے 'فیئر' کر لیتی تھیں، ان کے انتقال پر ان کے چچا زاد بھائی اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس زوار حسین کی نواسی نے قرۃ العین کی ساری چیزیں سمیٹ کر 'جامعہ ملیہ' میں ان کے نام سے میوزیم میں رکھوا دیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے چالیس، پچاس ہزار پونڈ لندن کے ایک بینک کے جوائنٹ اکائونٹ میں جمع تھے، جو کسی عزیز کے ساتھ کھلوایا گیا تھا۔ ڈاکٹر نور افشاں نے قبل از وقت ایئرفورس سے ریٹائرمنٹ لے لی۔
ان کی شادی تحریک پاکستان کے لیڈر حسین امام صاحب کے بڑے بیٹے مظہر امام سے ہوئی، انہوں نے نارتھ ناظم آباد میں ''امام کلینک'' قائم کیا تھا، جو اب ایک بڑے اسپتال میں تبدیل ہو چکا ہے۔
(خود نوشت 'جاگتے لمحے' سے چنا گیا)
۔۔۔
'منتظر'
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
عجب مصیبت سی آ پڑی ہے
کہ ملنے والوں کو رکھ رکھاؤ کے
سب تقاضوں کے ساتھ ملنا
بڑا کٹھن ہے۔۔۔!
مجھے پتا ہے کہ میرے بالوں میں الجھنوں کی ہزار گرہیں لگی ہوئی ہیں
ابرووں کی کٹار نوکیں بھی راہ کھو کر بڑھی ہوئی ہیں۔۔۔
نیل پالش تو ناخنوں کے وسط تک سے اتر گئی ہے
لبوں پہ موسم کی حدتوں سے پپڑیاں سی بنی ہوئی ہیں
میں جانتی ہوں کہ میرے کپڑوں پہ سلوٹوں کی نشانیاں ہیں
وہ چاہتے ہیں میں صاف 'تختۂ سیاہ' کی مانند نظر آؤں
وہ میری ہستی کی ٹیڑھ کھائی، بدشکل سی حقیقتوں سے نہیں ملیں گے!
وہ میرے بالوں کی الجھنوں سے
میرے ہونٹوں کی خستگی سے
سلوٹوں کی کہانیوں سے
وحشتوں کی نشانیوں سے گریز پا ہیں
وہ کیک تھامے، پھول رکھے میری آمد کے منتظر ہیں
اور میں کمرے میں پھیلے بکھرے
چرمرائے کاغذوں کے ہجوم میں سے
صاف کاغذ کو کھوجتی ہوں۔۔۔
میں جس سے بے ڈھب سی خوش طبعی کے جھوٹے پردے کو رنگ سکوں اور
آنے والوں کی خوش گمانی کے کچے رنگوں کو کچھ ہی پل کو
پھیلنے سے بچا سکوں۔۔۔
۔۔۔
'گاندھی جی نے کہا آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!'
پروفیسر محمد اسلم
میں نے ظہر کی نماز جامع مسجد میں ادا کی۔ مسجد کے شمالی دروازے کے باہر ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، جو امام صاحب کا قبرستان کہلاتا ہے۔ اسی قبرستان میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی (م 1956ء) اور مولوی سمیع اﷲ (م1969) محو خواب ابدی ہیں۔ مولانا لدھیانوی ایک زمانے میں مجلس احرار کے صدر تھے اور پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ قیام پاکستان کے بعد موصوف مہاجروں کے قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچے، لیکن یہاں ان کا جی نہ لگا اور موصوف دسمبر 1947ء کے اواخر میں دوبارہ بھارت چلے گئے۔ 3 جنوری 1948ء کو وہ 'گاندھی جی' سے ملے۔
گاندھی جی نے ان سے کہا۔ مولانا کیا آپ بھی پاکستان چلے گئے تھے؟ کیا آپ نے لدھیانہ کی سکونت اس بنا پر ترک کی کہ وہاں کے ہندو اور سکھ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، اگر آپ کا یہی جرم تھا تو آپ اپنے دین کے لیے جان کا نذرانہ پیش نہ کر سکے۔ یہ بات خود مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے راقم الحروف کو سنائی تھی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ 'گاندھی جی' کی باتیں سن کر اس قدر شرمندہ ہوئے کہ انہیں کوئی جواب نہ دے سکے۔ یہ 'گاندھی جی' کے ساتھ ان کی آخری ملاقات تھی۔ 30جنوری 1948ء کو نتھو رام گوڈسے نے انہیں گولی مارکر ہلاک کر دیا۔
(کتاب 'سفرنامہ ہند' سے لیا گیا، جو راشد اشرف کے زیراہتمام دوبارہ شایع ہوئی)