یورپی ممالک ترقی یافتہ کس طرح بنے…

یہ تمام خرابیاں سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہیں۔


Zuber Rehman September 03, 2020
[email protected]

ہمارے سیاستدان، صحافی، ادیب، کالم نگار اور عام شہری اکثر یہ کہتے ہیں کہ یورپی ممالک کو دیکھیں، انھوں نے عقل و دانش اور ایمانداری کی وجہ سے کتنی ترقی کرلی ہے۔ انھیں مہذب، معتبر اور تعلیم یافتہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے۔ اب آئیے! ترقی کے اس راز کو جانتے ہیں۔

پہلی صدی میں ناروے کے خانہ بدوش بحری قذاقوں نے بریٹون (موجودہ برطانیہ) پر حملہ کیا ، جب کہ اپنے مادر وطن کے دفاع کے لیے عظیم انقلابی خاتون رہنما ''بودیکا'' نے دو لا کھ 23ہزار خواتین کی فوج تشکیل دی اور حملہ آوروں سے مقابلہ کیا۔ ہر چند کہ اسے شکست ہوئی اور 80 ہزار خواتین فوجی ماری گئیں۔ بودیکا اور اس کے ساتھ گرفتار ہونے والی فوجی خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔

بعد ازاں اسی اسکینڈے نوین ممالک (جنہیں آج مہذب کہا جاتا ہے) نے یوکرائن اور روس پر حملہ کیا اور ان کے وسائل کو لوٹا۔ پرتگال نے برازیل پر اور اسپین نے کولمبس کی قیادت میں جنوبی اور شمالی امریکا پر دھاوا بولا۔ وہاں کے لاکھوں عوام کا قتل عام کیا۔ وہاں سے سونا، چاندی اور قیمتی وسائل کو لوٹا۔ ان کے مذہب، روایات، تہذیب اور زبان کو تبدیل کرکے انھیں ہسپانوی زبان بولنے اور کیتھولک بننے پر مجبور کیا، بعد ازاں فرانس اور امریکا نے باقی امریکا پر قبضہ کیا۔ کینیڈا تو قدیم باشندوں کا قبرستان کہلاتا ہے۔ آج بھی یہاں کی قدیم آبادی جنہیں ''فرسٹ سٹیزنز '' کہا جاتا ہے کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

ان کے مذہب، زبان اور تہذیب کو ان سے چھینا گیا۔ آج سے تیس سال قبل کینیڈا کے وزیر اعظم نے فرسٹ سٹیزنز سے معافی بھی مانگی مگر ان کے ساتھ برتاؤ ویسا ہی ہے۔ سگے بھائی، بہن اپنی آبائی زبان میں بات نہیں کرسکتے۔ انھیں جبراً گرجا گھروں میں رکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی بچہ وہاں سے بھاگ نکلے تو اسے دوبارہ پکڑ کر واپس لایا جاتا ہے اور سزائیں دی جاتی ہیں۔

برطانیہ نے 1493 سے 1878 تک نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا پر حملے کرکے وہاں کی قدیم آبادی کا قتل عام کیا۔ ماؤں کی گود سے بچے چھینے گئے اور ان کی زبان اور مذہب کو تبدیل کیا گیا۔ یورپ سے سفید فاموں کو لاکر آباد کیا گیا اور مقامی آبادی کو نیست ونابود کیا گیا۔ ابھی چند یوم قبل بی بی سی اردو کے پروگرام میں آسٹریلیا کے ان ہزاروں مقامی لوگوں کے بچوں کو لوہے کی باڑ کے اندر رکھا ہوا دکھایا گیا جنہیں اپنے خاندان سے الگ کردیا گیا ہے۔ اس کے خلاف قدیم باشندوں کو مظاہرہ کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔

اس دور جدید میں بھی کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت دیگر ایسے ممالک میں 30 ایسی قومیں ہیں جو ملکہ ایلیزبتھ کے ماتحت براہ راست برطانیہ کی نوآبادیاں ہیں۔ ان نوآبادیات میں قدیم باشندے محض ایک سے چار فیصد رہ گئے ہیں۔ غلامی کے حامی جنرلوں اور غلاموں کی تجارت کرنے والے تاجروں کے مجسمے آج بھی امریکا کی مختلف ریاستوں میں گھوڑوں پر سوار شکل میں نصب ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکا میں ایک سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہنگاموں کے دوران کولمبس سمیت ان ظالموں کے متعدد مجسمے گرا دیے گئے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی ، بھارت پر قبضے کے 40سال بعد لارڈ کلائیو کے حکم پر سات سمندری جہازوں میں بھر کر ہندوستان سے سونا،چاندی اور قیمتی جواہرات برطانیہ لے گئے۔ یہی صورتحال مشرق میں ترقی یافتہ جاپان کی بھی ہے۔ اس نے چین، سنگاپور، کوریا اور منچوریا پر قبضہ کیا اور یہاں سے ان قوموں کے بیش بہا قیمتی وسائل کو لوٹا اور عوام کا قتل عام بھی کیا، یوں یہ بھی ترقی یافتہ بن گئے۔ اسپین نے امریکا کے جزائر میں آباد کیرب قبیلے پر حملہ کیا اور ان کا صفایا کردیا۔ امریکی سرزمین پر افریقی غلاموں کو لاکر آباد کیا اور ان سے کاشتکاری کرائی گئی۔ اس لیے اس علاقے کے ساحل کو کیریبیا کہا جاتا ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔

اب تو ان ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ہی عوام کا استحصال شروع کردیا ہے، جس کے خلاف وہاں کے عوام احتجاج کر رہے ہیں۔ جیسا کہ فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک ، امریکی سیاہ فاموں کی تحریک اور اسرائیلی عوام کا احتجاج، گزشتہ دنوں بی بی سی اردو کے ایک پروگرام میں اسرائیلی عوام کو احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ وہ بے روزگاری کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ بتایا گیا کہ اسرائیل میں 21فیصد لوگ بے روزگار ہیں اور نوجوان بے روزگاروں کی تعداد 30فیصد ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ 70ہزار انسان صرف بھوک سے مر رہے ہیں۔ جب کہ امریکا کے 68جنگی بحری بیڑے سمندروں میں آپریشنل حالت میں موجود ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان نے برطانیہ سے تو آزادی حاصل کی اور بنگلہ دیش نے پاکستان سے آزادی لی لیکن آج دنیا کی چالیس فیصد غربت برصغیر پاک وہند میں ہے۔ آزادی کے حصول یا تقسیم کے دوران تقریباً 60لاکھ انسان مذہبی فسادات میں مارے گئے ۔ جب کہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھوک، افلاس، غربت، جہالت، لا علاجی، بے گھری، مہنگائی اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔ بنگلہ دیش گارمنٹس کی برآمدات میں پیش پیش ہے۔ ایشیا میں گارمنٹس کے شعبے میں کمبوڈیا میں 95فیصد اور بنگلہ دیش میں 90فیصد خواتین مزدور کام کرتی ہیں۔ اس وقت گارمنٹس فیکٹریوں کے مزدوروں کی بنگلہ دیش میں زیادہ سے زیادہ تنخواہ ساڑھے چھ ہزار ٹکا ہے کیونکہ اس سے کم سے اجرت کا قانون نہیں ہے۔

پاکستان میں حکومت نے کم سے کم اجرت ساڑھے سترہ ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا لیکن90فیصد مزدوروں کو پندرہ ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتیں۔ ڈھاکہ شہر میں پانچ لاکھ رکشہ، دو شفٹوں میں دس لاکھ رکشہ والے رکشہ چلاتے ہیں۔ یہ سائیکل رکشہ انسان چلاتے ہیں۔ یہ بمشکل روزانہ دو سے تین سو ٹکا کما لیتے ہیں۔ چائے کے باغات میں کام کرنے والی خواتین مزدوروں کی تنخواہ پانچ ہزار تا سات ہزار ٹکا سے زیادہ نہیں ہے۔

پان کے کھیتوں، ربڑ پلانٹ اور ناریل کے باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کی بھی یہی حالت ہے۔ راقم الحروف کو ورلڈ بینک کی 36منزلہ عمارت کے پاس ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا، وہاں ویٹر سے پوچھا تو اس نے اپنی تنخواہ چھ ہزار ٹکہ بتائی۔ یہ ہے بنگلہ دیش کے محنت کشوں کی ترقی کی رفتار۔

یہ تمام خرابیاں سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہیں۔ اس دنیا میں زیادہ رقومات اسلحے کی پیداوار اور خریداری پر پھونکی جاتی ہیں۔ جہاں اسلحہ ہوگا وہاں فاتحین اور خون خرابہ کرنے والے ہوںگے۔ فاتحین قتل کرتے ہیں، ریپ کرتے ہیں اور لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔