اُس دن شہر قائد کی گرمی کا یہ عالَم تھا کہ سہہ پہر بھی لُو کے لپکے یہ احساس دلاتے کہ کسی سڑک پر نہیں بلکہ کسی دہکتے ہوئے تنور میں محو سفر ہیں ورنہ تو یہاں دن پر سورج کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی ساحل پہ ڈولتی نرم ولطیف صبا شہر میں دور تک پھیلتی چلی جاتی ہےاوردھوپ کی تمازت سے جھلسے پیڑ پودے جھوم جھوم کر اِسے خوش آمدید کہتے ہیں اور دھیرے دھیرے تپش زدہ دھرتی کے سینے میں بھی طمانیت بھری ٹھنڈک اترنے لگتی ہے اِسے عمومی طور پر کراچی کی شام سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب گرمی سے گھبرائے باسی سکھ کا سانس لیتے، لیکن اس دن گرما اس کے برعکس تھا۔ یہ نشست سینئر صحافی اعجاز منگی کے نام تھی، سو کچھ سفر کے بعد ہم اُن کے روبرو بیٹھے تھے۔
اعجاز منگی نے 1965 میں آنکھ کھولی، وسطی ایشیا سے بیوپار کی زمینی گزر گاہ شکار پور ان کی جنم بھومی، کوئٹہ سے اونٹوں کے قافلے ٹھیرا کرتے۔ حال کے روزن سے ماضی پر نگاہ ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اُن کا مزاج مجلسی نہ تھا، تب ہی کتب بینی کی طرف کھنچے، جہاں ایک الگ ہی دنیا کو پایا، جو کتاب میسر ہوتی، پڑھ ڈالتے۔ نصابی سے زیادہ غیر نصابی کتب میں دل چسپی تھی۔ گھر کے قریب واقع جگن ناتھ لائبریری تھی، جو بند رہتی، اس کے ہم محلہ چوکی دار سے راہ ورسم ہوئی اور ذخیرہ کتب تک رسائی پالی، اب ساری فرصت اسی کی نذر ہوتی، وہیں کتابیں پڑھتے پڑھتے کبھی آنکھ لگ جاتی۔
روسی ادب اور رابندر ناتھ ٹیگور کی تصانیف کے سندھی تراجم ملے، ہندی شاعر کالی داس کو پڑھا۔ سندھی کتب سے بھری ہوئی دو الماریاں پڑھ لیں، تو اردو کتب کی طرف متوجہ ہوئے اردو سمجھنے میں دقت ہوئی، تو اپنے جیب خرچ سے ڈھائی روپے میں فیروزالغات خریدی، جو زندگی میں خریدی جانے والی پہلی کتاب تھی، اس کی مدد سے اردو پڑھی۔
اردو کتب سندھی سے زیادہ معیاری اور اچھی لگیں، وہ اس کی وجہ اردو کی وسعت کو خیال کرتے ہیں، جب یہ پوچھا کہ سندھی تو اردو سے زیادہ قدیم زبان ہے، تو اُن کا کہنا تھا کہ دراصل اردو خطے کی ساری زبانوں کا سنگم ہے، ورنہ مادری زبان کا کوئی مقابلہ نہیں۔
اردو میںکرشن چندر، سعادت منٹو اور مہندر سنگھ بیدی کے اسیر ہوئے، پھر بنگالی ادب کی طرف متوجہ ہوئے اور روسی ادب کا بھی اعادہ کیا۔ شیخ ایاز کو پڑھا، تو یوں لگا کہ کوئی خزانہ ملگیا ہو، نظم ونثر میں ان کی قابلیت اور علم نے متاثر کیا۔ شیخ ایاز کی قیمتی صحبت میسر رہی۔
کہتے ہیں پھر "پڑھنے کی بیماری" نے بہت زیادہ شدت اختیار کرلی۔ اس دوران احساس ہوا کہ کتابیں پڑھنے سے زیادہ اچھا اس پر عمل کرنا ہے، پھر شکار پور میں کمیونسٹ پارٹی کا سراغ ملا، یوں 1983-84ءسے کارزار سیاست میں سرگرم ہوئے ترقی پسند دانش وَروں کے ساتھ دن، رات بیٹھکیں رہنے لگیں، یہ محسوس کیا کہ سماجی انقلاب کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ 1984-85 میں پہلی بار شکار پور سے باہر نکلے، اور جامعہ کراچی کے شعبہ ¿ فلسفہ میں داخلہ لیا۔ جہاں جی ایم سید کی بیٹی ڈاکٹر درشہوار کے شاگرد ہوئے۔
کہتے ہیںکہ اُن سے گرما گرم بحث رہتی، کیوں کہ ترقی پسند مذہب پسندوں سے بھی زیادہ قوم پرستوں کے مخالف تھے، ہم ظالم اور مظلوم کے سوا کسی بھی تقسیم کو ثانوی سمجھتے۔ جامعہ کراچی میں بے حد سرگرم وقت گزرا۔ ترقی پسند طلبہ وطالبات دن رات ساتھ رہتے، لیکن کبھی کوئی اسکینڈل نہیں بنا۔ افریقا اور لاطینی امریکا کی تحاریک اور سرد جنگ وغیرہ کے موضوعات باہر سے آنے والی کتب میں تھے، سو انگریزی کتب کی طرف رغبت بڑھی کہ یہاں ضیا دور کی بدترین سنسرشپ تھی۔
دوسری طرف جامعہ کراچی میں دوران تعلیم جامشورو کی ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگئے، ان دنوں ماسکو میں پانچ سال کی اسکالر شپ حاصل کر چکے تھے، لیکن محبت وارد ہوئی، تو ماسکو جانا تو ایک طرف، جامعہ کراچی میں ایم اے ادھورا چھوڑ کر جام شورو چلے آئے، اور پھر انگریزی میں ایم اے کیا۔ دل کی مجبوری کو دماغ نے یوں تسلی دی کہ 'وہاں (ماسکو) تو انقلاب آچکا، اپنوں کو مرتا چھوڑ کر وہاں عیاشیاں کرنا انقلابی غیرت کے خلاف ہے۔'
دل لے جانی والی انیتا معروف سیاست داں رسول بخش پلیجو کی بیٹی تھیں۔ شادی کے وقت انیتا میٹرک میں تھیں، جب کہ شادی کے بعد انہوں نے تعلیم مکمل کی اور 'کنسلٹنٹ سائیکیٹرسٹ' بنیں۔
اعجاز منگی کا خیال ہے کہ علم کے ساتھ استاد ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر صرف علم ملے اور اچھا استاد نہ ملے، تو آپ کے اندر تکبر پیدا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں میں بھی اپنا استاد خود بن گیا، ہر کتاب شراب کی طرح خمار چڑھاتی۔ سفید بالوں والے محو حیرت ہو کر انہیں سنتے۔ اس وقت مباحثے عام تھے، یہ دعوت مباحثہ دینے والوں سے پوچھتے کہ فلاں فلاں کتاب پڑھی نہیں، تو پڑھ کے آﺅ پھر بات کریں گے۔ اُن کا خیال ہے کہ یہ رویہ اچھا نہیں تھا۔
اعجاز منگی کہتے ہیں کہ جوانی میں لگتا تھا کہ تبدیلی بہت جلد آنے والی ہے۔ اگرکوئی کہتا کہ نہیں، سماج کو بدلنے میں وقت لگتا ہے، تو یہ باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھیں،
جیسے آج کے نوجوانوں کو بھی نہیں آتیں، دراصل بائیس، تئیس سال میں جذباتیت ہوتی ہے۔ ہم نے بھی 'انتہاپسندی' کرتے ہوئے سارا سارا وقت انہی سرگرمیوں کی نذر کیا اور دیگر مصروفیات تج دیں۔ انقلاب لوگوں پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ارتقائی مراحل ہیں، قوم کو تیار کرنا پڑتا ہے ورنہ یہ انقلاب افغانستان، جرمنی، فرانس، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ جیسے انجام سے دو چار ہوتا ہے۔
شادی کے بعد ملازمت کی ضرورت پڑی، تو ایک دوست نے سندھی اخبار'کاوش' میں ملازمت کا بندوبست کیا، تنخواہ مقرر کرنے کی بات آئی، تو انہوں نے کہا کہ یہ میری بیوی طے کرے گی، آپ کے پیسے اُسے قبول ہوئے، تو کام کریں گے ورنہ نہیں۔ بیوی نے کہا کم سے کم تین ہزار تو ہوں، یوں 'کاوش' کے ادارتی صفحے سے منسلک ہوئے اور باقاعدہ صحافت شروع کی۔ یہ لگ بھگ 1991ءکی بات ہے۔
چار صفحے کے اس اخبار کی قیمت ایک روپیہ تھی، بیش تر پریس ریلیزیں اور صرف ایک ادارتی شذرہ شایع ہوتا۔ لوگ اُس وقت 'کاوش' میں لکھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اعجاز منگی نے عام مسائل پر قلم اٹھایا اور مقبولیت حاصل کی۔ تین سال بعد اختلافات ہوئے، تو دوسرے سندھی اخبار 'ڈیلی سندھ' میں رہے، یہاں بھی تین برس کا ساتھ رہا، پھر 'تعمیر سندھ' کے لیے خدمات انجام دیں۔ اتفاق سے تیسرے اخبار میں بھی مدت قیام تین برس ہی رہا۔ اس کے بعد دوبارہ شہر قائد کا رخ کیا اور 2003ءمیں سندھی روزنامے 'عبرت' کے لیے گھر سے لکھنا شروع کیا۔ وہ ایک مضمون کے پانچ سو روپے دیتے، روزانہ لکھنے کے باوجود آمدن گھٹی۔ پھر ایک دوست کے توسط سے 'امت' آئے۔
کہتے ہیں مالک سے پہلی ملاقات میں دوستی ہوگئی۔ یہاں رشتہ آجرو اجیر والا نہیں، گزشتہ 12 برس سے یہاں کالم لکھ رہے ہیں۔ اپنے قارئین کو دیکھتے ہوئے درمیانی راستہ اختیار کرنے کو سمجھوتا کرنا نہیں سمجھتے کہ یہ سمجھوتا تو لالچ یا خوف سے ہوتا ہے۔ اخبار کے نظریے سے بہت زیادہ تفاوت کے باوجود کبھی ایک سطر بھی حذف نہ ہوئی۔ کہتے ہیں کہ ہمیں دوسرے نظریے کے اخبار میں لکھنا چاہیے، جیسے ہم مذہب کی تبلیغ غیر مسلموں میں کرتے ہیں۔ بادلوں کو جھیلوں پر نہیں صحراﺅں پر برسنا چاہیے۔'
اعجاز منگی کے سندھی اخبارات سے جڑے رہنے کی وجہ اس کا معیار بلند کرنا تھی۔ کہتے ہیں معاشی خسارے کو نظریاتی اطمینان پر ترجیح دی۔ سندھی، اردو اور انگریزی اخبار
کے مالکان کی سوچ اور ترجیحات یک سر مختلف ہیں۔
اعجاز منگی تمام سیاسی نظریات کا احترام کرتے ہیں اور سماج میں نظریاتی ٹکراﺅ کی فضا کو غلط سمجھتے ہیں۔ دوستی کو نظریات سے بالاتر اور ذاتی قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ جیسے میری ماں ایک مذہبی خاتون ہیں، لیکن وہ میرے ترقی پسند ہونے کی وجہ سے کبھی پیار کم نہیں کرتیں، نہ میں اُن کی روایت پسندی کی وجہ سے ان کی عزت کم کر سکتا ہوں۔
مذہبی تشخص رکھنے والے افراد اعجاز منگی کو متاثر کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ان میں تہذیب وتمدن اور اخلاق ہوتا ہے۔ انہیں مجھ سے اختلاف ہوتا ہے، تومیں ان کو سمجھاتا ہوں کہ ہمیں یہ مسائل مل کر سلجھانے ہیں۔ تم کوئی حل لاﺅمیں تمہارے ساتھ چلوں گا۔ ہمیں ایک پرامن معاشرہ بنانا ہے۔ جہاں بنیادی سہولیات بہتر ہوں، ناانصافی نہ ہو۔ کوئی مسجد جاتا ہے اور کوئی نہیں جاتا۔ لوگوں کو کسی بھی اونچی آوز سے متاثر نہیں کرنا چاہیے۔ اعجاز منگی مذہبی لوگوں کو لبرل اور عام قوم پرست اور سیاسی کارکنوں سے بہتر، سنجیدہ اور علم دوست قرار دیتے ہیں۔
'انتہا پسندوں' کی بات ہوئی، تو بولے کہ 'وہ تو "داڑھی پوش" غنڈے ہوتے ہیں۔' دہشت گردی کو ایک الگ موضوع قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مدارس کے فارغ التحصیل نوجوان چھوٹے موٹے کام اور نوکریوں سے گزر بسر کرتے ہیں۔ میں اپنے بچوں کی طرح ان کا دکھ محسوس کرتا ہوںِ۔
اعجاز منگی کا خیال ہے کہ آج باخبر صحافی وہ ہے، جسے سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمٹ کی خبر ہو، لیکن یہ صرف آدھے گھنٹے اپنے علاقے کے مسائل پر بات نہیں کر سکتے۔ لیاری، رنچھوڑ لائن، اورنگی اور لالوکھیت کے نام لیوا وہاں کے مسائل پر بات کریں، جہاں لوگ تنگ وتاریک "اذیت خانوں" میں زندگی گزارتے ہیں۔ برے صحافیوں کی وجہ سے اچھے صحافیوں کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔
تنخواہوں میں تفاوت کی بنا پر انہیں صحافت بھی طبقاتی لگتی ہے۔ سولجر بازار کراچی میں گزشتہ دنوں قبضہ مافیا کی ملی بھگت سے مسمار ہونے والے پرانے اسکول کے حوالے سے ردعمل کو وہ شعورکی پستی قرار دیتے ہیں کہ یہ ہماری ذہنیت ہے کہ انگریزوں کے اسکول کو 'ورثہ' قرار دے رہے ہیں اور سندھ کے ہزاروں اسکول وڈیروں کے قبضے میں ہیں، اس کی کوئی خبر نہیں۔
اعجاز منگی کہتے ہیں صحافت میں ساری زندگی ایک مزدور کی طرح کام کیا۔ 'سندھ ایکسپریس' کے لیے بھی لکھ رہے ہیں۔ لکھنے میں احتیاط برتی، کبھی کسی دباﺅ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اپنے کالموں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا۔ سیاست میں ذوالفقار بھٹو سے متاثر ہیں کہ اگر وہ کچھ وقت اور رہتے، تو آج ہم اچھے ماحول میں ہوتے۔ ضیاالحق کو 'مثالی آمر' کہتے ہیں کہ 'اس نے لوگوں کو دبانے کا ہر حربہ اختیار کیا۔ '
ہندوستان کی آرٹ فلمیں پسند رہیں، کچھ انگریزی فلموں سے بھی متاثر ہوئے، جن میں سن فلاور (SunFlower) دی کلر آف منی (The Color of Money) نمایاں رہیں۔ 'سماجی ذرایع اِبلاغ' کے استعمال کے قائل ہیں، مگر ساتھ اسے 'نشے' سے بھی تعبیر کرتے ہیں بقول اُن کے 'فیس بک پرکالم رکھ کر بھاگ جاتا ہوں۔' پہناوے میں ڈھیلی پتلون قمیص پسند ہے۔ آٹھ بہن بھائیوں میں نظریاتی طور پر صرف ایک چھوٹی بہن زیادہ قریب ہے۔
اعجاز منگی کے دو بیٹے ہیں، ایک امریکا میں، جب کہ دوسرا کراچی میں زیر تعلیم ہے۔ زندگی کا کوئی خاص خوش کُن لمحہ یاد نہیں، جب کہ دو سال پہلے شریک حیات انیتا کا انتقال زندگی کا دکھ بھرا واقعہ ہے۔ اعجاز منگی کے الفاظ میں "زندگی میں محبت کا احساس کبھی اکیلا نہیں ہونے دیتا۔ میں نے انیتا سے بہت محبت کی، ہم تیس سال ساتھ رہے، وہ اب بھی یاد رہتی ہے۔"
٭٭٭
چوکھٹے
٭ہم نے جنگیں لڑی ہی نہیں!
اعجاز منگی کہتے ہیں "اردو اور سندھی میں لکھنے والے سرکش نہیں، کیوں کہ یہاں اب تک کسی انقلابی تحریک یا بغاوت کا تصور نہیں۔ فرانسیسی مفکر سارتر نے فیض سے کہا تھا کہ تم لوگوںکا ادب اچھا نہیں ہوگا، کیوںکہ آپ نے جنگیں ہی نہیں لڑیں۔" ٹیپو سلطان کے جہاد سے 1857ءکی جنگ آزادی تک کی جنگوں کو وہ دفاعی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'یہ جاگیرداری قسم کی لڑائیاں تھیں۔ سندھ میں حُروں کی بڑی تحریک تھی، جو انگریزوں کے خلاف چلی، مگر وہ بھی پیر کے کہنے پر تھی، ضمیر کے کہنے پر نہیں۔ اعجاز منگی کا خیال ہے کہ بیرونی حملہ آور کے خلاف تو سب ہی لڑ لیتے ہیں۔ روس اور فرانس کی طرح ہم اپنے شاہوں کے خلاف نہیں اٹھے۔ اصل لڑائی پرامن معاشرے میں اپنے حقوق اور اصول کی بغاوت ہے۔ جیسے ہمارے ہاں شاہ عنایت شہید کی ایک بہت چھوٹی سی تحریک تھی، آب جو کی مانند۔
٭لکھے ہوئے لفظ کو قبولنے سے پہلے
پڑھنے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اعجاز منگی کہتے ہیں کہ وہ لکھے ہوئے لفظ کو قبول کرنے سے پہلے اس پر غور کریں اور سوچیں۔ صرف لکھنے پڑھنے سے نہیں عمل سے تاریخ تبدیل ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں جتنا اچھا لکھا گیا ہے، اس پر ایک فی صد بھی عمل نہیں ہوا۔ اب عمل کا وقت ہے۔ صاحب علم کو متکبر نہیں، بلکہ اچھا انسان بھی ہونا چاہیے۔ ایک قاری بہتر لکھاری پیدا کر سکتا ہے، جب کہ ایک لکھاری بہتر قاری پیدا نہیں کر سکتا۔ باشعور قاری کو اپنے لکھاری کو قابو کرنا چاہیے۔ قاری اور لکھاری کا دو طرفہ اور برابری کا رشتہ ہونا چاہیے۔ قاری کی وجہ سے تو لکھاری ہیں۔ لکھاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قاری سے مستقل تبادلہ ¿ خیال کرے۔
٭پیسے کیوں نہیں دیں گے؟
اعجاز منگی کو اسلام آباد میں ایک چینل پر گفتگو کے لیے مدعو کیا گیا، تو انہوں نے پوچھا کہ پیسے کتنے دیں گے؟ میں پیسہ خرچ کر کے آﺅں گا، آپ کے چینل کو وقت دوں گا، جب ایک ٹی وی میزبان اپنی خدمات کا معاوضہ لے رہا ہے، اور چینل سے آمدنی حاصل کی جا رہی ہے، تومجھے پیسے کیوں نہیں دیں گے؟ یوں وہ مذکورہ ٹی وی مذاکرے میں نہیں گئے۔ کہتے ہیں ہماری صحافت پہلے نظریاتی ہوتی تھی، پھر پیشہ وَر ہوئی اور اب یہ تجارتی ہوگئی۔ پہلے اخبار یا جرائد میں کام کرنے سے پہلے اشاعتی حکمت عملی پوچھتے تھے، آج تنخواہ پوچھتے ہیں، ان سے جو کہلوائیں، یہ کہہ دیں گے۔ برقی ذرایع اِبلاغ میں بہت کم لوگ سنجیدہ ہیں۔ زیادہ تر اپنے بننے سنورنے اور کپڑوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ کتابیں تو درکنار اخبارات تک نہیں پڑھتے۔ ان کی ٹیم ایک فائل تھما دیتی ہے اور یہ کیمرے کے سامنے اسے پڑھ دیتے ہیں، جیسے 'اداکار' ہر روپ دھار لیتا ہے اور اسے صرف اپنے معاوضے سے مطلب ہوتا ہے۔
٭ "غلط الفاظ کا استعمال سب سے بڑا گناہ"
اعجاز منگی کالم نگاروں کے کاندھوں پر وہ تاریخ کی بڑی ذمے داری عائد کرتے ہیں کہ لوگ سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو کر راہ نمائی کے لیے اِن کا رخ کرتے ہیں، لیکن جب ہمارے کالم نگار بھی انہی سیاست دانوں کے مفادات، حکم اور ہدایت پر ہوں، تو عام لوگ کہاں جائیں۔ لکھنے والوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ قارئین ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے جذبے اور ضمیر کے تحت لکھتے ہیں، اس لیے سچ لکھیں، اس سے عارضی طور پر تونقصان ہو، لیکن مستقبل میں فائدہ ہوگا، دنیا میں لاکھوں پیسے والے آئے، لیکن عظیم لوگوں کی فہرست میںایک بھی شامل نہیں۔ کالم نگاراپنے الفاظ کے تقدس کو محسوس کریں۔ جب سقراط زہر کا پیالا پی رہا تھا تو اس کے ایک شاگرد نے کہا کہ استاد محترم، ہم آپ کے کفن دفن کی رسومات کس طرح ادا کریں؟ یہ سن کر سقراط نے بند آنکھیں کھولیں اور کہا میرا کفن اور دفن؟ میں نے تمہیں ہمیشہ کہا ہے کہ الفاظ کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے۔ میں نہیں مروں گا، اس لیے میرا نہیں، بلکہ جو مجھے مار رہے ہیں ان کے کفن دفن کا سوچو۔" لکھنے والے سوچیں کہ انہیں سقراط بننا ہے یا سکندر؟ لکھاری باضمیری ہو تو پورے سماج کو ہلا سکتا ہے، جیسے ارون دھتی رائے نے کشمیر، آسام اور ماﺅ نواز باغیوں کے مسئلے پر آواز اٹھا کر مودی کو پریشان کر دیا ہے۔ ہمارے کالم نگار جماعتوں اور ممالک کے لےے بولتے ہیں، جب کہ انہیں اپنے غریب عوام کے لیے لکھنا اور بولنا چاہیے۔
٭نئی نسل جدید ذرایع سے منسلک ہے!
اعجاز منگی کا خیال ہے کہ پڑھنے کا رجحان پست اور سننے اور دیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ لوگوں کی سہولت اور اختیار بڑھ گیا ہے۔ اس لیے کالم نگار اس وقت بحران سے گزر رہے ہیں۔ اب چیزیں تبدیل ہوں گی، پہلے کالم نگارکی بڑی وقعت تھی، اب قاری کم ہو رہا ہے، جب مانگ کم ہوتی ہے، تو رسد بھی ختم ہونے لگتی ہے۔ نئی نسل جدید ذرایع سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ اخبار پڑھنا پسند نہیں کرتے، اور خط بھی نہیں لکھتے۔ اب فون، موبائل پیغامات اور ای میل وغیرہ کا دور ہے۔ لفافے میں بند چار، پانچ صفحات کا خط، جو دنوں اور ہفتوں میں ملتا، پسینے کے قطرے بھی پڑے ہوتے، جس سے اِبلاغ بڑھ جاتا تھا، اور اس میں جو تخیلاتی کیفیت ہوتی تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے۔ ذرایع اِبلاغ کی صورت حال کے حوالے سے اُن کا خیال ہے کہ مستقبل میں اخبارات ویب پر انحصار کرنے لگیں گے۔ اب ویب پر اخبارات کو 'اے بی سی' کرنے اور اشتہارات جاری کرنے کی حکمت عملی بن رہی ہے۔ کاغذ کا دخل ختم ہو رہا ہے، دنیا کے بہت سے اخبارات وجرائد نے مطبوعہ اشاعت بند کر دی۔ اسکرین پر پڑھنے میں دقت کو وہ عادت کو دوش دیتے ہیں کہ نئی نسل کو اسی میں سہولت ہے، جب اس کے عادی بڑھ جائیں گے تو مطبوعہ اخبار کو کون دیکھے گا؟
٭کچھ کتب 50، 60 دفعہ پڑھ چکے!
اعجاز منگی ہر ماہ کتابیں خریدتے ہیں، لیکن اکثر کتب پڑھ کر بانٹ دیتے ہیں، ذاتی کتب کا ذخیرہ چار، پانچ سو ہے۔ روزانہ چار، پانچ گھنٹے مطالعے میں صرف کرتے ہیں۔ آج کل مصری مصنف نجیب محفوظ زیر مطالعہ ہیں۔ اعجاز منگی کے بقول کچھ کتب پڑھی نہیں جاتیں، جب کہ کچھ ایسی کتب ہیں، جو پچاس، ساٹھ دفعہ پڑھ چکے ہیں، جن میں ذوالفقار علی بھٹو کی اِف آئی ایم ایسسینٹڈ (If I am Assassinated)، مائی ڈیئرسٹ ڈاٹر (My Dearest Daughter) کے علاوہ اشفاق احمد، بانو قدسیہ کی کچھ کتب اور شیخ ایاز کی شاعری کو شامل کرتے ہیں۔ اطالوی صحافی اوریانا فلاسی کی لیٹر ٹو اے چائلڈ نیور بورن (Letter to a Child Never Born) اور ہندو مت کی کتاب گیتا بیس، تیس دفعہ پڑھ چکے ہیں۔ پاکستان میں فیض کو سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں، نثر میں انہیں قرة العین حیدر کا کوئی ثانی نہیں دکھائی دیتا۔ کہتے ہیں کہ 'پوری دنیا میںخواتین کو اچھا لکھنا نہیں آتا، لیکن جب وہ لکھتی ہیں، تو مردوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔"