حب الوطنی

ہمیں یہ بات بہرحال اپنے ذہن میں ہمیشہ رکھنی ہے کہ ہمیں ہر کام قانون کے دائرے میں رہ کر ہی کرنا ہے۔


جاوید قاضی September 06, 2020
[email protected]

حب الوطنی کی تشریح تو جیسے ادھوری رہ گئی۔ شیخ ایاز کے اس اس بوسے کی طرح جو اس کی نظم میں، اس سپاہی کا منظر ہے جب وہ اپنی دھرتی کو بوسہ دینے لگتا ہے تو عین اسی وقت ایک تعاقب کرتی ہوئی گولی اس کی کنپٹی پر لگتی ہے، یا پھر اس طرح جیسے شیخ ایاز کہتے ہیں کہ:

اے کاش تم یہ جانتے

آزاد فضا کیا ہوتی ہے

پرواز بناء پرندے کے پر کیسے ہوتے ہیں

اے کاش تم یہ جانتے

ہمارے بھٹائی کی ماروی کتنی قریب ہے حب الوطنی کی اس تشریح سے جو ابھی تک اس سپاہی کے بوسے کی طرح ادھوری ہے، نامکمل، ناکافی ہے یا پھر ان پرندوں کے پروں کی مانند ہے جس کا تذکرہ ہمارے شیخ ایاز اپنی نظم میں کرتے ہیں۔ وہ بیان دیتے رہتے ہیں اور ان کے ڈاک خانے سے نکلے بیان ہماری چوکھٹ پر ڈاکیہ پھینک جاتا ہے، ہمیں پتا ہے کہ وہ کس طرح کے بیانات دینا پسند کرتے ہیں۔ بس ہمارے کان ہیں سننے کے لیے۔ اس ملک خداداد میں ان بیانوں نے اتنے غدار پیدا کر دیے ہیں کہ ان کی تشریح کے مطابق محب وطن اب ناپید ہو گئے ہیں۔ وہ یوٹرن بھی لگائیں تو وہ بھی وفا ہے، آٹا اور چینی آسمان کو چھوئیں، غریبوں کی بستیاں بھی اجڑ جائیں۔ وجہ چاہے اس کی کورونا ہو، بار شیں ہوں یا ان کی ناکام معاشی حکمت عملی وہ پھر بھی وفادار ٹھہرے کیونکہ مہر لگانے کا اختیار جو ان کے پاس ہے کہ جیسے سب ٹھیک ہے اور ہمیں گھبرانا بھی نہیں ہے اور پھر ہم محب وطن بھی نہیں۔

ایف اے ٹی ایف نے یہ کب کہا کہ چالیس دن کے لیے بغیر وجہ جا نے کسی کو کسی وقت کہیں بھی اٹھا کر پابند ِسلاسل کیا جا سکتا ہے، اگر ترمیم کے ذریعے یہ شق ڈالی بھی جائے تو کیا اس طرح سے ہمیں ایف اے ٹی ایف سے نجات ملے گی، ایسا کب کہا ایف اے ٹی ایف نے؟ اور وہ جو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں نہیں، جہاں جمہوریتیں ہیں ،کسی ملک کے قانون و آئین میں ایسے لکھا ہوا ہے یا پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔

پھر یوں تمام ملبہ حب الوطنی پر گرتا ہے۔ تہمتوں کے اس بازار میں یوں لگتا ہے کہ جیسے کبیر بیٹھا روئے۔ راوی کو تو بس رقم کرنا آتا ہے اور اس نے کسی راہی کی طرح اپنی کوئی اور راہ لینی ہے۔ آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر ایسے بیانوں سے یا پھر حب الوطنی کی جنونی تشریح سے مزید جنونیت بڑھتی ہے۔ آپ کی کمزور دو سالہ حکومت ہو سکتا ہے، ہٹلر کی طرح اقتدار پر ایک دن مضبوطی سے لگام کھینچ بھی دے مگر کیا آپ بھی اس ملک کے ساتھ وہ ہی کریں گے جو ہٹلر نے جرمنی کے ساتھ کیا؟ مسئلہ حب الوطنی میں نہیں اس کی تشریح میں ہے۔

ماروی نے عمر سے کیا مانگا تھا صرف آزاد فضا! وہ تو ابھی کھیتوں اور کھلیانوں سے بھی نہ نکلی تھی۔ سہلیاں، گلیاں اور چوبارے ماروی کی زندگی تھے۔ آزاد فضا اس کا گھونسلا تھا، جب عمر، ماروی سے یہ پوچھتا ہے کہ تمہارے ملیر میں ہے کیا ؟ اور میرے محل میں کیا نہیں کہ مجھے قبول نہیں کرتیں؟ تو ماروی جو کہتی ہے بھٹائی اس کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں ''وہ جو بھی ہیں میرے مارو ہیں، میری عمر کی لڑکیاں ان کھیتوں اور کھلیانوں میں خوب جھومتی ہیں، پھول چنتی ہیں، میری التجا ہے خدا سے کہ تمہارا محل زمیں بوس ہوکہ میں آزاد ہو جائوں'' بھٹائی کی نظر میں ''جب ماروی آزادی کی مشعل کو مزید سختی سے پکڑتی ہے، قید و بند اس کے جسم کو توڑنے لگتا ہے اور جب عمر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب ماروی ٹوٹنے لگی ہے، اب وہ ہار مان لے گی اور عمر اپنے گھمنڈ میں آ کر جب اسے یہ کہتا ہے کہ وہ اسے قبول کرے تو بھٹائی اس منظر کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

جب کن فیکوں ہوا تھا

میں تب سے ماروی ہوں

اب تم بتائو نا سمجھ کہ تم میرے

جسم کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو

تم اسے تو زنجیروں میں باند ھ سکتے ہو

مگر میری روح کو نہیں

یہ وہ ہے بھٹائی جس نے ماروی کو حب الوطنی کا دوسرا نا م دیا۔ زمین سے محبت کرنے والے جو حکمران ہوتے ہیں وہ نتھیا گلی یا بنی گالہ میں بار ہا بسیرا نہیں ڈالتے۔آٹا اور چینی کی قیمتیں آسمانوں کو چھو ئیںاور آپ کو لوگوں کے چیخنے پر اعتراض ہے۔ کراچی کا پوش ترین علاقہ دریا بن گیا اور آپ کہتے ہیں کہ لوگ کنٹونمنٹ کے باہر کیوں جمع ہیں؟ پھر ان پر پرچہ بھی کٹ جاتا ہے!آپ کی معیشت اچھی ہونے کو جا رہی ہے۔

معیشت کا ایسا اچھا ہونا جس سے غریب کو کچھ نہ ملے، صرف فاقہ کشی اور غربت کا سماں ہو، بے روزگاری ہو، چھتیں ٹپک ر ہی ہوں، گلیاں ندیاں بن جائیں، نہروں کے بند ٹوٹ جائیں اور پھر آپ کہیں کہ تم محب وطن نہیں ! ہاں مگر ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ ''ہم ماروی ہیں'' اگر ماروی محب وطن نہیں تو ہم بھی نہیں۔ ہم نے وہی سب مانگا ہے جو ماروی نے مانگا تھا عمر سے۔ ہم رضامند ہو گئے، معاہدہ کیا۔ اس معاہدہ کے تحت آپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ سب کے حقوق برابر ہوںگے۔ وفاقی طرز کا آئین ہو گا، جمہوریت ہو گی اور مذہب ہمارا اسلام ہو گا۔ یہ عمرانی معاہدہ ہماری حب الوطنی کی ویسی ہی تشریح کرتا ہے جو بھٹائی نے ماروی کے روپ میں بیان کی ہے۔

اگر آپ ایسا قانون بنانے پر بضد ہیں تو سپریم کورٹ اپنے جوڈیشل ریویو کی جیوریسڈکشن میں اس قانون کو آئین سے متصادم قرار دے گی، کیونکہ پہلے بھی سپریم کورٹ نے ایسا ہی کیا ہے، تو کیا پھر آپ ایسا بھی کہیں گے کہ سپریم کورٹ بھی ایف اے ٹی ایف کی طرح حکومت کے خلاف ہے۔

ہمیں یہ بات بہرحال اپنے ذہن میں ہمیشہ رکھنی ہے کہ ہمیں ہر کام قانون کے دائرے میں رہ کر ہی کرنا ہے۔ ہم سب محبِ وطن ہیں کیونکہ ہم سب پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں