بحران زدہ ’میئر کراچی‘ کی ناکامی۔۔۔

وسیم اختر کا دور بھی کسی تنازع سے کم ثابت نہ ہوا۔۔۔


Rizwan Tahir Mubeen September 06, 2020
وسیم اختر کا دور بھی کسی تنازع سے کم ثابت نہ ہوا۔۔۔ ۔ فوٹو : فائل

میئر کراچی وسیم اختر کی چار سالہ مدت اختتام کو پہنچی۔۔۔ اپنی برہمی اور متنازع بیانات کے سبب کارزار سیاست میں ایک الگ شناخت بنانے والے سابق صوبائی مشیر اور وزیر سندھ کی کراچی کی 'میئری' بھی کسی تنازع سے کم ثابت نہ ہوئی۔۔۔

'میئر تو اپنا ہونا چاہیے' کے دل فریب نعرے کے ساتھ منتخب ہونے والے 'متحدہ قومی موومنٹ' کے وسیم اختر کو موجودہ بلدیاتی نظام میں کچھ نہ کرسکنے کا اعتراف کیے بنا چارہ نہ تھا، لیکن وہ اس بات کا خاطر خواہ جواب نہیں دے پائے کہ اگر وہ بے اختیار تھے، تو انھوں نے اس کے لیے جدوجہد اور احتجاج کیوں نہ کیا۔۔۔؟ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے چار سال سے ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہوئی ہے، جس میں انہیں اختیار دیے جانے کا مطالبہ ہے، اور ان کی یہ عدالتی درخواست سنی ہی نہیں جا رہی۔

ان کے اس موقف کے باوجود بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنا یہ مقدمہ عوام کے پاس کیوں نہیں لے کر گئے۔۔۔ ہمیں گذشتہ چار سالوں میں ان کی ایسی ایک بھی دبنگ پریس کانفرنس دیکھنے کو نہ ملی جیسے انہوں نے 25 اگست کو کی اور کاغذات کا ایک پلندہ لہراتے ہوئے بتایا کہ گورنرسندھ، وزیراعلیٰ سندھ، سیکریٹری، وزیراعظم سے لے کر صدرِ پاکستان تک کو خطوط لکھے، لیکن کسی ایک نے بھی جواب کی زحمت نہیں کی۔

بے بسی کی تصویر بنے رہنے سے بہتر راستہ مستعفی ہو جانا تھا، لیکن وہ شاید خوف زدہ تھے یا پھر انھوں نے اسے مسئلے کا حل نہیں سمجھا، لیکن کراچی کے منہ زور مسائل، گندگی اور پس ماندگی کے سبب رائے عامہ اب ان کے خلاف محسوس ہوتی ہے۔۔۔ بعض ذرایع کے مطابق وسیم اختر یہ کہتے رہے کہ اگر انہوں نے استعفا دیا، تو وہ دوبارہ اندر ہو جائیں گے، جیسا میئر بننے کے بعد نومبر 2016ء تک تھے۔۔۔ انہوں نے ہمیں دیے گئے اپنے انٹرویو میں 1990ء کی دہائی کی تین سالہ اسیری سے زیادہ کٹھن اپنے 'میئر شپ' کے دور کو قرار دیا۔

آخر مخالفین پر گرجنے برسنے اور جذبات میں بہہ جانے والے وسیم اختر اس نہج تک کیسے پہنچے۔۔۔ اس ساری صورت حال میں جو چیز سب سے زیادہ فراموش کی جا رہی ہے، وہ ان کی جماعت یعنی ' ایم کیو ایم' کا داخلی بحران ہے۔۔۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سب سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے والی ایم کیو ایم 12 مئی 2007ء کے سیاسی تصادم کے بعد سے جس زوال کا شکار ہونا شروع ہوئی۔

اس میں 2010ء میں سابق کنوینر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے بعد کافی تیزی آتی ہوئی محسوس ہوئی، قتل کا الزام بعض حلقوں نے روز اول سے انہی کی جماعت پر عائد کیا۔۔۔ جس کی تفتیش کے دوران ہی متحدہ کے قائد الطاف حسین کے گھر سے بھاری مقدار میں نقدی برآمد ہوئی اور ان پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنا اور وہ گرفتار بھی ہوئے، پھر مئی 2013ء کے عام انتخابات میں کراچی سے تحریک انصاف کو آٹھ لاکھ ووٹ پڑنے کے بعد 'ایم کیو ایم' اندر سے ہل گئی اور 'نائن زیرو' پر کارکنوں کی جانب سے مصطفیٰ کمال، فاروق ستار، واسع جلیل اور دیگر مرکزی راہ نماؤں کے ساتھ مارپیٹ کے واقعے نے بڑھتی ہوئی داخلی کمزوری کی خبر دی، اسی واقعے کے بعد ہی مصطفیٰ کمال 'ایم کیو ایم' چھوڑ کر دبئی چلے گئے۔ یہ ایم کیو ایم کی موجودہ حالت کو پہنچانے والے بحران کا گویا ایک آغاز تھا۔

اس کے بعد نئی 'رابطہ کمیٹی' اور ذمہ داروں کے ردوبدل اور مختلف لوگوں کے اخراج کے ذریعے اس بحران پر قابو پانے کی کوشش کی گئی، لیکن اسی اثنا میں ایم کیو ایم کے کارکنان کے 'لاپتا' ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔ ساتھ ہی مختلف علاقوں میں قائم 'یونٹ' اور سیکٹر دفاتر اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے پڑنے لگے۔۔۔ بہت سے کارکنان پر مقدمات بنے تو بہت سوں کی لاشیں ملنے لگیں۔۔۔ 'ایم کیو ایم' اس پر وقتاً فوقتاً احتجاج کرتی۔۔۔ کچھ پرتشدد ہڑتالیں بھی ہوئیں اور مظاہرے بھی۔۔۔ پھر مارچ 2015ء میں 'نائن زیرو' پر چھاپہ پڑگیا اور مبینہ طور پر سنگین جرائم میں ملوث افراد گرفتار ہوئے۔۔۔

اسی اثنا میں عزیز آباد کی قومی اسمبلی کی نشست (اس وقت کے مطابق حلقہ 243) سے منتخب رکن نبیل گبول نے استعفا دے دیا، جس کے بعد تحریک انصاف کی انتخابی سرگرمیوں نے کراچی کا سیاسی ماحول گرما کر ایم کیو ایم کو اپنے گھر میں ہی پریشانی سے دوچار کر دیا، تاہم 23 اپریل 2015ء کو ایم کیو ایم نے تقریباً 70 ہزار ووٹوں کے فرق سے میدان مار لیا۔۔۔ لیکن یہ فتح 'متحدہ' کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکی، جولائی 2015ء میں بانی متحدہ الطاف حسین کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف سخت زبان کے استعمال کے بعد اگست 2015ء میں لاہور ہائی کورٹ نے 'بانی متحدہ' کے بیانات شایع اور نشر کرنے پر پابندی لگا دی اور سات ستمبر 2015ء کو 'پیمرا' نے بھی ٹی وی چینلوں کو ایسی ہدایات جاری کر کے اس فیصلے پر مہر ثبت کر دی، یوں الطاف حسین بیانات تو دیتے رہے، ٹیلی فونک خطاب بھی کرتے رہے، لیکن کسی اخبار یا ٹی وی چینل پر ان کا ایک لفظ بھی رسائی نہ پاتا۔ یہ رواں سلسلے کا ایم کیو ایم کا ایک دوسرا بڑا بحران تھا۔۔۔

اسی دوران عدالتی حکم پر 'بلدیاتی انتخابات' کا طبل بج چکا تھا۔۔۔کراچی میں 'متحدہ' کا مقابلہ کرنے کو 'جماعت اسلامی' اور 'پاکستان تحریک انصاف' نے مشہور زمانہ 'دو جماعتی اتحاد' کر لیا۔۔۔ جس کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید اب کی بار متحدہ انتخابی دنگل میں سرخرو نہ ہو سکے گی۔۔۔ لیکن دسمبر 2015ء میں انتخابی نتائج آئے، تو حسب سابق کراچی کا میدان 'ایم کیو ایم' کے ہاتھ ہی رہا، وہ بہ آسانی اپنا میئر لانے کی اکثریت لے آئی، لیکن عزیز آباد کے ضمنی انتخاب کی طرح یہ بڑی فتح بھی 'متحدہ' کی مشکلات کم نہ کر سکی۔۔۔

نام زَد میئر کراچی وسیم اختر پابند سلاسل ہوگئے اور میئر کا انتخاب التوا کا شکار ہو گیا۔۔۔ اور دوسری طرف قیادت کی جانب سے کارکنان کی گرفتاریوں، قتل اور لاپتا ہونے کی شکایات پر احتجاجی سلسلے بھی جاری رہے۔۔۔ اسی اثنا میں مارچ 2016ء کو ایم کیو ایم کے سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال اور سابق ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی دبئی سے کراچی آ کر 'بانی متحدہ' کے خلاف ایک زبردست محاذ لگالیا اور اپنی الگ جماعت 'پاک سرزمین پارٹی' کی داغ بیل ڈالی، جس میں پھر باری باری ایم کیو ایم کے مختلف راہ نما رضا ہارون، انیس ایڈووکیٹ، ڈاکٹر صغیر، وسیم آفتاب، بلقیس مختار اور دیگر شامل ہوتے چلے گئے۔ یہ 1992ء میں ایم کیو ایم (حقیقی) کے بعد دوسرا بڑا تنظیمی انحراف تھا، جس نے ایم کیوایم کے داخلی بحران کو تیسرے بڑے دھچکے سے دوچار کیا۔

اس کے بعد 'بانی متحدہ' کی سنگین بیماریوں اور غیرفعال ہونے کی پروزور افواہوں کا سلسلہ بھی چل نکلا، جو الطاف حسین کے منظر عام پر آنے کے بعد تھم گیا، لیکن کارکنوں کے قتل اور گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ 22 اگست 2016ء کو 'کراچی پریس کلب' پر جاری ایک احتجاجی کیمپ میں 'بانی متحدہ' نے ریاست مخالف نعرے لگا دیے، جس کے بعد 'متحدہ' کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع ہوگیا۔ 'ایم کیو ایم' کا مرکز 'نائن زیرو' سیل کر دیا گیا اور پوری قیادت گرفتار کر لی گئی۔

اگلے روز 23 اگست 2016ء کو رہائی کے بعد ایم کیو ایم کی 'رابطہ کمیٹی' نے ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں اپنے قائد تحریک الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چوں کہ ہماری تنظیم ایم کیو ایم 'پاکستان' ہے اس لیے اب اس کے فیصلے بھی لندن کے بہ جائے پاکستان میں ہی کیے جائیں گے۔۔۔ اپنی مضبوط قیادت سے علاحدگی اس بحران کا چوتھا بڑا مظہر تھا اور اس کے اگلے روز ہی 'بلدیہ عظمیٰ' کراچی کا اجلاس ہوا، جس میں وسیم اختر جیل سے میئر کراچی منتخب ہوئے اور پھر دوبارہ جیل بھیج دیے گئے، اس دوران شہر بھر میں قائم ایم کیو ایم کے 100 سے زائد دفاتر غیر قانونی قرار دے کر مسمار کیے گئے۔ پھر نومبر 2016ء میں وسیم اختر کو ضمانت ملی اور انھوں نے اپنا دفتر سنبھالا۔

اب 'ایم کیو ایم' کو تنظیم کی سطح پر 'پی ایس پی' کے ساتھ 'لندن' کے اقدامات کی بھی مدافعت کرنا تھی۔۔۔ کیوں کہ 23 اگست کو کراچی کی 'رابطہ کمیٹی' کی توثیق کرنے والے 'بانی متحدہ' نے کچھ دن بعد ہی اپنی الگ 'رابطہ کمیٹی' کا بھی اعلان کر دیا تھا، یوں ڈاکٹر حسن ظفر عارف، کنور خالد یونس، مومن خان مومن، ساتھی اسحق، امجد اللہ اور دیگر ارکان پر مشتمل یہ 'رابطہ کمیٹی' منظر عام پر موجود تھی۔ پھر نومبر 2016ء میں نادیدہ قوتوں نے 'ایم کیو ایم' پاکستان اور 'پاک سرزمین پارٹی' کو 'متحد' کرنے کی کوشش کی، جو بعد کے بیانات اور کارکنوں کی زبردست مزاحمت کے بعد پہلی مشترکہ پریس کانفرنس سے آگے ہی نہ بڑھ سکی۔۔۔



اس موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار کو اپنی تنظیم کے اندر مختلف راہ نماؤں کی شدید مخالفت بھی سہنا پڑی، جو بظاہر دور ہوگئی، لیکن یہ اختلافات کچھ دنوں بعد سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر کھل کر سامنے آگئے اور ڈاکٹر فاروق ستار ناراض ہو کر چلے گئے۔ 'رابطہ کمیٹی' انہیں مناتی رہی، لیکن بیل منڈھے نہ چڑھا، بالآخر وہ عدالت میں 'ایم کیو ایم' کی قیادت کی لڑائی ہار گئے، یوں قائد سے لاتعلقی کے بعد سال بھر میں ہی 'ایم کیو ایم' پھر قیادت کی 'تبدیلی' سے گزری، پھر عام انتخابات میں فاروق ستار واپس ایم کیو ایم میں آئے، لیکن جلد ہی راہیں دوبارہ جدا ہوگئیں اور اب ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی 'ایم کیو ایم' کے کنوینر ہیں۔

2018ء میں عام انتخابات میں بحران زدہ 'ایم کیو ایم' کراچی میں محض چار نشستیں جیتنے میں کام یاب ہوئی۔۔۔ اور کراچی میں جس تحریک انصاف پر اپنا مینڈیٹ چرانے کا الزام عائد کیا، اسی سے 'اتحاد' کرنے پر مجبور ہوئی۔۔۔ اور ساتھ ہی دو وفاقی وزارتیں بھی سنبھالیں، کہنے کو کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ایک معاہدہ بھی کیا، لیکن کسی ایک وعدے پر بھی عمل نہ ہونے کے باوجود وہ حکومت کا حصہ رہی۔۔۔ اس دوران سب سے عجیب وغریب صورت حال اس وقت پیدا ہوئی، جب 'متحدہ' نے جنوری 2020 ء میں تحریک انصاف کی حکومت سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔

تو ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے تو اپنی 'آئی ٹی' کی وزارت چھوڑ دی، لیکن تین بار استعفے دے دے کر 'وفاق' کے مقدمے لڑنے والے ایم کیو ایم کے سینٹیر، وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے وزارت چھوڑنے سے انکار کر دیا کہ انہیں تحریک انصاف نے وزارت دی ہے! پھر آسمان نے سراپا 'نظم وضبط' ایم کیو ایم میں 'حکم عدولی' کی یہ پراسرار واردات بھی ہوتے ہوئے دیکھی کہ جس کے جواب میں متحدہ کے 'عارضی مرکز' پر بھی 'سکون ہی سکون' رہا، کہاں تو قائد کی آدھی آواز پر گورنر سے وزیر اور کونسلر تک تمام منتخب اراکین اپنا استعفا لکھ مارتے تھے اور کہاں یہ عالم کہ ایک سینیٹر پوری ایم کیو ایم کو کھڑا منہ چڑا رہا ہے، اور کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس سے یہ کہہ سکے کہ اچھا اب یہ وزارت تمہیں ہی مبارک ہو، چلو ہماری تنظیم کی رکنیت تو واپس کرو۔۔۔! شاید اس ایک واقعے سے ہی 'ایم کیو ایم' کے دم خم اور کیفیت کا کماحقہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ وسیم اختر پر قائم 40 زیر التوا مقدمات جو کہ بقول وسیم اختر سارے میئر نام زَد ہونے کے بعد قائم ہوئے۔ یوں بھی کسی بھی منتخب رکن کی پشت پر اس کی پوری جماعت کا اعتماد اور قیادت کی جانب سے 'جواب دہی' کا ایک پورا سلسلہ ہونا ضروری ہوتا ہے، لیکن یہاں تو ان کے 'گھر' میں ہی روزانہ کے جھگڑے اور تنازعات جاری رہے۔ اس حوالے سے نائب امیر جماعت اسلامی کراچی مسلم پرویز نے بھی میئر کراچی کی کارکردگی میں بڑا دوش ان کے تنظیمی بحران کو قرار دیا تھا۔ جو تنظیم من مانی کرنے والے سینٹیر سے پلٹ کر پوچھنے کی سکت نہ رکھتی ہو اور وعدے پورے نہ ہونے کے باوجود اپنی ہی حریف جماعت سے اتحاد کرنے پر مجبور ہو، اس سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کا 'میئر' کچھ کر کے دکھا سکے گا یا وہ اپنے 'میئر' کی ناکامی پر کوئی بھی قدم اٹھانے کی ہمت رکھ سکے۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں