کراچی…ہم سب تمہارے ساتھ ہیں

گزشتہ 53 برس سے یعنی 1967ء کی پہلی طوفانی بارشوں کے بعد سے اب تک کسی بھی حکومت نے کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی۔


Amjad Islam Amjad September 06, 2020
[email protected]

ٹی وی چینلز پر گزشتہ کئی دنوں سے کراچی میں بارشوں کے دوران اور ان کے ختم ہونے کے باوجود شہر کی جو حالت دکھائی جا رہی ہے اور جس انداز میں اس کو درست کرنے والے مختلف محکمے اور سیاستدان اس کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کسی اعتبار سے بھی مستحسن تو کیا قابلِ برداشت بھی نہیں ہے، غالباً میرؔ صاحب نے اپنے ا س مشہور شعر میں ایسے ہی لوگوں کو ایک قدرے مختلف پس منظر میں مژگاں کھولنے کے لیے کہا تھا:

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک

مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

اس دوران میں کراچی کے مختلف دوستوں سے براہ راست بات بھی ہوتی رہی ہے جس سے یہ پتہ بھی چلتا رہا ہے کہ اس بار صرف غریبوں کی بستیاں اور ان کے گھر ہی اس کی زد میں نہیں آئے بلکہ اس نے محّلات کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اگرچہ ان متمول آبادیوں کے لوگوں کو اس طرح کی تباہی اور بے بسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ کئی کئی فٹ پانی اُن کی گلیوں اور گھروںمیں اس طرح سے کھڑا رہے کہ اُن کا سب کچھ اس کی زد میں آجائے ۔

فرنیچر، کپڑے ، بچیوں کے لیے قسطوں میں بنائے جانے والے سامانِ جہیز، سونے کی چارپائیاں اور بستروں سمیت باورچی خانے اور ٹوائلٹ سب کے سب ایک طرح سے دریا بُرد ہوجائیں کہ نہ تو کھانے کو کچھ ہو اور نہ ہی اسے پکانے کی کوئی جگہ اور اُس پر مستزاد کے الیکٹرک کی مہربانیاں کہ حبس اور گرمی اور اس میں بجلی اور پنکھا بھی ساتھ نہ دے سکے ۔ مانا کہ اس طرح کی بارشوں میں بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کے سسٹم بھی کچھ دیر کے لیے ناکارہ ہوجاتے ہیں مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس عرصے کو کم سے کم کرنے کے لیے وہاں کی حکومتیں ، شہری انتظامیہ اور متعلقہ ادارے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف فوری طور پر متحرک ہوجاتے ہیں بلکہ وہاں کے مختلف رفاحی ادارے اور تربیت یافتہ شہری بھی جی جان سے صورتِ حال کو بہتر بنانے میں جُت جاتے ہیں۔

اسے کراچی کی بدقسمتی کہئے کہ گزشتہ 53 برس سے یعنی 1967ء کی پہلی طوفانی بارشوں کے بعد سے اب تک کسی بھی حکومت نے کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی کہ کسی ایسی ہی ہنگامی صورتِ حال میں شہر سے پانی کے جلد از جلد نکاس کا کوئی طریقہ کار وضع کیا جا سکے، سو یہ کام بھی یا تو اپنی مدد آپ کے تحت متاثرہ لوگ حسبِ توفیق خود کرتے ہیں یا خلقِ خدا کی خدمت کے لیے قائم کچھ ادارے اپنے محدود وسائل کے ساتھ اُن کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق اس طرح کی غیر معمولی صورتِ حال میں 500 کے قریب برساتی نالے سیوریج کے کسی باقاعدہ سسٹم کی عدم موجودگی میں یہ خدمت سرانجام دیتے تھے، ان میں سے صرف 38 ایسے نالے باقی بچے ہیں جن کو جزوی طور پر چالو کہا جا سکتا ہے باقی سب کے سب ناجائز تجاوزات (جو مختلف حکومتوں کے سامنے ہی نہیں بلکہ اُن کی شہ پر کیے گئے) یا اتنے بڑے شہر کے کوڑا کرکٹ کی آماجگاہ بن گئے اور یوں اب اُن میں پانی چلنے کے بجائے سارے شہر میں کھڑا ہو جاتا ہے ۔

اس ساری تکلیف دہ اور افسوسناک صُورتِ حال میں صرف دو باتیں ایسی ہیں جن سے وطنِ عزیز میں کسی حد تک ضمیروں کے زندہ ہونے کا احساس ہوتاہے کہ کراچی کی اس تباہی پر نہ صرف سارا ملک پریشان اور سوگوار ہے بلکہ اس کے مختلف علاقوں سے کئی رفاعی تنظیمیں اور ان کے کارکن عملی طور پر وہاں پہنچ کر لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے تین وقت کے کھانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔کل شام مجھے ''الخدمت فائونڈیشن'' کے موجودہ صدر برادرم عبدالشکور کا فون آیا کہ وہ وہاں کے مقامی کارکنوں کی مدد کے لیے پورے ملک سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہنچ رہے ہیں جو گلی گلی پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کو کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اُن کے گھروں میں خوراک اور دوائیں بھی پہنچا رہے ہیں۔

آج میں نے جب یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تو بے اختیار دل سے ''الخدمت'' کے رضاکاروں سمیت اُن تمام لوگوں کے لیے دعائیں نکلیں جو اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور اس تفریق کے بغیر کہ کون سا علاقہ کس سیاسی جماعت کے ساتھ تھا اور اس کی پروا کیے بغیر کہ یہ جماعتیں اپنے ووٹروں کے لیے کیا کر رہی ہیں، ہر اُس دروازے تک پہنچ رہے ہیں جہاں اُن کی مدد کی ضرورت ہے۔عزیزی رحمن فارس ہماری نئی نسل کے اہم ترین شاعروں میں سے ایک ہے، اُس نے اپنی شاعر برادری کی طرف سے ہمارے کراچی کے تمام مصیبت زدہ بہن بھائیوں کے لیے بزبانِ شعر اُسی درد اور محبت کا اظہار کیا ہے جو اس وقت ہر اہلِ دل کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے اور اُس جذبے کا بھرپور مظہر ہے کہ ''کراچی۔ ہم سب تمہارے ساتھ ہیں'' وہ کہتا ہے۔

جس آشیاں میں دربدروں کو ملی امان

وہ شہر جو رہا ہے غریبوں پہ مہربان

جس میں مہاجر آکے رہے اور بسے پٹھان

بچے ، بڑے ، بزرگ ، خواتین اور جوان

اُس آشیاں پہ قہر ہے اب ابر و باد کا

کس طرح نوحہ لکھوں عروس البلاد کا

وہ شہرِ زندہ دل تھا کبھی روشنی کا شہر

جس کے مکیں کروڑوں تھے، ہمسایہ ایک بحر

گلیوں میں دوڑتی تھی جہاں زندگی کی لہر

پھر اُس نگرکو کھا گیا بدہیئتی کا زہر

ارباب کو علاج کی توفیق کب ہُوئی

ایسا مچا اندھیر کہ دن میں ہی شب ہوئی

کوئی لٹیرا انجم و ماہتاب لے گیا

پھر کوئی چور زیست کے اسباب لے گیا

آنکھوں کو جیسے کوئی بُرا خواب لے گیا

ان سب سے جو بچا اُسے سیلاب لے گیا

عمروں کی جمع پُونجی تو پانی میں بہہ گئی

باقی گھروں میں حسرتِ خاموش رہ گئی

اِک روز میں یہ شہر تھا جنت سے بھی حسیں

اب ایک بھی چراغ سرِ رہگزر نہیں

کچرا ، شکستہ ، گلیاں ،بلکتے ہوئے مکیں

دھندلا سا آسمان ، بہت زرد سی زمیں

ایدھی بھی روتے ہوں گے یہ پامالی دیکھ کر

قائد نڈھال ہوں یہ بد حالی دیکھ کر

دارالخلافہ تھا کبھی وحشت نگر ہے اب

یارو اسے بحال کرو مل کے سب کے سب

مانگو دعا کہ اُس پہ عنایات کردے رب

خوشیوں سے لہلائیں کراچی کے روز و شب

کچھ معجزہ ہو رُونما کوئی کمال ہو

پھر سے ہمارے شہر کی رونق بحال ہو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں