ناروے ہیوی واٹر اور جرمنی
ناروے میں یہ دلچسپ مشاہدہ بھی ہوا کہ بے شمار لوگ بائیسکل چلاتے ہیں۔
چند سال قبل ناروے کے سپانسرڈ دورہ یادآیا۔ اس وقت ناروے میں پاکستانیوں کی تعداد 60 ہزار سے تو تجاوز کر گئی ہے کیونکہ پندرہ سال قبل مجھے اوسلو میں ملک پرویز نے تعداد پچاس ہزار بتائی تھی۔
مذکورہ دورے میں میرے علاوہ بھی اہم شخصیات کو وہاں کی پاکستانی تنظیم نے مدعو کیا تھا۔ ایک ہال میں اسٹیج کے علاوہ دس پندرہ ہزار کرسیاں تھیں۔ تقریب سے میں نے بھی خطاب کیا تھا۔ اُس وقت جنرل مشرف نے نیا نیا اقتدار حاصل کیا تھا۔ میں نے مارشل لاء کے خلاف تقریر کی باوجویکہ میں سرکاری ملازم بھی تھا، میری توقع کے خلاف میرے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں ہوئی۔
کھاریاں کے ایک دیہاتی دورے کے دوران مجھے بہت سی رہائشی عمارتیں نظر آئیں لیکن میری نظر میں ان کی آرکیٹکچرل ویلیو صفر تھی۔ یہاں ناروے میں مقیم گجرات کے شہریوں نے اپنی جنم بھومی میں ایک مکان ضرور بنوایا ہوتا ہے۔ ایسے اکثر مکان بے آباد ہی رہتے ہیں اور ان کے دروازے مالک مکان کی دو چار سال بعد وزٹ ہی پر کھلتے ہیں۔ میرے ڈرائیور نے ایک بینک کے آگے گاڑی کی تو اندر سے ایک شخص نکل کر آ گیا، یہ ملک پرویز تھا۔ ملک پرویز پچاس سال قبل پاکستان سے ناروے آ گیا تھا اس نے اپنی موٹر کار میں خوب گھمایا ۔
ایک روز وہ ڈھائی گھنٹے کی ڈرائیو پر مجھے Rujukan نامی علاقے میں لے گیا۔ وہاں ایک میوزیم تھا جس میں فوجی وردیاں، بندوقیں اور فوجیوں کے زیر ِ استعمال فلاسکیں اور دیگر اشیاء کا ڈسپلے تھا۔ بتایا گیا کہ دوسری جنگ ِ عظیم کے دنوں میں Rajukan میں HeavyWater دریافت ہواتھا۔ جرمنی نے یہ Water اور علاقے قبضے میں کرنے کے لیے وہاں اپنی فوجیں اُتاریں کیونکہ ایٹم بم کی تیاری کے لیے ہیوی واٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔
جرمن فوج کا منصوبہ نارویجین فوج نے ناکام بنا کر ان پر فتح پائی اور ان سے حاصل شدہ سامان کو ایک عمارت بنا کر اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ میرے اسکول کے دسویں جماعت کے چار پانچ کلاس فیلو ایک روز اچانک اسکول اور شہر سے غائب ہو گئے۔ ان میں ایک منیر شیخ نام کا لڑکا میرا قریبی دوست تھا۔ منیر کے والدکی سیالکوٹ ڈرموں والے چوک میں سائیکلوں کی دکان تھی۔ ناروے میں مجھے منیر شیخ کا فون نمبر مل گیا اور رابطہ ہونے پر اس نے مجھے کوپن ہیگن جا کر ملنے کی دعوت دی۔
منیر سے میرے تعلقات اتنے قریبی رہے تھے کہ میں نے اس کے ملک جانے کا ارادہ کر لیا۔ منیر شیخ کے پاس جانے کے لیے میں نے ٹرین کا انتخاب کیا۔ روانگی کے دو گھنٹے بعد اعلان ہوا کہ ٹرین اب سمندر میں بھی پٹڑی پر چل رہی ہے اور اگلا ایک گھنٹہ اسی پٹڑی پر چلے گی اور مسافر اس دوران ڈیوٹی فری شاپنگ کر سکتے ہیں۔ مجھ پاکستانی کے لیے یہ انوکھا تجربہ تھا۔ منیر مجھے لینے ریلوے اسٹیشن آیا ہوا تھا۔ گھر پہنچے تو اس نے بتایا کہ وہ دوست جرمنی میں ملازمت تلاش کر رہے تھے کہ ایک سکھ سردار نے انھیں کوپن ہیگن جانے کا مشورہ دیا جو ان کے لیے مفید رہا۔
نو جماعت پاس لڑکوں کو فیکٹریوں میں ملازمت مل گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حصول ِ ویزہ کی آج کل جیسی مشکلات نہیں تھیں۔ انڈر میٹرک منیر شیخ نے فیکٹریوں میں مزدوری کر کے روزگار کمایا لیکن اس کے بچوں نے اچھی تعلیم حاصل کر کے اچھی جگہوں پر ملازمتیں کیں اور خوشحال ہیں۔ لیکن اب میرا منیر شیخ سے بھی رابطہ نہیں۔ یہ ہے وہ زندگی جس میں کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں لیکن ،
دائم آباد رہے گی دنیا/ ہم نہ ہونگے نہ کوئی ہم سا ہو گا
ناروے میں یہ دلچسپ مشاہدہ بھی ہوا کہ بے شمار لوگ بائیسکل چلاتے ہیں۔ سائیکلوں کی دکانیں بھی بہت ہیں جن میں ایک سے ایک بَڑھیا سائیکل برائے فروخت اور گھنٹوں کے حساب سے کرائے پر بھی ملتی ہے۔ سائیکل ٹریکس پر لوگ آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ملک پرویز کار پر لے کر نکلا تو میں نے شہر سے کافی دور تک لوگوں کو سائیکلوں پر دیکھا۔ مجھے بتایا گیا کہ لوگ پیسے کی بچت اور ایکسرسائیز کی غرض کے علاوہ Enjoyment کے لیے سائیکلوں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
میرا کبھی جرمنی جانا نہ ہوا تھا۔ مشیت ِ ایزدی ہو تو بظاہر ناممکن کام بھی ہو جاتے ہیں۔ ناروے رہتے ہوئے 8 دن کے بعد اب واپسی کا دن قریب آیا تو وہاں چوہدری افتخار نے کہا آپ کو ایک ہفتہ جرمنی نہ گھما لائیں۔ انھوں نے موٹرکار شپ میں رکھی اور ہم 8 گھنٹے شپ میں بیٹھ کر جرمنی جا پہنچے۔ جہاز میں سے کار نکالی اور جرمنی کے کئی شہروں کی سیر کے بعد پھر بحری جہاز ہی میں کار کھڑی کر کے ناروے جا پہنچے۔ یہ دراصل ناروے میں موجود پاکستانیوں کی تنظیم کا کمال تھا کہ ناروے کوپن ہیگن اور جرمنی کی نہایت پر لطف سیر اور زیارت ہو گئی اور وہ بھی مکمل Sponsored ۔