ہوائی فائرنگ ایک خطرناک رجحان

ہوائی فائرنگ کی اندھی گولیوں سے ہر سال درجنوں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں یا شدید زخمی ہوجاتے ہیں


ہوائی فائرنگ سے ہر سال درجنوں افراد زخمی یا ہلاک ہوجاتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

KARACHI: کیا آپ کو معلوم ہے کہ AK47 رائفل یعنی کلاشنکوف سے نکلنے والی گولی 1500 میل فی گھنٹہ (670 میٹر فی سیکنڈ) سے زیادہ کی رفتار سے سفر کرتی ہے، جو آواز کی رفتار سے دگنا ہے۔ صرف 8 گرام کی نکلنے والی گولی کی توانائی 30 منزلہ عمارت سے گرنے والی ایک اینٹ کی توانائی کے برابر ہوتی ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتنی جان لیوا ہے۔ جبکہ ہوائی فائرنگ بھی اسی انداز سے اتنی ہی مہلک ہوتی ہے، کیونکہ ہوا میں کیے گئے فائر کے نتیجے میں گولی ہوا میں تقریباً دس ہزار فٹ یا تین کلومیٹر اوپر کی جانب سفر کرتی ہے، اور واپس گرتے ہوئے کشش ثقل کی وجہ سے اس کی رفتار 241 کلومیٹر کے حساب سے نہایت تیز ہوتی ہے۔ اور زمین پر گرتے اس رفتار کی گولی کسی بھی فرد کو ہلاک یا زخمی کرنے کےلیے کافی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر سال اندھی گولیوں کی وجہ سے بھی بے شمار لوگ ہلاک یا زخمی ہوجاتے ہیں۔ جس میں نہ قاتل کو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کیوں قتل کیا اور نہ مقتول کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں قتل ہوا۔ پاکستانی معاشرہ افراط و تفریط کے مزاج پر مبنی ہے۔ اکثر لوگ شادی بیاہ اور مختلف تہواروں کے مواقع پر آپے سے باہر ہوکر ہوائی فائرنگ کرنے لگ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصان کا شدید خطرہ ہوتا ہے۔ اکثر اوقات ایسی ہوائی فائرنگ کی اندھی گولی کسی کو زخمی یا ہلاک کردیتی ہے۔

پاکستان میں خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں خوشی کے مواقعوں پر ہوائی فائرنگ کرنا ایک قدیم اور قابل فخر روایت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن AK47 یعنی کلاشنکوف کی ایجاد جو 1948 میں ہوئی تھی، اس سے قبل یہ روایات کیا تھیں اس پر کوئی بات کرنے کےلیے تیار نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ ان علاقوں میں لوگ عید کی آمد کا جشن اور استقبال بھی اسی ہتھیار کے استعمال سے کرتے ہیں۔ اس عمل کا واضح مقصد اپنے مخالفین پر دھاک جمانا، ہیبت بٹھانا اور اہل علاقہ کو اپنے اس طرز عمل سے خوفزدہ اور مرعوب کرنا ہوتا ہے۔ جو واضح طور پر بڑائی، گھمنڈ، غرور اور شیخی کی علامات ہیں۔

سورۃ الحدید کی آیت نمبر 23 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (اور جو تم کو اللہ نے بطور نعمت دیا ہو اس پر اترایا نہ کرو۔ اور خدا کسی اترانے والے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا)۔

فارسی کا ایک محاورہ ہے۔ (تکبر عزازیل را خوار کرد۔ بزندان لعنت گرفتار کرد) یعنی غرور نے شیطان کو ذلیل کیا اور لعنت کے طوق میں گرفتار کیا۔

صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق آپؐ نے فرمایا جس آدمی نے اپنے کسی بھائی کی طرف ہتھیار کے ساتھ اشارہ کیا تو فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اشارہ کرنا چھوڑ نہیں دیتا، اگرچہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہو۔ اسی طرح صحیح بخاری کی ایک حدیث جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی کی طرف اسلحہ کے ساتھ اشارہ نہ کرے، کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ سے اسلحہ چلوا دے اور پھر وہ دوزخ کے گڑھے میں جا گرے۔

بدقسمتی سے ہتھیار کی نمائش اور اس کا غیر ضروری استعمال پاکستانی معاشرے میں عام ہوتا جارہا ہے، جس کے جان لیوا نقصانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ لوگ چند لمحوں کی خوشی کی خاطر معصوم لوگوں کی اموات کا باعث بنتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل فیصل آباد میں فیصل نامی پولیس اہلکار کی شادی کے موقع پر ہوائی فائرنگ کی زد میں آکر فدا نامی نوجوان ہلاک ہوگیا تھا، جو اپنے گھر کا واحد کفیل اور پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ اسی طرح لاہور کے علاقے صدیقیہ کالونی میں شادی کی خوشی میں باراتی ہوائی فائرنگ کررہے تھے۔ اس دوران ایک گولی چھت پر کھڑی بائیس سالہ لڑکی ماریہ کو جالگی، جس نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ شیخوپورہ کے حوالے سے بھی رپورٹ ہوا تھا، جس میں مہندی کی تقریب میں شراب کے نشے میں دھت دلہا کے دوستوں کی فائرنگ کے نتیجے میں دلہا ہی کے عزیز و اقارب میں سے دو افراد اظہر اور عاطف موقع پر ہلاک ہوگئے تھے۔ واقعے کے بعد دلہا اور اس کے دوست موقع سے فرار ہوگئے۔

اکثر اسی قبیل کے حادثات میڈیا پر رپورٹ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی فائرنگ کا مقصد کیا ہے اور یہ عمل کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟ کیونکہ عام حالات میں تو اس طرح فائرنگ کرنا ممکن نہیں ہوتا تو ایسے تہواروں یا مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ اس عمل کا اجتماعی طور آغاز کردیتے ہیں۔ کیونکہ عام طور پر پولیس ایسے مواقع پر اس عمل کو نظر انداز کردیتی ہے اور بغیر کسی شکایت کے نوٹس لینے سے گریز کرتی ہے۔ رات کو جب جشن آزادی کا آغاز ہونے لگتا ہے یا شادی بیاہ کی تقریبات میں اپنی بندوقوں کا رخ فضا کی طرف کرکے پتہ نہیں کچھ لوگ کون سی مردانگی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ اور خیر سے کبھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کسی عام سے میچ میں بھی معجزانہ طور پر خلاف توقع کوئی کارنامہ سر انجام دے دے تو کیا آپ کی رائفل سے فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے کشمیر میں موجود انڈیا کی فوجیں تھر تھر کانپنے لگ جائیں گی؟

آخر فضول خرچی اور اس جان لیوا کھیل کی وجہ سے اپنی یا اپنے عزیزواقارب کی جان خطرے میں ڈالنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ عام حالات میں بجلی اور گیس کے بل دیکھ کر حکومت کو ملامت کرنے والے شادی بیاہ کے موقع پر قرضوں کے زور پر حاصل کی گئی رقم سے فلمی کردار جان ریمبو کی طرح جنگجو بن جاتے ہیں۔ کیا کسی کو معلوم نہیں کہ ہم دنیا میں واحد آزاد قوم ہیں۔ دنیا میں قوانین کی پابندی کرنے والی بے چاری ترقی یافتہ غلام قومیں آزادی کی اس نعمت کی قدر کیا جانیں۔ اس معاملے میں گھر کے بڑے بھی اپنی ذمے داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، جو خوشی کے نام پر اپنی اولاد کو کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ ایسے کسی عمل کی ہرگز اجازت نہ دیں۔ اور خود نوجوانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایسے کسی عمل کے نتیجے میں پیش آنے والے حادثے کے بعد آنے والی پریشانیوں پر بعد میں پچھتاوے سے بہتر ہے کہ پہلے ہی اس عمل سے باز رہا جائے۔ اسلام میں تو جہاد کے دوران بھی دشمن کی عورتوں، بچوں اور بزرگوں کے قتل کی ممانعت ہے تو مسلمانوں کو خوشی کے نام پر کسی کی جان لینے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے؟

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں ہوائی فائرنگ براہ راست کسی قانون کے تحت جرم نہیں ہے۔ پولیس اس سلسلے میں پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن ایچ 337 کے سب سیکشن 2 (جس کے مطابق ایسا غیر ذمے دارانہ فعل جو کسی کی جان لینے کا باعث بنے) کے تحت کارروائی کرتی ہے، جس کی سزا صرف 3 ماہ قید و جرمانہ ہے۔ جس میں ملزم پر ہوائی فائرنگ نہیں بلکہ غیر ذمے دارانہ فعل کی شق عائد ہوتی ہے۔ پاکستان میں حکومت و پارلیمان کو چاہیے کہ نئی قانون سازی کرتے ہوئے ایسا عمل دہشت گردی کی دفعات کے تحت جرم قرار دیا جائے۔ کاش ہم حقیقی شعور سے بہرہ مند اخلاقیات کی حامل قوم بن سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں