نظام تعلیم اور غربت وافلاس
پاکستان کی معاشرتی و سماجی تنزلی کی وجہ ہی ناقص تعلیم ہے اس کے ذمے دار والدین اور اساتذہ ہیں۔
غربت وافلاس نے پڑھے لکھے اور ایمان دار لوگوں کو معمولی نوکریاں کرنے پر بے بس کردیا ہے، جائیں تو وہ کہاں جائیں۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنے مفاد کے لیے ہر دو چار ماہ بعد اساتذہ کو ملازمت سے نکال کر نئے لوگوں کی بھرتی کر لیتے ہیں اور دس، پندرہ ہزار تنخواہ دے کر اپنا فائدہ اور طلبا کی تعلیمی سرگرمیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اس عمل سے طلبا کی پڑھائی میں دلچسپی کم ہوتی چلی جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زیادہ تر طالب علم اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر فیل ہو جاتے ہیں جس کی فیسوں کی ادائیگی عام انسان کے بس میں ہرگز نہیں ہے لہٰذا متوسط طبقے کے لوگ سرکاری اور محلے گلیوں میں کھولے گئے چھوٹے اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں ان اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر یا مسٹریس اور منتظمین مخلص اور دیانت دار ہوں تو بچوں کا مستقبل سنور جاتا ہے، جب کہ بڑے اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے کچھ طلبا بے جا آزادی حاصل کرنے کی وجہ سے بربادی کی راہ کو اپنا لیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں سالہا سال سے نظام تعلیم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی باتیں تو ہوتی رہی ہیں لیکن ان اصول و ضوابط پر عمل نہیں کیا گیا۔ اسی وجہ سے ملک کی صورت حال ابتر ہے، اساتذہ اور دوسرے اداروں میں کام کرنے والے حضرات بھاری رشوت دے کر بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں ایسے لوگ تعلیمی صلاحیت، قابلیت سے نابلد ہوتے ہیں، جس طرح خود پتلی گلی سے داخل ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح دوسروں کو مواقع دیتے ہیں اور اس کے عوض لاکھوں، کروڑوں کما لیتے ہیں۔ ملزمان کے عیب فاش ہونے کے باوجود انھیں سزائیں دینے کی بجائے باعزت بری کر دیا جاتا ہے یہاں بھی صورت حال رشوت اور تعلقات کی برتری کے حوالے سے سامنے آتی ہے اور حق دار کو اس کے حق سے محروم کر دیتی ہے۔ لہٰذا اس صورت حال سے احساس کمتری و برتری نے جنم لیا۔
امرا کے بچے مکمل آزادی کے ساتھ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے اور انعامات و اعزازات حاصل کرتے جب کہ دوسری طرف کے حالات قابل افسوس تھے اور ہیں، غربت و افلاس کے باعث ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکی اور دو چار جماعتیں پڑھ کر محنت مزدوری کے چکر میں ایسا پھنسی کہ نکلنا ناممکن ہو گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے ہی خطاب میں ملک میں یکساں نصاب تعلیم پر زور دیا تھا اور مدارس میں بھی جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کے مضامین پڑھانے کے بارے میں آگاہی دی تھی اور لازمی قرار دیا تھا تاکہ مدارس کے طلبا جدید تعلیم سے مکمل طور پر استفادہ کرسکیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے نصاب میں تبدیلی کے لیے راہیں ہموار کیں اور خاتم النبینؐ کا سبق قرآنی آیات اور اسلامی تاریخ کو شامل کرایا ۔ اللہ کرے کہ اس پر مکمل طور پر عمل کیا جائے، اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس میں خیر کی تعلیم دی گئی ہے جبر و قہر، ظلم اور غیر انسانی رویوں کو اپنانے والوں کے لیے سخت ترین سزائیں مقرر ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو دوسرے ممالک میں اسلامی تعلیمات پر ہی عمل کیا جاتا ہے، وقت کی پابندی، قوانین کی پاسداری، ناپ تول میں دیانت داری، ایک دوسرے کی مدد، پڑوسیوں کے حقوق غریب و نادار کے لیے وظائف، دودھ پیتے بچوں کے لیے خصوصی فنڈز، ضعیف و بے روزگار لوگوں کے لیے ماہانہ امداد اور مفت علاج کی سہولتیں موجود ہیں ہمارے بے شمار پاکستانی اپنے ملک کو برا اور بیرون ممالک کے طور طریقوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ خود اپنے ملک میں قانون کی پاسداری کیوں نہیں کرتے ہیں۔
غریب اور بیوہ کا حق بغیر ڈکار لیے نہ صرف یہ کہ ہضم کر جاتے ہیں بلکہ قتل و غارت کا بازار سجا دیتے ہیں، ماہ رمضان میں مہنگے داموں چیزیں فروخت کرتے ہیں کسی آفت و وبا کے موقع پر ضرورت مندوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر معمولی اور سستی اشیا کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیتے ہیں، اگر وہ یہ اپنا گھٹیا ترین کردار دیار غیر میں ادا کریں تو فوری طور پر سزا کے حق دار ٹھہریں گے اور خوب ٹیکس لگے گا کہ دن میں تارے نظر آجائیں گے لیکن اپنے ملک میں پرواہ نہیں، وہ جانتے ہیں کہ قانون و عدالت اور پولیس اہلکاروں کو بہت آسانی سے خرید لیا جاتا ہے جو بدعنوان اور مفاد پرست ہیں۔
پاکستان کی معاشرتی و سماجی تنزلی کی وجہ ہی ناقص تعلیم ہے اس کے ذمے دار والدین اور اساتذہ ہیں۔ آج پاکستانی لڑکے لڑکیاں بہت آسانی سے کسی چھوٹی یا بڑی بات پر خودکشی کرلیتے ہیں، کتنے کیسز ان طلبا کے سامنے آئے ہیں، جن کے امتحان میں نمبر کم آنے یا فیل ہوگئے، والدین کی ڈانٹ سے بچنے کی وجہ سے انھوں نے زندگی کا خاتمہ کرلیا، حال ہی میں ڈاکٹر ماہا اور پی ایچ ڈی کی طالبہ کی خودکشی کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں، دونوں کی خودکشی کی وجوہات مردوں کا غیر اخلاقی اور غیر انسانی سلوک ہے ایسے وحشیوں کو سر بازار پھانسی لگانے کی ضرورت ہے۔
یہ دونوں ہی خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور تھیں، ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اپنے والدین کا اعتماد حاصل نہیں تھا اور نہ کسی اور کا، ورنہ تو ابتدا ہی میں تمام حالات اپنے والدین کو بتا کر قانونی چارہ جوئی کرنے کی ضرورت تھی، اس طرح کے سانحات کے تناظر میں یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر مکمل توجہ دیں اور انھیں اس بات کا یقین دلائیں کہ ان سے بڑھ کر ہمدرد اور مددگار دوسرا نہیں ہو سکتا ہے اور وہ اپنی ہر غلطی ہر راز شیئر کریں تاکہ مسئلے کا حل مل جل کر سوچا جائے اور ان درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دینا لازم ہے۔