انگریزحکمرانوں کا پسندیدہ کون محمد علی جناح یا نہرو
راقم اپنی معروضات کی بنیاد ایک غیر مسلم امریکی مورخ کی کتاب پررکھ رہا ہے۔
ایک پرانا لطیفہ ہے کہ لڑکی کے والدین کے پاس اس کا رشتہ آیا۔انھوںنے لڑکے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنا ایک خاص بندہ لڑکے کے گاؤں بھیجا جسے لڑکے کا ہمسایہ گاؤں کے باہر ہی مل گیا جب اُ س سے پوچھا گیا کہ محمد ریاض ولد سراج دین کا چال چلن کیسا ہے؟تو ہمسائے نے جواب دیا، ا چھّا ہے۔
بس کبھی کبھی پیا ز کھاتا ہے ''وہ کیوں ؟ اس پر ہمسائے نے کہا روز نہیں کھاتا بس جب شراب پیتا ہے تو کھا لیتا ہے ''تووہ شراب بھی پیتا ہے ؟ '' ہر روز تھوڑا ہی پیتا ہے جب جوئے میں ہار جاتا ہے تو غم غلط کرنے کے لیے پیتا ہے " تو وہ جوأ بھی کھیلتا ہے؟"ہر روز تو نہیں کھیلتا، جب ڈاکے سے اچھے پیسے مل جائیں تو پھر کھیل لیتا ہے''تو جس طرح شراب نوشی، قمار بازی اور ڈاکہ زنی جیسے اوصاف ایک محمد ریا ض کی ذات میں جمع ہو گئے،اسی طرح ہمارے ملک کے کچھ لبرلز میں کئی ''اوصافِ کبیدہ '' اکٹھے پائے جاتے ہیں۔ وہ تنقید مولوی پرکر تے ہیں مگر ان کااصل نشانہ اسلام ہوتاہے۔
وہ پاکستان کی اساس سے بغض رکھتے ہیں اور اندر سے پاکستان کے قیام کے بھی مخالف ہیں۔ اِسلام سے بغض ،ِ قیامِ پاکستان کی مخالفت ،بانیانِ پاکستان پر تنقید ،اسلامی شعائر کی تضحیک اور مسلم ہیروز کی بے توقیری ،یہ ہے ان کا پورا پیکیج اور ان کا ایجنڈا ، پہلے تووہ بھارت کی علی لاعلان مدح سرائی کرتے تھے، ا ب وہاں کے حالات دیکھ کر خاموش ہو گئے ہیں ،مگر مودی حکومت کے ظلم وستم پر تنقید بھی نہیں کر تے۔ کیونکہ وہ اپنے مغربی آقاؤں اور سرپرستوںکے دیے گئے ٹاسک پوری محنت اور لگن سے مکمل کرنے میں کوشاں ہیں اوران کاٹاسک ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کو قیامِ پاکستان کی افادیّت اور بانیء پاکستا ن کے خلوص، نیک نیتّی اور اعلیٰ کردار کے بارے میں کنفیوژ کرنا اور انھیں احساسِ کمتری میں مبتلا رکھنا۔
اس ضمن میں غیر ملکی فنانسرز کے کارندے بھی بانیء پاکستان کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اور تاریخ ''درست کرنے'' کے نام پر ایسے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں کہ 'پاکستان تو انگریزوں نے اپنی ضرورت کے تحت بنوایا تھا'،'جواہر لال نہرو بڑا انقلابی اور انگریز سامراج کا مخالف تھا جب کہ جناح صاحب انگریزوں کے حامی اور مدد گار تھے اس لیے انگریزوں نے پاکستان بنوادیا۔ ملک کے کئی دانشورانھیں تاریخ کے حوالوں سے غلط اور جھوٹا ثابت کر چکے ہیں مگر وہ شوشے چھوڑنے سے باز نہیں آتے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ انگریز کیا واقعی قائداعظمؒ کو اپنا حامی اور نہروکو اپنا مخالف سمجھتے تھے؟نیز انگریزوں کا فیورٹ کون تھا؟
راقم اپنی معروضات کی بنیاد ایک غیر مسلم امریکی مورخ کی کتاب پررکھ رہا ہے۔معروف مورّخ سٹینلے وولپرٹ (جن کا چند ماہ پہلے ہی انتقال ہوا ہے)نے برّصغیرکی تین اہم شخصیات، قائداعظم محمد علی جناحؒ جواہر لال نہرو اور ذوالفقار علی بھٹو پر کتابیںلکھّی ہیں اورانھیں پاکستان کا نہیں بھارت کا حامی کہا جا سکتا ہے۔
جس طرح قائداعظم پر کتاب لکھتے وقت وولپرٹ کوحکومت ِپاکستان کا تعاون حاصل تھا،ذوالفقارعلی بھٹو پرتحقیق کے وقت اُسے بھٹو فیملی کی مکمل معاونت حاصل رہی، اسی طرح نہرو پر کتاب لکھنے کے لیے مصّنف کئی بار بھارت گیا اور اسے نہرو فیملی کا مکمل تعاون حاصل رہا۔ سٹینلے وولپرٹ کی کتاب ''نہرو'' کے چند اقتباسات ملاخط فرمائیں ، جن کی روشنی میں حقائق آپ کو خود نظر آجائیں گے۔
''چالیس کی دھائی کے وسط میں برصغیر میں آزادی کی جدوّجہد اور قیام پاکستان کی تحریک فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو رہی تھی۔انگریز حکمرانوں نے ہندوستان سے بوریا بسترسمیٹنے کے بارے سوچنا شروع کر دیاتھا۔وائسرائے لارڈ ویول نے کانگریس اور مسلم لیگ کے راہنماؤں کو بات چیت کے لیے شملہ مدعو کیا تاکہ وہ انھیں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں شمولیت پر آمادہ کرسکیں، اس وقت کانگریس کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔اگرچہ پالیسی سازی اور بڑے فیصلوں میں ان کے اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے،اس لیے مسلم لیگی قیادت انھیں مسلمانوں کا نمایندہ تسلیم نہیں کرتی تھی۔۔۔۔''
''لارڈ ویول سے ملاقات کے بعد مولانا آزاد نے وائسرائے کے حسنِ اخلاق کی تعریف کی، نہرو نے بھی وائسرائے کی پیشکش کو سراہا۔ مولانا آزاد کی خواہش تھی کہ پنڈت نہرو کو خارجہ امور کا انچارج یعنی وزیر ِخارجہ بنادیا جائے۔نہرو خود بھی اندرونی مشکلات اور جھمیلوں پر خارجہ امور کو ترجیح دیتے تھے۔محمد علی جناح وائسرائے سے دوسرے روزملے وائسرائے کے مطابق ''انھوں نے آتے ہی کہا آپ کی مجوزّہ کونسل میں مسلمان ہمیشہ اقلیّت میں رہیں گے، اس کے بعد انھوں نے کہاکہ کونسل کے تمام مسلمان ممبرز کونامزد کرنے کا اختیار مسلم لیگ کے پاس ہے''۔
میں نے کہا میںیہ بات تسلیم کرنے سے قاصر ہوںاس پر مسٹر جناح کو خاصا ملال ہوا'' ، ٹی بی اور کینسر نے ان کے پھیپھڑوں کو بری طرح متاثر کیا تھاان کی زندگی کے صرف تین سال باقی رہ گئے تھے مگر وہ اپنی بات پر ڈٹے ہوئے تھے۔'' وائسرائے کے کہنے کے باوجود جناح نے آزاد سے ملنے سے انکار کردیا کیونکہ ان کے خیال میں مولانا آزادکو گاندھی اور ھندؤں نے محض ایک شوپیس کے طور پر کانگریس کا صدر بنایا ہوا ہے تاکہ مسلم لیگ کے مسلمانوں کی نمایندہ جماعت ہونے کے دعوے کو رد کیا جاسکے''،مصّنف لکھتا ہے کہ'' اب وائسرائے کے خیال میں کسی بھی پیش رفت کے راستے میں مسٹر جناح سب سے بڑی رکاوٹ ہیں،جناح کے خیال میں مجوّزہ کونسل کے مسلمان ارکان کی نامزدگی کا اختیار صرف مسلم لیگ کے پاس ہی ہونا چاہیے ''۔
''جناح کے بعد وائسرائے سے جواہر لال نہروکی ملاقات ہوئی۔شملہ میں ڈیڑھ گھنٹے کی اس ملاقات میں نہرو نے لارڈ ویول کو بہت متاثر کیا اور وہ انھیں گاندھی اور محمد علی جناح سے زیادہ ترجیح دینے لگا''۔ '' اسی دوران میںایسی انٹیلی جنس رپورٹیں بھی سامنے آئیں جن کے مطابق مولاناآزاد مسلم لیگ کے خلاف دوسری اقلیّتی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔اس سلسلے میں انھوں نے سکھوں کو کانگریس کے ساتھ ملانے کے لیے تارا سنگھ پر بھی کام کیا۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ مسلم لیگ تنہا رہے جائے اور وہ اپنی مرضی کی ایگزیکٹو کونسل بنوالیں''۔
''ایگزیکٹو کونسل کے لیے وائسرائے نے جو لسٹ خود تیار کی تھی، اُس کے مطابق وہ اس میں نہرو کو سب سے اہم عہدہ دینے پر تیار تھے ۔ وہ مسلم لیگ کے پانچ ارکان شامل کرنے پر تیار تھے۔ وائسرائے کی لسٹ میں لیاقت علی خان اور خلیق الزمان وغیرہ شامل تھے جب کہ محمد علی جناح سرے سے شامل ہی نہیں تھے۔ لیکن مسلم لیگ کی مخالفت کی وجہ سے اس پرعمل نہ ہوسکا اور یہ اسکیم ناکام ہوگئی''۔
''14جولائی 1945کو وائسرائے نے شملہ کانفرنس کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس کانفرنس کی ناکامی کی ذمّے داری اپنے اوپر ڈالی مگرمولانا آزاد نے وائسرائے کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کے خلوص اور نیک نیّتی کی تعریف کی اور شملہ کانفرنس کی ناکامی کی ذمّے داری مسلم لیگ پر ڈالی۔ آخری اجلاس کے بعد وائسرائے لارڈویول نے نہرو سے پھر ملاقات کی جس کی رپورٹ لندن بھیجی جسکے مطابق نہرو نے تسلیم کیا کہ ''مسلم لیگ کی قیادت ہندو غلبے کے خوف میں مبتلا ہے۔ جب کہ اس کے خیال میں یہ صرف ان کا نفسیاتی خوف ہے'' نہرو نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ''ہندوؤںمیںایک گروہ ایساموجود ہے جو ہندو حاکمیّت کا حامی ہے ''،وائسرائے کے مطابق ''نہرو اس مسئلے کا کوئی حل نہ بتاسکے''۔
مصّنف لکھتا ہے کہ '' وائسرائے ویول مسلمانوں کی نمایندگی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں مسٹر جناح کی ضد اور ہٹ دھرمی کو پہلی شملہ کانفرنس کی ناکامی کا ذمّے دار ٹھہرانے میں حق بجانب ہیں لیکن وائسرائے یہ برملا کہتے ہیں کہ اصل وجہ مسلمانوں کی ہندؤں اور کانگریس پر بے اعتباری ہے ،انھیں یہ خوف لاحق تھاکہ کانگریس چند کٹھ پتلیوں کو استعمال کرکے پورے ہندوستان کی حکمران بنناچاہتی ہے جس میں مسلمان ایک غیر محفوظ اقلیّت بن کر رہ جائیں گے، یہ صرف مسٹر جناح کا واہمہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے''۔ کسی مرحلے پر بھی انگریز حکومت کا جھکاؤقائداعظم یا مسلم لیگ کی طرف نہ ہوا ، اُن کی طرف سے جب بھی مراعات ملیں وہ کانگریس اور ہندو لیڈروںکوہی ملیں۔
مصّنف لکھتا ہے کہ '' شملہ کانفرنس کے بعد وائسرائے لندن جاکر نئے وزیرِ اعظم ایٹلی سے ملا اس نے ایٹلی اورسیٹفورڈ کرپس سے ملکر انھیں اپنے خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مسٹر جناح کو بلاشبہ انڈیا میں ہندو غلبے کا شدید اندیشہ ہے لیکن اگر جناح کی خواہش کے مطابق پاکستان بنتاہے تو اس میںبہت خون خرابہ ہوگااورسکھ کبھی اسلامی پاکستان میں نہیں رہناچاہئیں گے ''۔
''ویول نے نہروکو ملاقات کے لیے بلایا اور اسے باور کرایا کہ ہندوستان کے مستقبل کا دارومدار ہندؤں اورمسلمانوں کے درمیان مفاہمت پر ہے۔ نہرو نے صاف صاف کہہ دیاکہ مسلم لیگ کی موجودہ لیڈر شپ کے ساتھ کسی قسم کی کوئی مفاہمت ، خارج ازامکان ہے۔کیونکہ کانگریسی لیڈروںکے ساتھ مسٹر جناح کارویّہ بڑاسخت ہے۔ ''
(جاری ہے)