پنجاب حکومت کی دو سالہ کارکردگی کو غیر جانبداری سے جانچا جائے

لوگ میاں شہباز شریف کی کارکردگی کا موازنہ عثمان بزدار سے کرتے ہیں جو کہ غیر منصفانہ ہے۔


رضوان آصف September 02, 2020
لوگ میاں شہباز شریف کی کارکردگی کا موازنہ عثمان بزدار سے کرتے ہیں جو کہ غیر منصفانہ ہے۔ فوٹو : فائل

تحریک انصاف کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کے قیام کو دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران عمران خان اور ان کی ٹیم شدید تنقید کا شکار رہے ہیں۔

وفاقی حکومت پر سب سے زیادہ تنقید معاشی صورتحال کے سبب کی جا تی ہے جبکہ پنجاب حکومت پر سب سے زیادہ تنقید وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے سبب ہوتی ہے۔

اپوزیشن اور میڈیا کے بعض حلقوں کی ''ٹارگٹڈ تنقید'' کو ایک جانب رکھ کر زمینی حقائق اور اعدادوشمار کے مطابق کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو سب کچھ برا نہیں ہے بہت کچھ اچھا بھی ہوا ہے لیکن اچھائی اس لئے نمایاں نہیں ہوتی کیونکہ حکومتی ارکان میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اپنے اچھے کاموں کی برینڈنگ کر سکیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ حکومت اپنی ابتداء سے ہی میڈیا کے ساتھ ایک سرد جنگ شروع کر چکی ہے جس کا نقصان میڈیا سے زیادہ خود حکومت کو ہوا ہے۔

سابقہ حکومتیں اپنے منصوبوں، اپنی اصلاحات اور اپنے وژن کو الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں تشہیر کے ساتھ عوام کے ذہن میں نقش کرتی تھیں لیکن یہ حکومت سمجھتی ہے کہ چند ٹویٹس اور فیس بک پوسٹ کے ذریعے وہ سب کچھ عمدگی کے ساتھ پیش کر لیتی ہے۔ وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے غیر جانبدار موازنہ کا معیار اپنانا چاہیئے۔

لوگ میاں شہباز شریف کی کارکردگی کا موازنہ عثمان بزدار سے کرتے ہیں جو کہ غیر منصفانہ ہے۔ میاں شہباز شریف کے پیچھے ان کے بھائی میاں نواز شریف کی 35 سالہ سیاست اور اقتدار کا مضبوط پس منظر ہے۔ جب میاں نواز شریف پہلی مرتبہ پنجاب کابینہ میں وزیر کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے اسی وقت سے میاں شہباز شریف کی حکومتی تربیت کا آغاز ہو گیا تھا، مرحوم میاں شریف صاحب کی بھرپور مدد اور حمایت بھی چھوٹے میاں صاحب کو حاصل تھی، جوں جوں میاں نواز شریف ترقی کرتے گئے اسی رفتار سے میاں شہباز شریف کی سیاسی و حکومتی حیثیت میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا اور پھر جب پہلی بار میاں شہباز شریف کو وزیر اعلی پنجاب بنایا گیا تو وہ''نویں نکور'' وزیر اعلی نہیں تھے بلکہ نہ صرف انہیں اپنے بھائی کے سبب تمام حکومتی و انتظامی امور بارے مکمل آگاہی اور تجربہ تھا بلکہ بیوروکریسی کیلئے بھی میاں شہباز شریف ''نووارد'' نہیں تھے۔

میاں شہباز شریف کو بحیثیت وزیر اعلی تین میں سے دو مرتبہ اپنے بھائی کے وزیرا عظم ہونے کی مدد بھی شامل تھی۔ سردار عثمان بزدار کو یہ تمام سہولیات حاصل نہیں ہیںوہ پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی بنے اور تقدیر نے انہیں اقتدار کی مسند پر براجمان کردیا۔ان کی جگہ کوئی بھی دوسرا شخص ہوتا اس کیلئے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ روز اول سے ہی کارکردگی کا ڈھول بجا دیتا۔ ناتجربہ کار وزیر اعلی کو نظام حکومت کو سمجھنے، بیوروکریسی کو پہچاننے اور بروقت و درست فیصلہ سازی کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کیلئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے جو سردار عثمان بزدار کو بھی درکار تھا تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ سردار صاحب نے کچھ زیادہ وقت لے لیا۔

ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ میاں شہباز شریف کے دور میں گنتی کے چند چہیتے ارکان کے علاوہ کسی رکن اسمبلی کی رسائی ان تک نہیں تھی جبکہ سردار عثمان بزدار تک سب اراکین کی رسائی ممکن ہے اور جتنی عاجزی و انکساری سے وہ گفتگو کرتے ہیں اس کا تصور بھی میاں صاحب کے دور میں ممکن نہ تھا۔ پنجاب کابینہ کے ایک یا دو (شاید وہ بھی نہیں) ارکان کو چھوڑ کر تمام ارکان کا انتخاب خود عمران خان نے کیا ہے اور یہ انتخاب متنازعہ ہونے کے علاوہ ابتک زیادہ تر ناکام ہی دکھائی دیا ہے اور اس کی ذمہ داری عثمان بزدار پر تھوپنا نا انصافی ہوگی۔

چند ایک کو چھوڑ کر باقی تمام وزراء کی کارکردگی ناقص سے بھی کمتر درجہ کی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ انہیں تبدیل کرنے کا اختیار بھی عثمان بزدار کے پاس نہیں ہے، یہ نکمے وزیر حکومت کیلئے بوجھ بن چکے ہیں ۔ عبدالعلیم خان نے دونوں مرتبہ کابینہ کے سینئر وزیر کی حیثیت سے عثمان بزدار کا بھرپور ساتھ نبھایا ہے۔ پہلی مرتبہ سینئر وزیر بنے تو محکمہ بلدیات میں غیر معمولی اصلاحات متعارف کروانے کا آغاز کیا ،نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے آج تحریک انصاف جس قانون پر فخر کر رہی ہے وہ علیم خان کی دن رات کی محنت کا ہی نتیجہ ہے جبکہ دوسری مرتبہ سینئر وزیر بننے کے بعد علیم خان کو پہلے سے جاری گندم آٹا چینی بحران وراثت میں ملا ہے اور وہ مسلسل اس پر قابو پانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں لیکن پنجاب حکومت گندم آٹا کے معاملات میں خود فیصلے نہیں کر پا رہی کیونکہ وفاقی حکومت کا شدید دباو اور ان کی جانب سے تجویز کردہ فیصلے موجود ہوتے ہیں۔

وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے دو سال میں ثابت کیا ہے کہ وہ کپتان کے سٹار کھلاڑی ہیں، معاشی مشکلات کے باوجود پنجاب جیسے بڑے اور پیچیدہ صوبے کے مالی معاملات کو درست سمت میں گامزن کیئے رکھنا ان کی بڑی کامیابی ہے ۔ راجہ بشارت ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ وزیر ہیں، انہوں نے اپنی حکومتی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقہ سے نبھایا ہے، دوسری جانب وزیر ہاوسنگ میاں محمود الرشید بھی مشکلات اور چیلنجز کا پہاڑ سر کر کے 50 لاکھ گھروں کی حکومتی پالیسی کو کامیاب کروانے کیلئے کوشاں ہیں۔ وزیر صنعت میاں اسلم اقبال شاید اس وقت پنجاب کابینہ کے سب سے متحرک اور فعال وزیر ہیں، ان کے پاس موجود محکموں کا دائرہ کار بھی ایسا ہے کہ اس میں بہت کچھ نیا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

میاں اسلم اقبال نے صنعتوں کی ترقی و توسیع اور اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور قیمتوں کے حوالے سے شاندار کام کیا ہے۔وزیر ایکسائز حافظ ممتاز احمد نے اپنے سیکرٹری اور ڈی جی کے ساتھ ملکر نمبر پلیٹس اور سمارٹ کارڈز کا سالوں پرانا بحران حل کیا ہے جبکہ جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کروا کر عوام کیلئے سہولت پیدا کرنے کے علاوہ کرپشن کی روک تھام کیلئے بھی عمدہ کام کیا ہے، ای آکشن کی کامیابی کے بعد وزیرا علی نے اب گاڑیوں کی ملکیت تبدیلی کیلئے بائیو میٹرک نظام کی بھی منظوری دے دی ہے۔

پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں میں اصلاحات کے حوالے سے نمایاں کام کیا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے بھی وزیر اعلی سردار عثمان بزدار پر مختلف طرح کی الزام تراشی کی جاتی ہے لیکن انہوں نے صرف اپنے ضلع پر ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی پنجاب کیلئے فنڈز فراہم کیئے ہیں ۔ ن لیگ نے طویل عرصہ تک لاہور اور سنٹرل پنجاب (عرف عام میں جی ٹی روڈ والے شہر) کے اضلاع پر زیادہ توجہ دی اور جنوبی پنجاب کو نظر انداز کیا لیکن عثمان بزدار نے وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق جنوبی پنجاب کو اولین ترجیح بنایا ہے تا کہ وہاں کے عوام کا احساس محرومی دور کیا جا سکے۔گزشتہ دو برس میں پنجاب حکومت نے متعدد شعبوں میں بہت سے اہم اقدامات کیئے ہیں جن کی تفصیل آج پنجاب حکومت جاری کرے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ تنقید برائے تنقید یا پھر تنقید برائے مفاد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ پنجاب حکومت نے دو سالوں میں جو عمدہ کام کیئے ہیں خواہ وہ تعداد میں کم ہیں لیکن انہیں کھلے دل کے ساتھ تسلیم اور سراہنا چاہیے لیکن حکومت جہاں اعدادوشمار کے گورکھ دھندے اور الفاظ کے ہیر پھیر کے ذریعے بوگس کریڈٹ لینے کی کوشش کرے اس کا پردہ چاک کرنا میڈیا اور اپوزیشن پر لازم ہے۔تاہم یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار یا صوبائی کابینہ کو فیصلوں کا کس حد تک اختیار حاصل ہے۔ جیسا کہ پنجاب حکومت سرکاری گندم کی قیمت فروخت 1600 روپے فی من مقرر کرنا چاہتی تھی لیکن وفاق نے دباو ڈال کر قیمت 1475 کروائی ۔ وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعلی سردار عثمان بزدار اور ان کی کابینہ کوگائیڈ لائنز ضرور دیں لیکن اصل کامیابی کیلئے پنجاب حکومت کو' 'با اختیار'' بنانا ہوگا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں