اردو کی ماں گوجری

گوجری زبان کو پورے دکن یعنی جنوبی ہند، علی الخصوص گجرات میں کلیدی مقام حاصل تھا۔


سہیل احمد صدیقی September 13, 2020
گوجری زبان کو پورے دکن یعنی جنوبی ہند، علی الخصوص گجرات میں کلیدی مقام حاصل تھا۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر65

ماقبل خاکسار نے، زباں فہمی نمبر 63 میں اس ذیلی موضوع (کی قسط اول) میں اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ (میری معلومات کے مطابق)، مرحوم خاطرغزنوی کی تحقیقی کتاب،''اردو زبان کا ماخذ: ہندکو'' پر کسی ماہرلسانیات یا محقق نے تحقیق یا ردِتحقیق کی زحمت گوارا نہیں کی۔

اس وقت جب نصف شب کو اس موضوع کو سمیٹتے ہوئے تیسری قسط تحریر کررہا ہوں تو پشاور سے ڈاکٹر اسحٰق وردگ صاحب نے فیس بک میسنجر پر مطلع فرمایا ہے کہ اُن کی ڈاکٹریٹ کا موضوع ہے، ''خاطر غزنوی۔ احوال وآثار'' جس میں فاضل ادیب وشاعر کی لسانی تحقیق اور مذکورہ کتاب پر کوئی پینتیس صفحات پر مشتمل مواد شامل ہے۔ بہت مسرت ہوئی یہ انکشاف دیکھ کر کہ موصوف تقریباً پانچ سال پہلے یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں جس کا کتابی شکل میں شایع ہونا ابھی باقی ہے۔

اس کالم کے لیے تحقیق کرتے ہوئے، ایک خلاصہ تحقیق، آن لائن دستیاب ہوا جس میں گوجر قوم کی اصلیت کے متعلق مختلف مباحث نقل کرتے ہوئے لسانی قیاس آرائی کی گئی۔ عنوان تھا:''ریاست جموں و کشمیر میں گوجروں اور بکروَال کی آمد اور اصلیت ''[The Arrival and Origin of Gujjars and Bakarwals of Jammu and Kashmir State] ۔ اس کے مصنف کا نام خورشید احمد بھَٹ ہے اور ان کی یہ تحقیق International Journal of Research in Social Sciences Vol. 7 Issue 11, November 2017میں شامل ہے۔ ان مباحث میں کئی ایک نکات یا انکشافات بہت حیران کُن اور بعض تو بہت بودے معلوم ہوتے ہیں۔

ایک لسانی قیاس یہ ہے کہ گوجروں کا اصل وطن، گُرجِستان تھا (جہاں سے وہ پہلے افغانستان اور پھر ہندوستان میں داخل ہوئے)، جسے ہم جدید دور میں جارجیا [Georgia] کے نام سے جانتے ہیں جو سابق سوویت یونین میں شامل ایک عیسائی ریاست تھی، جبکہ دوسری عیسائی ریاست آرمینیہ /آرمینیا تھی۔ (اس کی ہم نام ریاست، ریاست ہائے متحدہ امریکا کا حصہ ہے)۔ گُرجِستان، درحقیقت، فارسی کا گُرگستان (یعنی بھیڑیوں کی سرزمین) تھا۔ اسی نکتے۔ یا۔ (بصدمعذرت) تُکّے پر تحقیق کی جائے تو دیگر مآخذ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔

اس پر مستزاد یہ کہ کسی بھی مغربی یا مشرقی مؤرخ یا ماہرلسانیات نے گُرجِستانی زبان (Georgian) پر اس طرح تحقیق نہیں کی کہ ہم ایسے طالب علم اس زبان میں رائج قدیم الفاظ وتراکیب، نیزسنسکِرِت اور گوجری سے مشابہ یا مماثل ذخیرہ الفاظ کی بابت جان سکیں اور یہ تصدیق کرسکیں کہ یہی پہلے پہل گوجروں کی زبان تھی۔ اگر کسی نے اس طرف پیش رفت کی ہو اور خاکسار کے علم میں نہ ہو، تو براہ کرم مطلع فرمائیں۔

دوسری لسانی قیاس آرائی یہ ہے کہ گوجروں کا وطن، شیشان یعنی چیچنیا (Chechnya ) کا صدرمقام گروزنی [Grozny] ہے اور یہ پہلے گروزَر کہلاتے تھے۔ یہاں یہ حقیقت نظرانداز ہوگئی ہے کہ چیچن قوم کا دعویٰ ہے کہ اُن کی زبان (داغستانی) دنیا بھر کی زبانوں سے جُدا ہے اور وہ حضرت نوح علیہ السلام کے مومنین کی آل ہیں۔ ماہرین لسانیات اس خاکسار کا چیلنج قبول کریں تو داغستانی کی اصل اور اس سے متعلق تمام موضوعات پر تحقیق کا باب کُھل جائے اور شاید کہیں یہ بات ثابت ہوجائے کہ یہی زبان یکسر بدل کر خطہ ہند جاپہنچی اور شدہ شدہ گوجری بن گئی۔

ایک تیسری لسانی قیاس آرائی (جو نسبتاً زیادہ مقبول نظریہ بن چکی ہے) یہ ہے کہ گوجرقوم اصل میں بُحَیرہ خزر (Caspian Sea) کے کنارے آباد، ترک نژاد قوم تھی، جس کے نام سے یہ سمندر موسوم ہوا۔ اس نظریے کو اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہمارے یہاں بعض گوجر قبائل اپنے آپ کو ترک قرار دیتے ہیں۔

(یہ نام خضر نہیں جو ایک محترم نبی کا نام ہے)۔ 'شاہان گوجر' کے مصنف عبد المک نے ''گوجروں کا خزر قوم کی باقیات ہونے کا دعویٰ محض اس وجہ سے کیا ہے کہ پاکستان کے شمالی حصہ یعنی شمالی پنجاب سرحد اور کشمیر کے گوجروں کا کہنا ہے کہ وہ ترکی النسل ہیں''۔ (وکی پیڈیا)۔ اس خزر کو مغرب و مشرق میں موضوع بحث بنایا گیا تو اس کے مشتقات میں عربی لفظ جزر اور ایک قیاس کے مطابق خَزرَج بھی شامل ہوگیا۔ یہ بھی لکھا گیا کہ عرب کا مشہور قبیلہ بنوخزرج بھی درحقیقت گوجر تھا اور اُن کا آبائی پیشہ وہی تھا جو گوجروں کی مشہور برادری، بکروال کا ہے۔

ماہرین کا یہ خیال بھی دل چسپ ہے کہ گوجروں کی اکثریت، شروع سے جنگ و جدل کی ماہر اور شوقین، مگر پیشے کے لحاظ سے گلّہ بان تھی۔ یہاں وکی پیڈیا کے مرتبین کا یہ تبصرہ بھی خالی از دل چسپی نہیں:''بہرحال گوجروں کے ترکی النسل ہونے میں تو ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

لیکن اس پر اختلاف ہے کہ گوجر خزرالنسل ہیں، کیوں کہ ترکوں کی مغربی سلطنت، جس کی علمبرداری افغانستان کے علاقوں پر بھی تھی، وہ خزروں کی دشمن تھی، اس لیے خزر قوم کا برصغیر کی طرف آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے جو ترک قبائل ساسانی سرحدوں کے قریبی ہمسائے تھے، ان میں ایک قبیلہ غز تھا اور اسی نسبت سے ترک قبائل کو غز بھی کہا جاتا تھا۔ یہ قبیلہ غز کے علاوہ غزر بھی پکارا جاتا تھا اور یہ کلمہ ترکوں کے ناموں میں بھی آیا ہے۔ مثلاً غزرالدین مشہورخلجی التتمش کے دور میں گزرا ہے۔ غزر جو ترک تھے، ہنوں کی شکست کے بعد برصغیر میں داخل ہوئے۔

یہ بہترین لڑاکے، خانہ بدوش اور گلہ بان تھے۔ غالب امکان یہی ہے کہ غزر، ہند آریائی لہجے میں گجر ہو گیا۔ کیوں کہ ہند آریا میں 'غ' 'گ' سے اور 'ز' 'ج' سے بدل جاتا ہے اور گجر کا معرب گوجر ہے۔'' (التتمش نہیں، ایل تتمش جو خلجی نہیں، بلکہ غلامان خاندان کے سلطان تھے)۔ {اب لگے ہاتھوں ایک مزیدار قیاس اس راقم کا بھی ملاحظہ فرمائیں اور ہنسی آئے تو اسے لطیفہ سمجھ لیں۔

چونکہ اس خاکسار نے، پرویزمشرف کے دورآمریت میں، نورانی صورت کے حامل، چیچن مجاہدوں سے نیومیمن جامع مسجد، بولٹن مارکیٹ (کراچی) میں مصافحے کا شرف حاصل کیا (بہت سے دیگر نمازیوں کی طرح ) جو بہت گلابی رنگت کے تھے تو بہت غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اُن سے مشابہ لوگ تو اپنے کشمیری بھائی ہوتے ہیں اور چونکہ وادی جموں وکشمیر کی تیسری بڑی قوم گوجر ہے، لہٰذا ہم بہ آسانی یہ قیاس تسلیم کرلیتے ہیں کہ گوجروں کا اصل وطن گروزنی ہی تھا۔ اب کیا خیال ہے، مجھے بھی اس لسانی بحث میں کوئی اہم مقام ملنا چاہیے؟؟....یہاں یہ غیرسیاسی مضمون نگار، یہ وضاحت کرتا چلے کہ آمر موصوف نے جہاں اور U-turn لے کر، شہرت و رسوائی سمیٹی، وہیں یہ معاملہ بھی تھا کہ اپنے دوست بیرسٹر ثمین خان سے کہہ کر Pak-Chechen Friendship Association بنوائی۔

اُن غریبوں کی امداد کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر بہت جلد سامراجی دباؤ کی وجہ سے اُن کے خلاف مہم جوئی شروع کردی۔ ویسے وہ ''ڈرتے، ورتے کسی سے نہیں'' تھے۔ یہ وہ خوف ناک حقیقت ہے جس سے آج کے بہت سارے ''میڈیا بھونپو'' بالکل بھی واقف نہ ہوں گے}۔ ہرچندکہ بقول مؤرخ گوجراں، حسن علی چوہان کے بیان کے مطابق، رامائین میں گوجر کے معنی غازی، دلیر اور محافظ کے آئے ہیں۔ وکی پیڈیا نے یہ مشہور قول بھی نقل کیا ہے کہ گوجر دراصل کھشتری/ کشتری /کھتری ہیں جو بعد میں گوجر کہلانے لگے۔

نیز سورج بنسی، چندر بنسی، چوہان، چالوکیہ، پڑھیار/پڈھیار، پنوار اور راٹھوروں کو گوجر قرار دیا گیا، حالانکہ اُن اقوام نے کبھی گوجر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی گوجروں نے کبھی ان اقوام سے اپنا نسلی تعلق ہونے کا دعویٰ کیا ہے.......اس سے یہ معاملہ مزید گنجلک ہوجاتا ہے۔ گوجر یا گُجر قوم کے ہندوستان میں کئی شہر اور مقامات زمانہ قدیم سے قایم اور مشہور ہیں۔

جن میں سر فہرست گجرات (ہندوستان) اور گجرات (پنجاب، پاکستان) ہیں، جبکہ دیگر مقامات میں گوجرانوالا اور گوجر خان شامل ہیں۔ گجرات (ہندوستان)، مغل تاجدار جلال الدین اکبر کے عہد میں آباد ہوا اور روایت کے مطابق اُس نے ایک قلعہ بنا کر اس میں گوجروں کو آباد کیا جو گجرات کہلایا۔ ایک جگہ یہ روایت بھی نظر سے گزری کہ ناصرف 1857ء تک یوپی کے کئی علاقے بشمول سہارن پور، گجرات کا حصہ تھے۔

بلکہ ایک بیان کے مطابق، سہارن پور کو بھی گجرات کہا جاتا تھا۔ {اگر یہ سچ ہے تو اس کے ساتھ جُڑی ہوئی یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ سہارن پور، گوجری کے ایک رُوپ یعنی کھڑی بولی/دہلوی کے مراکز میں شامل تھا جہاں آج بھی مضافات میں اس کی باقیات ملتی ہیں۔

اکثر محققین کے نزدیک، اردو کی ماں گوجری کی یہی بولی ہے اور اسی بولی سے رانگڑی کا بھی رشتہ ہے۔ بات تکرار کے زمرے میں آئے گی، مگر کہنا ضروری ہے کہ ناصرف یہ، بلکہ، میواتی، ہریانوی اور راجستھانی اسی گوجری کی متبدل شکلیں ہیں، جبکہ گجراتی کی بابت پہلے عرض کرچکا ہوں کہ وہ ابتداء ہی میں الگ ہوکر زبان کی حیثیت سے ترقی کرنے کے سبب، مختلف ہوچکی ہے۔

موجودہ ہندوستان کی ریاستوں (صوبوں) ہماچل پردیش، ہریانہ، پنجاب، اتراکھنڈ، راجستھان، گجرات، نیز دہلی اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں گوجری زبان بولنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، (وہاں تو چھٹی سرکاری زبان ہے)، پاکستان کے مختلف علاقوں بشمول ہزارہ کے علاوہ، گلگت بلتستان اورآزاد جموں وکشمیر، افغانستان (نورستان، ننگرہار، جلال آباد، قندھار سمیت کم وبیش ایک درجن علاقوں)، ایران، روس اور چین کے بعض علاقوں میں بھی گوجری کا رواج ہے جن کا ذکر ماقبل کرچکا ہوں۔ آزادی کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے گجر، ارائیں اور راجپوت بھی گوجری بولتے ہیں۔

افغانستان میں گوجری پڑھائی بھی جاتی ہے اور ایک گوجری ہفت روزہ بھی نکلتا ہے}۔ پاکستان سے یوں تو گوجری زبان وادب سے متعلق تحریر وتحقیق کا کام پچھلے چند سالوں میں بہت ہوا ہے، لیکن کسی گوجری اخبار یا رسالے کی اشاعت ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی۔

البتہ ہمارے صوبہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ، گوجری کے تعلیمی نصاب کی بھی منظوری دے دی ہے۔ گوجری میں قرآن کریم کے چار تراجم ہوچکے ہیں جن میں حافظ محمدامین خان المَدنی (ناشرجمعیت اہل حدیث، مقبوضہ جموں و کشمیر) اور مفتی فیض الوحید (ناشر ادارہ مرکز المعارف، بٹھنڈی، مقبوضہ جموں و کشمیر) کے تراجم شایع ہوچکے ہیں، جبکہ مولانا عبدالرحیم ندیم اور جناب بشیر احمدقمر، سابق ڈائریکٹر پی ڈبلو ڈی کے تراجم غیرمطبوعہ ہیں (دونوں کا تعلق آزاد جموں وکشمیر سے ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ وکی پیڈیا میں قرآن کریم کے گوجری تراجم کا ذکر درج نہیں)۔ گوجری زبان کی لغت، لوہکی گوجری ڈکشنری کے نام سے ڈاکٹر جاوید راہی صاحب، مدیراعلیٰ کے زیراہتمام جموں وکشمیر (مقبوضہ) اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگوئجز نے مرتب کرکے شایع کی۔

جبکہ جامع گوجری انگریزی لغت مرتب کرنے کا اعزاز ڈاکٹر ایم آر انجم کو حاصل ہوا، یہ دونوں لغات آن لائن دستیاب ہیں۔ ۲۰۱۷ء میں وادی مقبوضہ جموں وکشمیر سے اولین ہفت روزہ اخبار بعنوان ''رودادِقوم''، (راجوری، مقبوضہ جموں سے) شایع ہونے لگا ہے جس کے مدیر شوکت نسیم ہیں۔ ان کے والد محترم اسرائیل اثر صاحب گوجری زبان کے محسنوں میں شامل تھے جنھوں نے اس اخبار کی ناشر، انجمن گوجری زبان وادب، دھرم سال، کالا کوٹ (مقبوضہ جموں) قایم کی تھی۔ گوجری زبان کے متعلق گفتگو کا سلسلہ دراز کرنے سے پہلے، اس قوم سے منسوب مقامات کی بات ہوجائے۔

پنجاب، پاکستان کے مشہور شہر گجرات کی بنیاد، وادی گنگا کے راجہ بچن پال نے رکھی اور اسے اودے نگری کا نام دیا۔ لودی خاندان کے فرماں رَوا، سلطان بہلول لودی (نہ کہ لودھی) نے اسے پرگنہ سیال کوٹ سے جدا کرکے، اپنے نام کی نسبت سے ''بہلول نگر'' کا نام دیا۔

مغل بادشاہ اکبر کے عہد میں اس کا نام پہلے گوجرجاٹ اور پھر بگڑکر گجرات ہوگیا۔ پہلوانوں اور کبڈی باز کھلاڑیوں کا شہر، نیز مہاراجہ رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش گوجرانوالا، عہدمغلیہ میں کسی خان نامی ایک جاٹ نے آباد کیا، اسی لیے اس کا قدیم نام خان پور تھا۔ ( یہ حکایت ناقص ہے، کیونکہ بانی کا نام ہی ادھورا ہے)۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مکان اور محل، نیز اُس کے والد مہان سنگھ کی سمادھی، اس شہر میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سکھا شاہی میں اس شہر نے بطور ضلع خوب ترقی کی۔ ایک اور اہم شہر گوجرخان ہے جسے روایت کے مطابق، مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں گوجرخان نامی گکھڑ سردار نے آباد کیا۔

ہاکی کے میدان میں، ایک زمانے تک گوجرہ کے کھلاڑیوں کی بڑی دھوم مچی اور ایک وقت تھا کہ ہماری قومی ٹیم کے گیارہ میں چھے یا سات کھلاڑی گوجرہ کے ہوا کرتے تھے۔ ۱۸۹۹ء میں آباد ہونے والا یہ شہر گوجروں کی کثیر آبادی کے سبب، گوجرہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ (اردوجامع انسائیکلوپیڈیا، جلد دوم، ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز: ۱۹۸۸ء)۔ کراچی کے سب سے بڑے نالے کا نام گُجر نالہ ہے جس پر عشروں سے قایم، ناجائز اور غیرقانونی تجاوزات کے سبب، شہر میں کئی بار طغیانی برپا ہوچکی ہے۔ جہاں تک گوجری کا روپ، قدیم اردو ہماری کتب میں محفوظ ہے۔

گوجروں نے ہندوستان کے طول وعرض میں کم وبیش آٹھ سو سال حکومت کی اور انھی کی سرکاری سرپرستی میں گوجری زبان کو پورے دکن یعنی جنوبی ہند، علی الخصوص گجرات میں کلیدی مقام حاصل تھا۔ اس زبان کی ادبی حیثیت سترہویں صدی تک مُسلّم رہی۔ 'جب دکن میں اردو کے نئے مراکز ابھرے تو وہاں کے اہل علم و ادب نے قدرتی طور پر گوجری ادب کی روایت کو اپنایا۔

دکن میں جب اردو کا چرچا ہوا اور اسے سرکاری دربار کی سرپرستی حاصل ہوئی تو وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کی نظر گوجری ادب پر ہی گئی اس ادب کو معیار تسلیم کر کے انہوں نے اس ادب کے تمام عناصر کو اپنے ادب میں جذب کرلیا''۔ ('تاریخ اردو ادب'' ازڈاکٹر جمیل جالبی)۔ اس عہد میں گوجری/اردو زبان میں نظم ونثر تخلیق کرنے والے نامور اہل قلم (خصوصاً صوفیہ کرام) میں سید نورالدین ست گرو (متوفیٰ ۱۰۹۴ھ)، شیخ عبدالقدوس گنگوہی (۱۰۴۵ھ) حضرت امیر خسرو، شاہ میراں جی، شاہ باجن، شاہ علی محمد جیوگامدھنی (۱۵۶۵ء)، برہان الدین جانم (۹۹۰ھ)، قاضی محمود دَریائی (۱۵۳۴ء)، میاں مصطفی (۱۵۷۶ء)، شیخ خوب محمد چشتی گجراتی (۱۰۲۳ھ)، جگت گرو، مظفرخان اور امین گجراتی کے نام قابل ذکر ہیں۔ شیخ خوب محمد چشتی گجراتی کا ایک نعتیہ شعر ملاحظہ فرمائیں: ایک عکس پھر عکس جو پائے+یہی ابوالارواح کلہائے (کہلائے) ]عقیدت کا سفر از حمایت علی شاعر[۔ مضامین اختر جوناگڑھی (ازقاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی سے اقتباسات نقل کیے بغیر عرض کرتا ہوں کہ انھوں نے بھی گوجری / اردو کی بابت تحقیق کی، گو اُن کا رجحان گجراتی کی طرف زیادہ رہا)

کہا جاتا ہے کہ ۱۵۷۲ء میں مغل بادشاہ اکبر کے حملہ گجرات کے نتیجے میں گوجری کو زوال ہوا اور یہاں سے دکن یعنی حیدرآباد وغیرہ کو نقل مکانی کرنے والوں نے عربی و فارسی کے زیراثر مختلف زبان کو فروغ دیا، ان کی بڑی تعداد نے ہمالیہ کا رخ کیا تو وہاں یہ زبان اپنی اصل شکل میں برقرار رہی، جبکہ مغل سلطنت کے زیرسایہ اسی کا روپ نکھر کر اردو بنتا چلاگیا۔ (گوجری کے لسانی وادبی مطالعے ازمحمد نذیر مسکین)۔

یوں تو گوجر مشاہیر علم وفن کی فہرست اچھی خاصی طویل ہے، مگر خاکسار جگہ کی تنگی کی وجہ سے فقط یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے لیے سب سے محترم ہستی، نقاشِ پاکستان، چودھری رحمت علی کی ہے جو گوجر برادری کے لیے بھی باعث افتخار ہے۔ اس سلسلہ مضامین برموضوع ''اردو کی ماں: گوجری؟'' کے لیے محترم حق نواز احمدچودھری (عباس پور، آزاد کشمیر) اور پروفیسر جمیل احمد کھٹانہ (معلم گورنمنٹ بوائز کالج، تحصیل ڈڈیال، ضلع میرپور، ریاست آزادجموں و کشمیر/مقیم لاہور) کے خصوصی تعاون پر صمیم قلب سے شکرگزار ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں