رہنمائی کی ضرورت

کافی دنوں سے کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی، بغیر پڑھے نیند نہیں آتی، موضوع کچھ بھی ہو پڑھنے کے لیے مواد...


فاطمہ نقوی December 16, 2013

کافی دنوں سے کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی، بغیر پڑھے نیند نہیں آتی، موضوع کچھ بھی ہو پڑھنے کے لیے مواد چاہیے، کھانے کے بغیر رہا جا سکتاہے مگر پڑھے بغیر نہیں، گھر میں موجود کتابوں کے ذخیرے میں سے جو کتاب ہاتھ لگی اٹھالی، کتاب کا نام نور سرمدی فخر انسانیت تھا، جس میں سیرت پاک کے بہت سارے گوشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

کتاب دلچسپ تھی۔ کچھ پڑھی مگر بجلی جانے کی صورت میں الگ کرکے رکھ لی۔ دوسرے دن آفس لے گئی تاکہ مکمل کرسکوں۔ اس دوران ایک مقامی اخبار میں کالم پڑھا جس میں فتح اﷲ گولن کا ذکر تھا۔ گولن کی شخصیت اور تحریک کے بارے میں پڑھ کر مجھے بھی دلچسپی پیدا ہوئی کہ ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرسکوں۔ آج جب میں نے نور سرمدی کو پڑھنے کا آغاز کیا تو حیرت کا ایک جھٹکا لگا کیوںکہ نور سرمدی فخر انسانیت کو لکھنے والا کوئی اور نہیں، محمد فتح اﷲ گولن ہیں (جس کا ترجمہ محمد اسلام نے کیا ہے) دیکھیں کبھی کبھی پیاسا کنویں کے پاس نہیں جاتا بلکہ کنواں بھی پیاسے کے سامنے آجاتا ہے۔

اناطولیہ کے ایک چھوٹے سے گائوں کوروجک میں پیدا ہونے والے محمد فتح اﷲ گولن نے ترکی کے سیکولر معاشرے میں رہ کر نوجوانوں کی تربیت کا ایسا بیڑہ اٹھایا اور ایسی تحریک کی ابتدا کی جس کا ثانی نہیں ملتا، انھوں نے حکمرانوں کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے بجائے نوجوانوں کی تربیت کا کام شروع کیا۔ انھوں نے اپنے کام کا آغاز ازمیر کی جامع مسجد کتیانہ بازاری سے ملحق مدرسہ تحفیظ القرآن سے کیا اور چلتے پھرتے واعظ کے طور پر کام کرنے لگے، آپ مختلف بستیوں کا دورہ کرتے اور نوجوانوں کو اکٹھا کرکے ان کو اصلاح احوال کے درس دیتے۔ 1976 میں گولن نے نوجوانوں کے تربیتی کیمپ لگانے شروع کردیے جس میں نوجوانوں کو تیار کیا جاتا کہ وہ آیندہ کس طرح ملک و قوم کی بہتری کے لیے کام کرسکتے ہیں۔

ان کیمپوں میں نوجوانوں کو شجاعت، راست بازی، دین پر کاربند رہنے کے طریقے اور مسلمان ہونے کے فرائض سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ مگر حکومت وقت کو گولن کے نظریات سے اختلاف پیدا ہوا، آپ پر الزام لگایا گیا کہ آپ اپنی خفیہ تنظیم کے ذریعے لوگوں کے دینی جذبات کو غلط استعمال کرکے ملکی نظام کی اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی بنیادوں کو تبدیل کررہے ہیں۔ اس جرم میں گولن کو قید وبند کی صعوبتیں بھی اٹھانی پڑیں مگر ان کا جذبہ اور نوجوانوں کی تربیت کا کام ختم نہیں کیا جاسکا بلکہ گولن کے کام کا دائرہ ترکی کے اطراف میں بھی بڑھا دیا گیا۔ آپ نے شہروں شہروں، قریہ قریہ گھوم کر لوگوں خصوصاً نوجوان طبقے کے ذہنوں میں پھیلنے والے متعدد سوالوں کے جوابات دے کر ان کے جذبات کے لاوے کو ٹھنڈا کرنے کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا اور ان کو ملک و قوم کی ترقی کے لیے آمادہ کیا۔

گولن کی علمی قابلیت کی وجہ سے معاشرے کے تمام مکاتب فکر کے لوگ آپ کے گرد جمع ہوگئے اور چھوٹا سا یہ گروہ دنیاوی فائدوں کو پس پشت ڈال کر ترکی کے رائج الوقت قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اصلاح معاشرہ کے پروگرامز پر عمل درآمد کرنے کے اقدامات مہیا کیے، جب ترکی کے لوگ اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ ترکی میں نظام حکومت سیکولر ہو یا مذہبی ان تمام باتوں سے بے نیاز گولن نے ایک جملے میں بات ختم کردی کہ ترکی کی عظیم سلطنت دارالخدمت ہے، کتنا عظیم فلسفہ ان الفاظ میں چھپا ہے۔ فاتح عالم وہ ہی لوگ ہوتے ہیں جو کہ خدمت کرکے لوگوں کے دلوں کو فتح کرتے ہیں۔ انسان کی پیدائش میں بھی فلسفہ خدمت کارفرما ہے۔

اسی لیے قرآن پاک میں جگہ جگہ حقوق العباد کا تذکرہ کیا گیا ہے، گولن کا فلسفہ خدمت ساری دنیا میں پھیلتا گیا اور نوجوانوں کی ایسی نسل تیار ہوگئی جس کا مقصد دوسروں کی خدمت کرنا تھا۔ انھیں کسی معاوضے کی پرواہ تھی نہ ستائش کی تمنا، کسی صلے کی خواہش سے بے نیاز یہ ٹولہ صرف لوگوں کی بلا امتیاز خدمت پر توجہ دیتا رہتا اور آہستہ آہستہ یہ حالت ہوئی کہ گولن کے فلسفہ خدمت تحریک کے لوگوں کا دائرہ وسیع ہونے لگا۔ ان کے افکار و نظریات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہوگئے۔ اس فلسفے کو عام کرنے کے لیے اخبارات ورسائل کا اجرا ہوا، ریڈیو اسٹیشن اور ٹی وی اسٹیشن قائم کیے گئے اور آخر 1990میں فتح محمد گولن نے گفت و شنید، افہام و تفہیم اور تعصب سے پاک ایک قائدانہ تحریک کا آغاز کیا جس کا مقصد فرقہ وارانہ تعصب سے پاک معاشرے کی تشکیل تھا۔ جہاں ہر قوم، ہر مذہب کے لوگوں سے رواداری کا ثبوت دیا گیا۔ گولن کی تحریر کردہ کتابوں کی تعداد 60 سے زائد ہے جن کا دنیا کی 35 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔

دوسری طرف آج ہم پاکستانی معاشرے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ مختلف قوموں، مختلف فرقوں، مختلف زبانوں، مختلف انداز فکر میں بٹا ایک ایسا معاشرہ بن چکا ہے جہاں جس کا جو جی چاہے وہ کررہا ہے، کوئی راہ ایسی نظر نہیں آتی جس پر چل کر معاشرے کی تمام اکائیوں کو ایک لڑی میں پرو دیا جاسکے۔ ہر ایک کی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا راگ، یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے مگر اب ہم انتہا کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں جہاں اپنے سوا کوئی دوسرا برداشت نہیں ہورہا ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کی تباہی کا نکتہ آخر ہے اور ہم اس وقت اس صورت حال سے دوچار ہے، اس وقت ہمیں گولن جیسے کسی ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو کہ پاکستانی معاشرے کے تمام بکھرے ہوئے، بٹے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض لوگوں کو یکجا کردے، ان میں ایک جذبہ، ایک سوچ پیدا کردے، جس کا مقصد صرف پاکستان کو اس بحران سے نکالنا ہو۔

یاد رکھیں نوجوانوں کے ذہن منتشر ضرور ہیں مگر ان کی خواہش ہے کہ ان کو درست سمت پر موڑ دیاجائے، گولن کی تحریک خدمت کی تحریک ہے، آج پاکستانی معاشرے میں بھی خدمت کو اپنا نصب العین بنالیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم پھر سے ایک ایسی طاقت بن جائیں جس کا اقوام عالم میں اچھے الفاظ میں تذکرہ ہو۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم اقوام عالم میں تنہا کھڑے ہیں۔ ہمارے عزیز پڑوسی دوست بھی ہم سے کھنچے کھنچے ہیں۔ جن کی خاطر ہم نے ساری دنیا سے برائی مول لی وہ بھی ہم سے ناراض ہیں۔ کہیں ہمیں مفاد پرست ہونے کا خطاب ملا ہے تو کہیں کرپشن کا تاج پہنا ہوا ہے تو کہیں یہ سمجھا جارہا ہے کہ ہم ڈالروں کے عوض اپنے بھائی کا گلا بھی آرام سے کاٹ سکتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے یہ تصویر کا بڑا بھیانک رخ ضرور ہے مگر حتمی تصویر نہیں ہے۔

ایک رخ ہے جو چھپا ہوا ہے، جب کوئی آفت آتی ہے تو کراچی سے لے کر پشاور تک سب ایک ہوجاتے ہیں اور یہی لوگوں کی خدمت کا رخ ہے۔ انٹر نیشنل ریسرچ کے مطابق پاکستانی سب سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنے والے لوگ ہیں مگر ضرورت صرف ایسی تحریک کی ہے جو ان بکھرے لوگوں کو ایک لڑی میں پرو دیں۔ دھرنوں، جھگڑوں اور اپنے مذموم مقاصد میں استعمال نہ کریں بلکہ افہام و تفہیم، گفت و شنید کا ایسا راستہ اپنایا جائے جس پر چل کر پاکستانی قوم کو عزت و مرتبے کے اس نہج پر پہنچایا جائے جو کہ یہاں کے رہنے والوں کا حق بنتا ہے۔ کاش کہ کوئی گولن پاکستان میں بھی آجائے اور چھا جائے، جس کا مقصد اپنے مفادات کے لیے جینا نہیں بلکہ پاکستانی قوم کو مایوسی کے دلدل سے نکال کر شاہراہ ترقی پر گامزن کرنا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں