الطاف حسین کو فون پر ایم کیو ایم کے قیام کی خبر دی گئی منحرف رہنما رضا ہارون

مائنس ون فارمولا غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ہے، 92ء آپریشن کی وجہ سے ایم اے کے امتحانات نہیں دے سکا تھا، رضا ہارون


Rizwan Tahir Mubeen May 18, 2017
نوجوانوں کو سیاست کے بجائے اپنے کیریئر پر توجہ دینی چاہیئے، ( رضا ہارون) فوٹو : فائل

لاہور:






شہر قائد کی مرکزی سڑک شاہ راہِ فیصل، جب ٹیپو سلطان روڈ سے ملتے ہوئے آگے بڑھتی ہے، تو اِس نگر کی ایک منفرد بستی "پاکستان ایمپلائز کو آپریٹو ہاﺅسنگ سوسائٹی" المعروف 'پی ای سی ایچ ایس' میں داخل ہو جاتی ہے، اور اس کا یہ 'ملن' نرسری اسٹاپ تک برقرار رہتا ہے بس اس سے ذرا پہلے ذیلی سڑک سے بائیں جانب مڑ یے تو سڑک پر دوڑتی ہزاروں گاڑیوں کا ازدحام اور شور دھیرے دھیرے پَس پا ہونے لگتا ہے، جوں جوں آگے بڑھیں، توں توں فضا میں سرسراتے ہوئے پیڑوں کی سرگوشیاں اور پرندوں کی چہچاہٹ غلبہ پانے لگتی ہے، بس اُس روز ہماری منزل مقصود یہیں تھی کچھ زینے پار کرنے کے بعد ہم اپنے مہمان رضا ہارون کے 'مہمان' تھے۔


ایک سادہ اور چھوٹی سی بیٹھک میں دیوار پر ٹنگا ہوا ٹی وی رواں تھا، جس کے نیچے ایک میز آراستہ تھی دیوار پر آوایزاں بطور وزیر ایوارڈ اور شیلڈ لیتے ہوئے لگی دو تصاویر یہ بتا رہی تھیں، کہ یہاں کا مکین ماضی سے منحرف ہونے کے باوجود بیتے ہوئے لمحات کو اب بھی کسی نہ کسی حیثیت میں عزیز ضرور رکھتا ہے۔


رضا ہارون 1965 کو کراچی میں پیدا ہوئے، آٹھ بہن بھائیوں میں اُن کا نمبر آخر سے تیسرا ہے، گلستان شاہ عبداللطیف اسکول کے طالب علم رہے، گورنمنٹ نیشنل کالج سے انٹر کے بعد جامعہ کراچی سے کامرس اور کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کیا۔ 1987 کے بلدیاتی انتخابات سے پہلے ایم کیو ایم سے وابستگی ہوئی۔ اس سے پہلے تین چار سال محلے کی سطح پر جماعت اسلامی کے لیے سرگرم رہے، 'الخدمت' کے لیے قربانی کی کھالیں جمع کیں اور انتخابی کیمپوں پر کام کیا۔


وہ کہتے ہیں یہاں جماعت اسلامی کا بڑا اثر رسوخ تھا، ہمارے بڑے بھی اِن سے قریب تھے، 1987ءکے بلدیاتی چناﺅ میں جب شہر بھر میں ایم کیوایم کو کام یابی ملی، تب بھی یہاں جماعت اسلامی کا کونسلر منتخب ہوا تھا۔


1988ءتا1991ءاپنے آبائی محلے 'پی ای سی ایچ ایس' میں ایم کیو ایم کے 'یونٹ انچارج' رہے۔ ہم نے پوچھا 'کیسے یونٹ انچارج تھے؟' تو کہنے لگے کہ اہل محلہ سے پوچھیے، وہ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ہمارے چوں کہ جماعت اسلامی سے پرانے تعلقات اور دوستیاں تھیں، اس لیے کبھی کوئی تلخی نہیں ہوئی، اس سیاسی ہم آہنگی کو وہ خوش قسمتی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بیتے دنوں کا اِعادہ یوں کرتے ہیں کہ سوسائٹی کے کمیونٹی سینٹر میں ایم کیو ایم کا 'یونٹ' ہوتا تھا، جہاں غالباً 1992ءسے رینجرز موجود ہے۔ 'پنجابی پختون اتحاد' کے چیئرمین غلام سرور اعوان کا دفتر 'پی ای سی ایچ ایس کالج میں تھا، جب کہ چنیسر ہالٹ کے عقب میں کا گھر تھا، یہ دونوں انہی کے 'یونٹ' میں تھے۔


1992ءمیں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا تو وہ 'سوسائٹی سیکٹر' کے رکن تھے، انہیں بھی روپوش ہونا پڑا نتیجتاً وہ ایم اے (سیاسیات) فائنل کے امتحانات بھی نہ دے سکے۔ روپوشی کے دوران شہر کے جن لوگوں کے گھروں میں رہے، نام لے کر ان کے لیے مشکلات کھڑی نہیں کرنا چاہتے۔ سیاست میں تشدد سے بچنے کے سوال پر انہوں نے کہا اس کا انحصار ذمے داران پرہے کہ وہ اپنی ذہانت اور خوش اخلاقی سے اس طرح چلیں کہ اس کی نوبت نہ آئے۔


رضا ہارون کا ماننا ہے کہ آپ جبر سے کسی کو محبت کرنا سکھا ہی نہیں سکتے۔ میں آج بھی یہیں رہتا ہوں، اور جب وزیر بنا تھا، تب بھی اسی طرح یہیں نیچے بیٹھتا تھا۔ 12 مئی 2007ءکے خونیں تصادم کو وہ افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'جو ماحول کراچی اور اسلام آباد میں پیدا کیا گیا، وہ اگر نہ ہوتا تو قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا، جو بھی اس ماحول کا حصہ تھا، وہ اس واقعے کا ذمے دار ہے۔'


رضا ہارون کے والد محمد ہارون بٹوارے سے پہلے 1945ءمیں کراچی آگئے، 'پاکستان چوک' میں رہائش رہی اور 'یونیورسل ایئر چارٹر' کے نام سے ایک ٹریولنگ ایجنسی قائم کی، ہم نے کہا 'یعنی آپ مہاجر نہیں ہیں؟' تو بولے کہ دراصل مہاجر کی ایک تعریف ہے، جس میں ہم سب فٹ آجاتے ہیں۔ رضا ہارون 1986 ءسے آئی ٹی کے شعبے سے منسلک ہیں، ملازمت کے علاوہ کمپیوٹر کی خریدوفروخت کا کام بھی کیا۔ حالات ناساز ہوئے، تو تین چار سال کچھ کام نہیں رہا، 1994ءمیں ایک آئی ٹی پروجیکٹ پر لندن چلے گئے، ساتھ ہی وہاں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن اور ایم کیو ایم کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کے جوائنٹ انچارج کے طور پر ذمہ داریاں ادا کیں۔


ہم نے پوچھا کہ 'یہاں اور وہاں مرکز میں بیٹھنے میں کیا فرق ہے؟' تو انہوں نے بتایا کہ 'یہاں مقامی جلسے جلوس وغیرہ کی سیاست ہے، جب کہ وہاں ایم کیوایم کی جانب سے بہ ذریعہ خط وکتابت بین الاقوامی سطح پر یہاں ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کرتے تھے۔'


ابتدائی سیاسی سفر کے سوال پر انہوں نے کچھ تامل کا مظاہرہ کیا کہ 'اب اِسے چھوڑیے' لیکن اس کے بنا چارہ کہاں تھا، ہمارے اصرار پر انہوں نے گفتگو شروع کی۔ اوائل کی ایم کیو ایم کو بالکل درست قرار دیا، بلکہ ان کے آج کے نظریے کو بھی درست کہا۔ سندھ میں کوٹا سسٹم اور شہری علاقوں سے ناانصافیوں، ڈھاکا میں پھنسے ہوئے محصورین مشرقی پاکستان کی واپسی، ملک سے وڈیرانہ نظام کا خاتمہ، متوسط طبقے اور غریبوں کی حکم رانی وغیرہ پر ایم کیو ایم کے خیال وفکرکو صحیح تسلیم کیا، یہی نہیں انہوں نے سانحہ سہراب گوٹھ و سانحہ، قصبہ علی گڑھ 1986، سانحہ حیدرآباد 1988، سانحہ پکا قلعہ 1990سمیت شہری علاقوں کی شکایات پر ایم کیو ایم کے موقف کو درست قرار دیا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ بعد میں قیادت بگڑ گئی، ہم نوجوان تھے، اُس عمر میں تعلق منطق سے زیادہ جذباتی ہوتا ہے، تجربات کے بعد ہی چیزیں زیادہ سمجھ میں آتی ہیں، اور ہم بہتر طریقے سے اپنے مسائل اور مستقبل کے حوالے سے سوچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم کے ساتھ اُس وقت نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہوئی۔ نوجوانی میں انسان ساری پریشانیاں جھیل لیتا ہے، اسے عقل نہیں ہوتی، چالیس سال کی عمر کے بعد وہ بیٹھ کر سوچتا ہے کہ میں آدھی زندگی گزار چکا ہوں، اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔


رضا ہارون کہتے ہیں کہ 1988 سے 1998ءمیں کراچی اور حیدرآباد میں بہت سے حادثات وواقعات رونما ہوئے۔ جیسے پنجابی پختون اتحاد (پی پی آئی) بنایا گیا، مختلف علاقوں کو متاثر رکھنے کے لیے لسانی مسائل سے دوچار رکھا گیا، بہت سے عمل اور ردعمل ہوئے۔ اس سیاست کے بعد اگر عقل پکڑتے، تو ایم کیوایم بہت آگے جا سکتی تھی، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ الطاف حسین کبھی پاکستان سے مخلص تھے اور نہ مہاجروں سے۔


رضا ہارون کا دعویٰ ہے کہ وہ 14 سال لندن میں رہے، اس لیے اُن سے زیادہ الطاف حسین کو اور کوئی نہیں جانتا، کہتے ہیں کہ پاکستان میں الطاف حسین کی سیاست فقط چھے سال ہے، یہ اُن کے وفاداروں کی کام یابی ہے کہ انہوں نے سارے نظام کو سنبھال کے رکھا، اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ مینجر اچھے تھے۔


رضا ہارون کے خیال میں ایم کیو ایم کے لندن اور کراچی کے راہ نماﺅں کو زمینی حقائق کا نہیں پتا، کراچی اب 1980ءکی دہائی والا ہے، نہ لوگوں کے مسائل۔ جیسے پہلے نوجوانوں کو جامعات میں داخلوں کے مسائل تھے، آج بہت سی نجی جامعات موجود ہیں، وہ یہاں داخلے لیتے ہیں اور کوئی جز وقتی کام کر کے اپنے تعلیمی اخراجات بھی پورے کرلیتے ہیں۔

'کیا لندن میں رہتے ہوئے کبھی 'را' سے مبینہ تعلقات کی کوئی بِھنک نہیں پڑی؟' اس کی نفی کرتے ہوئے رضا ہارون کہتے ہیں کہ اخبارات میں تو یہ باتیں بہت کی جاتی تھیں، لیکن بین الاقوامی سطح پر سامنے نہیں آئی تھی۔ بی بی سی کی رپورٹ، طارق میر کا بیان، سرفراز مرچنٹ کا اعتراف اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی دستاویزات نے انہیں سوچنے پر مجبور کیا۔


2012ءمیں انہیں اِن تمام باتوں کا یقین ہوگیا، ہم نے پوچھا کہ پھر اس کے بعد تک کیوں ساتھ رہے؟ تو کہنے لگے کہ '28 سال کی رفاقت توڑنا آسان نہیں ہوتا۔'


رضا ہارون کے بقول 'اس کے بعد انہیں سمجھ میں آیا کہ الطاف حسین کے زیر اثر علاقے پس ماندہ ترین کیوں ہیں، کیوں کہ الطاف حسین قوم کی ترقی وخوش حالی نہیں چاہتے تھے کہ اگر لوگ ترقی کر گئے، تو پھر ان کو سمجھ جائیں گے۔ وہ آج 32 سال بعد بھی وہی محرومیوں اور شکایات کی سیاست کر رہے ہیں، یہ تو بتائیں، اگر آپ کو نہیں ملا، تو آپ نے خود کیا کیا؟


رضا ہارون کا خیال ہے کہ مہاجروں کو سوچنا چاہیے کہ 32 سال سے آپ جس پر اعتماد کرتے آئے ہیں، اس نے کچھ نہیں دیا، تو ایسے لوگوں کو منتخب کریں، جو صفائی ستھرائی، فراہمی ونکاسی آب، بہتر تعلیمی، طبی اور تفریحی سہولیات مہیا کر سکیں۔ تین عشروں میں کراچی کو کہاں سے کہاں ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ آج تک اپنے کچرے کو رو رہا ہے۔ یہاں بسوں کا نظام اور سڑکیں تک درست نہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو چھوڑیے کیا کونسلر بننے کے لیے اپنے علاقے سے کسی شریف آدمی کو آگے نہیں لاسکتے، تو پھر صورت حال کو بھگتیے۔


رضا ہارون کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا یوم تاسیس 18 نہیں، بلکہ 17 مارچ ہے، اس کی خبر 18 مارچ کے اخبارات میں شایع ہوئی، اس لیے یہ غلط فہمی پھیل گئی کہ یوم تاسیس 18 مارچ ہے۔ 1981ءسے 1985ء الطاف حسین امریکا میں رہے، جب کہ ایم کیو ایم کا قیام عظیم احمد طارق، طارق جاوید، سلیم شہزاد اور عمران فاروق وغیرہ کی سرکردی میں عمل میں آیا۔ انہوں نے فون پر الطاف حسین کو، جو اس وقت 'اے پی ایم ایس او' کے چیئرمین تھے، بتایا کہ ہم نے اس طرح تنظیم قائم کی ہے۔


الطاف حسین 1985ءمیں آئے اور پھر 1992ءمیں واپس چلے گئے، یعنی ان کی سیاست یہاں صرف چھے برس تک محدود ہے۔ پھر جب 26 جولائی 1997ءمیں 'مہاجر قومی موومنٹ' کو 'متحدہ قومی موومنٹ' بنادیا گیا، تو وہ تب بھی یہاں نہ تھے، اب عامر خان واپس آگئے تو یہ پھر عملاً 'مہاجر قومی موومنٹ' بن گئی ہے، وہ اب بھی یہاں نہیں ہیں۔


'مصطفیٰ کمال واپس نہ آتے تو کیا کرتے؟' اس کے جواب میں رضا ہارون کہتے ہیں کہ مصطفیٰ کمال سے 2013ءتا 2016ءکوئی رابطہ نہیں رہا، البتہ انیس قائم خانی سے باقاعدہ رابطہ تھا اور ہم دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے کہ اتنا اچھا وژن تھا، مگر ایک شخص نے پوری قوم کو تباہ کر دیا، یہ خیال آتا کہ ہمارے پاس بھی تجربہ ہے، ہمیں عوام نے اتنی عزت دی ہے، ہم بھی واپس جاکر کچھ کریں۔


واپسی کے مجوزہ لائحہ عمل کے حوالے سے رضا ہارون نے بتایا کہ 'ہمارے پاس دو راستے تھے، ایک راستہ یہ تھا کہ ایم کیو ایم میں واپس جا کر اسے اندر سے ٹھیک کیا جائے، کوئی انقلاب لایا جائے اور بانی متحدہ کو کسی طرح سے آرام کا مشورہ دیا جائے، کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ وہ کس قسم کے بیانات اور تقاریر کرتے رہے ہیں۔ جسے سن کر بچے ہم سے پوچھتے تھے کہ "آپ ان کے ساتھ ہوتے تھے؟" ہم سوچتے تھے کہ ایسی باتوں سے ایک مہاجر شرمندہ ہوتا ہے، اسے ٹھیک کیا جائے۔


اس حوالے سے کہتے ہیں کہ 'پھر خیال آیا کہ ایم کیو ایم تو الطاف صاحب کی ہے، ایم کیو ایم میں رہ کر ایسا کرنا اخلاقی طور پر غلط ہے۔ یہ مائنس الطاف والا فارمولا ہمارا نہیں ہے کہ آپ جس کی جماعت میں جائیں، اسی کو آرام پر بھیج دیں۔ یہ کسی طور مناسب یا ممکن نہیں، یہ غیر جمہوری اور غیر اخلاقی فعل ہے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ کسی اور جماعت میں شامل ہوں، جیسے 'تحریک انصاف' مگر ہم عمران خان کے ساتھ نہیں چل سکتے تھے، ان کے اور ہمارے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس لیے پھر ہم نے اس خیال کو بھی مسترد کر دیا اس کے بعد ہم نے یہ سوچا کہ کون سی بات ہے، جو ہمیں اپنی ایک علیحدہ جماعت بنانے سے روکتی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ ہم الطاف حسین کا نام ہی لے کر چلیں۔ تین مارچ 2016ءکو اچانک ہم نے دیکھا کہ یہ لوگ آگئے ہیں، تو پھر ہمارا تو کام تھا کہ ان کی حمایت کی جائے۔'


رضا ہارون کا خیال ہے کہ کراچی کا بڑا مسئلہ الطاف حسین، ایم کیو ایم اور فاروق ستار ہیں۔ تمام سیاسی راہ نما کسی نہ کسی لسانی گروہ یا صوبے تک محدود ہیں۔ قومی راہ نما وہ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی بھی شہر میں کھڑا ہو تو لوگ اس کے لیے نکلیں۔ کہتے ہیں "بڑا بول نہیں بولتا، لیکن اس وقت مصطفیٰ کمال جیسا قومی راہ نما دکھائی نہیں دیتا، جس نے مختلف لسانی اِکائیوں کو ایک کر دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ میں وہ مختلف لسانی گروہوں کی یک جائی کو 'ڈراما' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وفاق کی جماعت صرف پیپلزپارٹی تھی، جو اب سندھیوں کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔


رضا ہارون کو فرصت کے لمحات میسر ہوں تو ٹی وی اورانگریزی فلمیں دیکھتے ہیں۔ اینیمٹڈ فلمیں زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہیں۔ ہلکے پھلکے ملبوسات پسند ہیں، کم لمبان کا کرتا اور ٹراﺅزر یا شلوار قمیص میں پرسکون ہوتے ہیں، میٹنگ میں سوٹ پہنتے ہیں۔ کھانے میں گرما گرم تازی روٹی کے ساتھ بھنی ہوئی دال مل جائے، تو اس سے اچھی اور کوئی چیز نہیں، کہتے ہیں کہ اچھی دال ہر کوئی نہیں پکا سکتا۔ اس کے علاوہ دال چاول، بکرے کے گوشت کا قیمہ بھی بہت مرغوب ہے۔ پتلی دال وہ چاول کے ساتھ پسند کرتے ہیں کہ 'اس کا جوڑ روٹی نہیں۔' زندگی کی بڑی خوشی اولاد ہے اور دکھ کے تو بہت سے لمحے ہیں، غلطیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ 'اتنی ہوتی ہیں کہ اللہ معاف فرمائے۔' رنگ گہرا نیلا اور موسم معتدل من کو بھاتا ہے، کراچی جیسا اور کوئی شہر نہیں پایا۔


رضا ہارون کہتے ہیں کہ ہم اپنے حالات خود طے کرتے ہیں۔ گھر کے اندر ہی نہیں باہر کے ماحول کا تعین بھی ہمارے ہاتھ میں ہے، برے حالات کو قسمت کی بربادی سمجھنا غلط ہے۔ اپنا مقدر ہم خود بھی بناتے ہیں۔ انگشت نمائی کریں گے، تو چار انگلیاں ہماری طرف ہوں گی۔ اپنا کل تبدیل کرنا ہے تو آج تبدیل کریں، سوچنے کا انداز اور سیاسی فکر کو بدلیں۔


چوکھٹے


"والدہ خوش ہوئیں، کہ چلو خود ہی لڑکی ڈھونڈ لی"


رضا ہارون 2001ءمیں لندن میں ہی رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے، جس کے بعد نجی مصروفیات بڑھیں اور ایم کیو ایم کے لندن سیکریٹریٹ میں سرگرمیاں محدود ہوئیں۔


2008ءمیں وطن واپسی سے قبل وہاں کی مقامی حکومت کے محکمے میں کام کرتے رہے، یہاں عام انتخابات میں حصہ لیا، رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور پانچ برس صوبائی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی رہے، کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی چناﺅ لڑا نہیں، لیکن سارے انتخابات لڑوائے ضرور تھے۔ 2013ء میں واپس لندن چلے گئے اور مارچ 2016ء میں واپس آئے اور 'پاک سرزمین پارٹی' میں شامل ہوگئے، جس کے اب جنرل سیکریٹری ہیں اور 'آئی ٹی کنسلٹنسی' بھی کر رہے ہیں، بیوی بچے لندن میں ہی ہیں، شادی پسند کی ہے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔


شادی کے سوال پر انہوں نے کہا جس عمر میں شادی کی، اس میں ارینج شادی نہیں ہوتی۔ اُن کی والدہ بہت خوش ہوئی تھیں کہ چلو اس نے خود ہی کوئی لڑکی ڈھونڈ لی۔ پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کے فیصلے کو شریک حیات بشریٰ کی پوری حمایت حاصل ہے۔ شادی سے پہلے دو تین سال بشریٰ سے جان پہچان رہی، شریک حیات کی مدد کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ سسرال کینیڈا میں رہتا ہے۔ رضا ہارون نے ذاتی زندگی کے بہت سے سوالات نجی قرار دے کر روک دیے اور بہت سی باتوں کو 'آف دی ریکارڈ' کا قیدی بنالیا۔


فیس بک پر میرا کوئی اکاﺅنٹ نہیں!


2015ءمیں اسلام آباد میں مصطفیٰ کمال کی آمد اور ایم کیو ایم سے انحراف کی افواہیں گردش کرنے لگیں، توفیس بک پر مبینہ طور پر رضا ہارون کی جانب سے اس پرنکتہ چینی سامنے آئی تھی، جب ہم نے اس بابت استفسار کیا، تو رضا ہارون نے بتایا کہ فیس بک پر کوئی اکاﺅنٹ یا صفحہ اُن کا نہیں، اس کے علاوہ بھی فیس بک پر ان کے نام سے بہت سی باتیں کی گئیں، انہوں نے اپنے 'ٹوئٹر' سے اس کی تردید کی، آج بھی وہ فیس بک پر موجود نہیں، صرف 'ٹوئٹر' استعمال کرتے ہیں۔


نوجوان سیاست نہ کریں


رضا ہارون نوجوانوں کے سیاست میں آنے کے مخالف ہیں، کہتے ہیں کہ 'طلبہ پہلے اپنا کیرئر بنائیں۔' ہم نے پوچھا کہ پاک سرزمین پارٹی میں تو 'طلبہ ونگ' بنایا گیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ "یہ طلبہ کے اصرار پر بنایا گیا، لیکن انہیں ہدایت ہے کہ وہ صرف اپنے تعلیمی اداروں کے مسائل تک محدود رہیں گے، ہماری جماعت کی سیاست نہیں کریں گے۔" ہم نے طلبہ یونین کی دُہائی دی کہ ماضی میں ہمارے متوسط طبقے کے بہت سے سیاست دان یہیں پروان چڑھ کر آگے آئے، تو انہوں نے معنی خیز انداز میں کہا کہ 'ارے ہمیں معلوم ہیں کہ یہ طلبہ راہ نما کیا کرتے تھے اور جامعہ کراچی میں اسلحہ کون لایا اور تھنڈر اسکواڈ کس کے تھے۔"


رضا ہارون صرف ایسی طلبہ یونین کے حق میں ہیں، جس کا چناﺅ سیاسی جماعتوں کے تشخص کے بغیر بہ ذریعہ پینل ہو اور وہ صرف اپنے مسائل اور حقوق کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک کالج یا یونی ورسٹی کا کوئی مسئلہ ہے تو طلبہ اپنے گروپ کی مدد کے لیے دوسرے تعلیمی اداروں میں جا رہے ہیں۔


"انحراف کرنے والے وفادار بنے ہوئے ہیں"


رضا ہارون کہتے ہیں کہ آج ایم کیو ایم کی قیادت کرنے والوں کی تاریخ پارٹی سے انحراف پر مبنی ہے۔ 1999ءمیں ندیم نصرت نے لندن میں منحرفین کا ایک گروہ بنایا، جس میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور ڈاکٹر عشرت العباد بھی شامل ہوئے، پریس کانفرنسیں کی گئیں کہ الطاف حسین مہاجروں کامقدمہ صحیح سے نہیں لڑ رہے وغیرہ۔ ایک ڈیڑھ سال بعد معافی تلافی کے بعد واپس آئے اور 2000ءمیں دوبارہ ندیم نصرت کو خارج کیا گیا اور پھر 2012ءمیں واپسی ہوئی۔


فاروق ستار کے حوالے سے رضا ہارون کہتے ہیں کہ 1992ءمیں حاجی شفیق الرحمن کا ایک گروپ بنا، جس میں عظیم احمد طارق، خالد مقبول صدیقی اور عشرت العباد کے علاوہ فاروق ستار بھی شامل ہوئے، اب 22 اگست 2016ءکے بعد انہوں نے پھر الطاف حسین کو چھوڑ دیا۔


عامر خان 1985ءمیں ایم کیوایم میں آئے، جنوری، فروری 1991ءمیں 'حقیقی' کا مسئلہ پیدا ہوگیا، پھر 2011ءمیں واپس ہوئے، یعنی چھے سال کے ساتھ اور 22 سال انحراف کا تجربہ۔ آج یہ راہ نما بنے ہوئے ہیں اور ہر کٹھن وقت میں ساتھ رہنے والے انیس قائم خانی اور انیس ایڈووکیٹ غدار ہو گئے۔








 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں