دولے شاہ کے چوہے
آپ کو ہرشہراورہرگائوں میں سبزچولا پہنے سخت گرمی اورشدید سردی میں ننگے پائوں بچے نظر آئینگے جو بھیک مانگ رہے ہونگے..
SINGAPORE:
ہمارا انفرادی رویہ مجموعی طور پر بہت بہتر ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ کسی کو بتائے بغیر کثیر تعداد میں صدقہ اور خیرات کرتے ہیں۔ اس اَمر کی لاکھوں شاندار مثالیں جگمگاتے چراغوں کی طرح پاکستان کے ہر شہر، ہر محلے اور ہر گلی میں موجود ہیں۔ لوگوں کی اکثریت باقاعدگی سے زکوۃ ادا کرتی ہے مگر حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے کیونکہ ان کی نظر میں ٹیکس کے عمل سے جمع شدہ رقم اِن بے جا اور لا یعنی معاملات پر خرچ کی جاتی ہے جن میں کرپشن کا عنصر غالب ہے۔ مگر اس کے برعکس ہمارے اجتماعی رویہ کا بیشتر حصہ بہت حد تک ناقابل فہم ہے۔ بلندبانگ اعلانات، جذباتیت میں گندھے ہوئے رویے اور اپنے اقتصادی اور علمی قد سے بہت اوپر کے دعوے ہمارا خاصہ بن چکے ہیں۔ ماضی کے قصے کہانیاں اور فروعی معاملات میں زندہ رہنا بالکل عام سی بات ہے۔ میں اس تضاد پر جتنا غور کرتا ہوں اتنا ہی کسی بھی مدلل جواب سے دور ہوتا جاتا ہوں۔ ہم ہر وہ بڑا کام کرنا چاہتے ہیں جو دنیا کا کوئی ملک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن دوسرے ممالک کی اچھی اور قابل تقلید مثالوں کو ہم ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ ہم سویڈن کے مثالی فلاحی ریاست کے پروگرام سے کچھ بھی سیکھنا نہیں چاہتے کہ وہ ایک مغربی ملک ہے مگر سویڈن کی حکومت کے اس پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ان کا فلاحی نظام حضرت عمر فاروق کے افکار اور طرزِ حکومت سے کشید کیا گیا ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اجتماعی طور پر ہم ایک طلسماتی بے حسی کی قید میں ہیں۔
ہم سارا دن الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر ایسے ایسے مناظرے اور مباحثے سنتے، دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ کئی بار گمان ہوتا ہے کہ دنیا کی اصل سُپر پاور صرف اور صرف پاکستان ہے۔ کاش ایسا ہی ہوتا؟ مگر ایسا ہر گز نہیں ہے۔ عام لوگوں کے مسائل شائد کسی مہیب چٹان کے نیچے آ کر اقتدار پر قابض لوگوں کی نظر سے بالکل اوجھل ہو چکے ہیں۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی عملی طور پر انسانی سطح سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اگر عام آدمی کا یہ حا ل ہے تو ذرا سوچیے کہ ہمارے ان بدقسمت شہریوں کا کیا حشر ہو رہا ہو گا جو قدرت یا لوگوں کی ستم ظریفی کی بدولت کسی مہلک جسمانی یا ذہنی عارضہ کا شکار ہیں اور معاشرہ میں ان کی کوئی آواز نہیں ہے۔
گلبرگ لاہور کی مین بولیوارڈ Main Boulivard ایک شاندار سڑک ہے۔ روشنیوں کا ایک سیلاب ہے جو شام سے رات گئے تک اس شاہراہ کو سیراب کرتا رہتا ہے۔ گاڑیاں کچھ دیر کے لیے سرخ بتی پر کھڑی ہوتی ہیں۔ شام کو جب بھی میں اس جگہ پر رکتا ہوں تو سبز کپڑے پہنے ہوئے ایک نوجوان جو بیس پچیس برس کا ہو گا گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹا کر بھیک مانگتا ہے۔ اُس نوجوان کا سر بہت چھوٹا ہے اور دھڑ بالکل تندرست شخص کے برابر ہے۔ ایک فقیر نے اس چھوٹے سر والے نوجوان کو ہاتھ سے پکڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ سبز پوش نوجوان ٹھیک طریقے سے چل نہیں سکتا۔ سہارے سے چلتے ہوئے بھی اُس کے قدم ڈگمگاتے ہیں۔ اس کے منہ سے رال بہتی رہتی ہے۔ اور وہ بھیک مانگتے ہوئے مسلسل ہنستا رہتا ہے۔ گاڑی کے شیشے کو کھٹکھٹا کر وہ صرف ہاتھ پھیلاتا ہے اور اگر آپ اسے کچھ پیسے نہ دیں تو وہ بغیر کچھ کہے دوسری گاڑی کی طرف چلا جاتا ہے۔ جیسے ہی ٹریفک چلنے لگتی ہے وہ چوک کے درمیان گھاس پر بیٹھ جاتا ہے۔ سرخ بتی ہونے پر اس کے ساتھ والا شخص اس کو پھر گاڑیوں کے نزدیک کھڑا کر دیتا ہے اور وہ دوبارہ بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے۔ اس نوجوان کو دیکھ کر دل پگھلتا ہے اور پتھر سے پتھر دل شخص بھی اسکو خیرات دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ میں اس سڑک سے گزرتا رہتا ہوں اور وہ نوجوان مجھے اکثر و بیشتر وہاں بھیک مانگتا نظر آتا ہے۔ میں اکثر رُک کر اِس نوجوان کے کاسہ میں پیسے ڈالتا ہوں۔ جب آپ اسے پیسے دے رہے ہوتے ہیں تو وہ کبھی بھی آپ کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اس کی نگاہیں آسمان کی طرف مرکوز ہوتی ہیں۔ وہ مسلسل مسکراتا رہتا ہے۔ یہ نوجوان دولے شاہ کا چوہا ہے۔
سولہویں (16) صدی عیسوی کے آخری حصہ میں دولے شاہ، گجرات کے نزدیک قیام پذیر ہوئے۔ وہ ایک نیک اور برگزیدہ شخص تھے۔ انھیں پرندے اور جانور بہت پسند تھے۔ ایک حکایت کے مطابق کئی بار وہ اپنے پسندیدہ جانوروں کے سر پر ایک مٹی کی ٹوپی رکھ دیتے تھے اور ان کے سروں کو مکمل ڈھانپ کر رکھتے تھے۔ ان کا آستانہ عام لوگوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ بانجھ عورتیں ان سے دعا کروانے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے حاضر ہوتیں تھیں۔ روایت ہے کہ دولے شاہ کی دعا سے وہ اکثر صاحبِ اولاد ہو جاتیں تھیں۔ بیشتر والدین پہلے بچے کو اس آستانے کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ حکایت کی رو سے اگر والدین اس بچے کو دولے شاہ کے مزار پر وقف نہیں کرتے تھے تو ان کی ہونے والی ساری اولاد ہمیشہ چھوٹے سروالی ہی پیدا ہوتی تھی۔ روایت یہاں تک موجود ہے کہ اگر بچے کو اس آستانہ پر نہیں لایا جاتا تھا تو وہ بڑا ہو کر خود بخود یہاں پہنچ جاتا تھا۔ یہ بچے مختلف علاقوں میں بھیک مانگ کر اپنا گزارہ کرتے تھے۔
ان تمام پہلوئوں پر سنجیدہ تحقیق صرف برطانوی ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے کی ہے۔ اس کے علاوہ چند برطانوی افسران جو گجرات میں تعینات رہے، نے بھی ان بچوں کا بغور مشاہدہ کیا اور مختلف رپورٹس مرتب کیں۔ انڈین اور پاکستانی دانشور اس جانب بہت کم متوجہ ہوئے اور ان کا بطور محقق اس معاملے میں تجزیہ تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اصل میں سائنس اور علم کی دنیا سے ہم لوگوں کا تعلق واجبی سا ہے۔ ہم ماضی کے سائے میں سانس لیتے ہیں۔ اگر کسی تعصب کے بغیر موازنہ کیا جائے تو ہمارے خطہ میں سائنس، ایجادات اور نئی دریافتیں بالکل نا پید ہیں۔
کرنل کلاڈ مارٹن(Col Clade Marten) 1839ء میںاس دربار پر پہنچا۔ اس نے چند خواتین کو اپنے بچوں کو دربار کے لیے وقف کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اُس کے مطابق یہ رسم بہت پہلے سے چلی آ رہی تھی۔ بچوں کی جسمانی حالت کے متعلق اس نے لکھنے سے گریز کیا۔ 1866ء میں ڈاکٹر جانسٹن دولے شاہ کے دربار پر آیا۔ اُس کو وہاں نو بچے ملے۔ ان بچوں کی عمریں دس اور انیس برس کے درمیان تھیں۔ ان تمام بچوں کے سر بہت چھوٹے تھے۔ اور وہ دولے شاہ کے چوہے کہلاتے تھے۔ ڈاکٹر جانسٹن وہ پہلا سائنس دان تھا جس نے بتایا کہ ان تمام بچوں کے سروں کو فولادی خود یا کسی اور میکینکل طریقے سے چھوٹا کیا گیا ہے۔ 1879ء میں ہیری ریوٹ کارنک (Harry Rivett Cornic) نے اس دربار پر تحقیق کی۔ اس نے لکھا کہ ہر سال تقریباََ دو سے تین بچوں کو دربار کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔ اس نے معصوم بچوں کو چوہا بنانے کے متعلق لکھا کہ ان بچوں کے سروں کو میکنیکل طریقے سے چھوٹا کیا جاتا ہے اور اُس میں مختلف حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مٹی کی ہنڈیا اور دھات سے بنے ہوئے خود بھی ان بچوں کو چوہوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
فلورا اینی اسٹیل Flora Annie Steel) (نے 1886ء میں ان بدقسمت بچوں کے متعلق لکھا کہ دربار پر یہ بچے بالکل تندرست اور صحت مند ہوتے تھے اور ان میں کسی کا سر چھوٹا نہیں تھا۔ مگر مقامی لوگوں کے چند گروہ ان تندرست بچوں کو پورے ہندوستان میں فروخت کر دیتے تھے اور ان کی جگہ چھوٹے سر والے بچے لے آتے تھے۔ اکثر والدین اپنے معذور بچوں کو ان گروہوں کے حوالے کر دیتے تھے کیونکہ یہ بچے ان کے لیے مکمل بوجھ تھے۔
کیپٹن ایونز نے 1902ء میں اس دربار پر بھر پور تحقیق کی۔ اس وقت تک یہ بچے 600 سو کے قریب ہو چکے تھے۔ اس نے بچوں کے سروں کو زبردستی چھوٹا کرنے کی تھیوری کو تسلیم کرنے سے بالکل انکار کر دیا۔ اُس کے بقول یہ ایک بیماری تھی اور اس طرح کے بچے شاہ دولہ کے مزار کے علاوہ پورے ہندوستان میں پائے جاتے تھے۔ اس نے لکھا کہ، اس طرح کے بچے Microcephalicکہلاتے ہیں اور یہ بچے اس نے برطانیہ میں بھی دیکھے ہیں۔ اس کے نزدیک دولے شاہ کا مزار اس مہلک بیماری میں مبتلا بچوں کے لیے ایک سماجی پناہ گاہ ہے۔ مگر اس نے ان بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کے متعلق بہت سخت الفاظ استعمال کیے۔ اس نے بیان کیا کہ جو فقیر ان بچوں کو لے کر بھیک مانگنے کے لیے مختلف مقامات پر لے جاتے ہیں۔ ان کا رویہ ان بچوں کے ساتھ انتہائی نازیبا اور غیر انسانی ہے۔
1902ء میں کئی بچوں کو تو سالانہ سترہ سے بیس 17-20روپے کے عوض کرایے پر بھی دے دیا جاتا تھا۔1969ء میں محکمہ اوقاف نے اس دربار کو اپنی تحویل میں لے لیا اور چوہے بنانے کے کام کو قانونی طور پر بند کر دیا۔ اس کے باوجود یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ آپ کو ہر شہر اور ہر گائوں میں سبز چولا پہنے سخت گرمی اور شدید سردی میں ننگے پائوں، اس طرح کے متعدد بچے نظر آئینگے جو بھیک مانگ رہے ہونگے۔ میں ان بچوں کو چوہا نہیں لکھ سکتا کیونکہ یہ معذور فرشتے ہیں۔ ہمیں ان کو بحیثیت انسان قبول کرنا چاہیے۔ لیکن شائد ہم اتنا بڑا کام نہیں کر سکتے؟ ہم انکو چند روپے خیرات دے کر اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں؟ ہمارا رویہ کسی طور پر بھی مہذب نہیں ہے؟ اگر ان معصوم اور مجبور بچوں کی نظر سے دیکھا جائے تو دولے شاہ کے چوہے وہ نہیں بلکہ ہم ہیں؟ اصل میں ہمارے سر چھوٹے ہو چکے ہیں مگر ہمارے چھوٹے سر نظر نہیں آتے، یہ صرف محسوس کیے جا سکتے ہیں؟ اور یہ معذور فرشتے شائد ہمارے چھوٹے سر دیکھ کر ہر وقت ہنستے رہتے ہیں؟