ریلوے وینڈنگ اور ڈائننگ کار ملازمین کہاں جائیں
ریلوے کا نام آتے ہی مسافروں کا پہلا واسطہ لال رنگ کا کرتا پہنے ہوئے نمبرقلی یا لوڈرسے پڑتاہے جن کاکوئی پرسان حال نہیں۔
ریلوے کے بارے میں بہت کچھ لکھا کئی ایک ٹی وی چینلز پر انٹرویوز بھی دیے مگر ریلوے کی حالت بہتر ہونے کی بجائے خراب ہی ہوتی جارہی ہے۔
ریلوے کا نام آتے ہی مسافروں کا پہلا واسطہ لال رنگ کا کرتا پہنے ہوئے نمبر قلی یا لوڈر سے پڑتا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں مسافروں کا سامان اٹھاتے نظر آتے ہیں پہلے یہ قلی اپنی مزدوری خود طے کرتے تھے اور ماہانہ مخصوص رقم ٹھیکیدار کو ادا کرتے تھے اور کہیں کہیں ریلوے پارسل کا سامان چڑھانے اور اتارنے میں ریلوے بھی کچھ رقم ان کو ادا کرتی تھی مگر اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ قلی ٹھیکیدار کے ملازم ہیں 100 روپے کمانے پر 40 روپے ٹھیکیدار کو دینا پڑتا ہے اس کے نمبر پلیٹ لینے کے لیے بھی رقم دینا پڑتی ہے اور اپنا لباس بھی خود ہی بنانا پڑتا ہے؟ خیر ان کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔
اب میں آتا ہوں اسٹیشن پر بنے ہوئے ٹی یا چائے کے اسٹال کولڈ ڈرنک کے علاوہ دیگر اسٹال جو کراچی تا پشاور اور کوئٹہ پلیٹ فارم پر موجود ہیں ان کی تعداد کل پانچ ہزار ہوگی اور اس کے بعد ریلوے گاڑیوں میں ڈائننگ کاروں کے ملازمین جو کچن سمیت ڈائننگ کار میں بیٹھے ملازمین کو کھانا اور چائے پیش کرتے ہیں باقی ویٹر گاڑیوں کے ڈبوں میں گھوم گھوم کر چائے ناشتہ کھانے کی آوازیں لگا کر اپنا کام کرتے ہیں اسی طرح کولڈ ڈرنک کی بوتلوں والے اپنی بالٹی میں کولڈ ڈرنک اور جوس کے ڈبے فروخت کرتے ہیں ان کے بارے میں نہ مسافر کچھ جانتے ہیں نہ ریلوے کے افسران اور نہ ہی حکومت کے ارکان۔
انھیں معلوم نہیں کہ انھیں کتنی تنخواہ ملتی ہے یا کیا کمیشن ملتا ہے یہ ٹھیکیدار کے ملازم ہیں یا ریلوے ملازم ہیں یہ تو بے چارے ٹھیکیدار کے بھی پیٹی ٹھیکیدار کے ملازم ہیں ریلوے پولیس، ریلوے گارڈ اور ٹکٹ چیکر STE والوں کی بھی خدمت کرتے ہیں۔ اعلیٰ افسر آجائے تو اس کے کمرے کے آس پاس ایک ویٹر موجود رہتا ہے۔ ان ملازمین کے لیے کوئی قانون ہی نہیں بنایا گیا۔ سوچل سو چل لگا رہا۔ جو ریل سے گر گیا کٹ گیا، مر گیا، کوئی معاوضہ نہیں، ٹھیکیدار چاہے تو 5 یا 10 ہزار دے دیتا ہے۔ خیر ظلم ہوتا رہا اور یہ سہتے رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قانون سازی ہوئی اور انھیں بھی یونین سازی کا حق مل گیا اور یوں پہلی مرتبہ 1974 میں ان کچے اور ٹھیکیداروں کے ملازمین نے آل پاکستان ریلوے کیٹرنگ اور ویڈنٹنگ ورکرز یونین بنائی اور NIRC13 H/74 میں رجسٹرڈ کرائی اور سودے کار ایجنٹ مقرر ہوگئی یعنی (CBA)۔ وقت گزرتا گیا اس وقت اسٹیشن پر اسٹالوں پر 10 ہزار کے قریب ملازم تھے جو سب عارضی تھے اور ریلوے کی چلتی پھرتی ٹرینوں میں 1500 ملازمین تھے پھر ان ڈائنگ کاروں کو ٹھیکہ پر دے کر ملازمین ان کے حوالے کردیے گئے اور ان کو کھانے، ناشتہ، چائے پر پانچ فیصد کمیشن ملا کرتا تھا کھانا پینا رہنا گاڑی میں ہوتا تھا۔ 18 گھنٹے نوکری ہوتی تھی باقی کچھ نہیں ملتا تھا نہ چھٹی، نہ میڈیکل اور عید بقر عید پر بھی کام کرنا پڑتا تھا۔
بعد میں یونین نے ٹھیکہ داروں سے معاہدہ کیا اور کمیشن بارہ فیصد ہو گیا خیر انھوں نے اپنے مطالبات آگے بڑھانے کے لیے بڑی جدوجہد کی اور ہڑتالیں بھی کیں مگر نہ ٹھیکہ دار مانے اور نہ مالکان اور نہ ریلوے انتظامیہ۔ خیر یہ کام کرتے رہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے نئے نئے قوانین بنائے سوشل سیکیورٹی کا نظام کم ازکم تنخواہ کا نظام مرنے اور کٹ جانے پر بھی قانون بنا۔ مگر یہ محروم رہے۔ دوسرے معاہدے کے تحت اب ان کو پندرہ فیصد کمیشن ملتا ہے نہ ان کو سوشل سیکیورٹی کی سہولت ہے اور نہ علاج معالجہ نہ بونس اور نہ تنخواہ۔ بس پندرہ فیصد کمیشن پر کام جاری ہے۔
کئی ایک بوڑھے ہوکر ملازمت سے فارغ، کئی ایک مر گئے کچھ ریل سے کٹ گئے نہ کوئی معاوضہ نہ انشورنس اور نہ مالی امداد۔ آخر انھوں نے ہماری یونین سے 2012 میں الحاق کرلیا اور پھر ہم نے ریلوے انتظامیہ چیف کمرشل منیجر اور ٹھیکیداروں سے رابطہ کیا یونین کے جنرل سیکریٹری خواہ محمد جلیل نے چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ کو بھی خط لکھ کر اپنا دکھ درد بیان کیا مگر کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ پھر ہم نے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی سے ملاقات کی اور ان ملازمین کے مسائل اور مطالبات سے آگاہ کیا۔
چیئرمین سینیٹ نے ہمیں اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس بلانے کے احکامات جاری کیے اس طرح ہم نے 15 رکنی وفد کے ہمراہ اسلام آباد کا رخ کیا اور راولپنڈی اسٹیشن پر جمع ہوئے ہم نے ستمبر 2015 میں سینیٹ کے چیئرمین سے ملاقات کی جن میں ڈائنگ کاروں کے رہنما صدر مقصود حسین شاہ جنرل سیکریٹری خواجہ محمد جلیل، رحمت علی اور شیخ جمیل کے ساتھ ریلوے ورکرز یونین کے رہنما تھے اور چیئرمین سینیٹ نے وفد سے مسائل سن کر ریلوے انتظامیہ سے ڈائنگ کاروں کے مالکان ٹھیکیداروں سمیت پنجاب اور سندھ حکومت کے سوشل سیکیورٹی اور متعلقہ حکام کو فوری احکامات جاری کیے کہ ان ملازمین جوکہ ایک ہزار کی تعداد میں ہیں فوراً سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی کے قانون کے مطابق رجسٹرڈ کیا جائے ان کی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ماہانہ تنخواہ دی جائے اور ان کے جائز مسائل اور مطالبات حل کیے جائیں۔
بعدازاں حکومت پنجاب نے یونین رہنماؤں کو بلایا اور پھر ٹھیکیداروں کو بلا کر اجلاس کیے مگر تاحال 2020 آگیا ہے۔ تین ماہ ریل گاڑیاں بند رہیں اب چالیس ٹرینیں چل رہی ہیں مگر دو چار ٹرینوں کے علاوہ کسی بھی ٹرین میں ڈائنگ کار نہیں ہے۔ بس صرف کچن کے لیے پاور پلانٹ کے ساتھ ایک پورشن دے دیا گیا ہے جہاں سے ویٹر ناشتہ، چائے، کھانا اپنے کندھوں پر رکھ کر ایک سے دوسرے اور پھر تیسرے اس طرح 15 یا 16 بوگیوں میں چل کر مسافروں کو کھانا چائے پہنچاتے ہیں اور پندرہ فیصد کمیشن پر کام کر رہے ہیں۔
نجانے ان کے معمولی سے مطالبات کب پورے ہوں گے زیادہ تر مالک یا ٹھیکیدار پنجاب لاہور اور راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں نہ انھوں نے انھیں ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کرایا ہے اور نہ سوشل سیکیورٹی میں داخل کرایا ہے اس طرح یہ آج بھی بے یار و مددگار ہیں ان کی فریاد کون سنے گا۔ عدالت، حکومت، ریلوے انتظامیہ یا ڈائنگ کار مالکان یا ٹھیکیدار یا پھر سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی والے۔ شاید اللہ ہی کچھ سن لے۔ اب ان کے مطالبات دیکھ لیں:
(1)۔ تمام ڈائنگ کاروں کے ٹھیکیدار کسی ملازم کو لیٹر آف اپائنمنٹ نہیں دیتے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
(2)۔ ہمارے اوقات مقرر کیے جائیں ہم سے 18 گھنٹے نوکری لی جاتی ہے جب کہ 24 گھنٹے اپنی ڈیوٹی پر رہنا پڑتا ہے۔
(3)۔ ہمارا کمیشن 15 فیصد بڑھایا جائے اور یہ کمیشن 20 برس سے جاری ہے کوئی تنخواہ اور مراعات نہیں دی جاتی جب کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی کمیشن ایجنٹ سے روزانہ 18 گھنٹے ڈیوٹی نہیں لی جاتی۔
(4)۔تمام ٹرینوں میں ڈائنگ کار سروس بحال کی جائے اور جدید خطوط پر کچن کا سامان مہیا کیا جائے۔
(5)۔ ہم تمام ٹھیکیداروں کا خیال رکھتے ہیں اور ساتھ تمام مسافروں کو عزت کے ساتھ کھانا چائے اور پانی پیش کرتے ہیں۔
(6)۔ ہماری تنخواہ مقرر کی جائے ہفتہ واری ریسٹ دیا جائے۔ ہاتھ پاؤں کٹنے، آگ لگنے اور فوت ہو جانے والے کو معاوضہ دیا جائے۔
یہ ہیں وہ باتیں جو میں ایک عرصے سے سوچ رہا تھا مگر تحریر میں نہ لا سکا۔