مجوزہ اے پی سی…ایک اور مشق رائیگاں
یہ اے پی سی ایسی کانفرنس ہے جس کانتیجہ لوگوں کو پہلے سے معلوم ہے
موجودہ سیاسی سیٹ اپ اور پارلیمنٹ میں موجودہ اپوزیشن بظاہر ایک بہت بڑی اورمضبوط اپوزیشن ہے مگر شاید عملی طور پر ایک کمزور اپوزیشن بھی ہے،وہ صرف زبانی بیان بازی اور ٹی وی ٹاک شوز میں سرگرم نظر آتی ہے۔وزیراعظم گرچہ اپنے دعوؤں کے مطابق اپوزیشن سے مبینہ لوٹا ہوا پیسہ توواپس نہیں لا سکے لیکن اتنا ضرور کیاکہ نیب کے ساتھ ملکر وہ اپوزیشن کے چیدہ چیدہ رہنماؤں کو مختلف الزامات کے تحت ڈرا دھمکا کے اوراُنہیں قید کرکے اپنے خلاف کسی مضبوط تحریک شروع کرنے سے روکتے رہے۔دیکھا جائے تو یہی اُن کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ صرف چند ووٹوں سے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے وہ بلاخو ف وخطر بڑے دھڑلے سے حکومت کررہے ہیں جب کہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کو اس سے زیادہ بلکہ بھاری اکثریت ملنے کے باوجود وہ آرام وسکون سے کبھی حکومت نہیں کرسکی۔
عمران خان نے چند سیٹوں کے بل بوتے پر 2014 ء میں حکومت وقت کی ناک میں دم کررکھا تھا،حالانکہ مسلم لیگ کی ہمیشہ مخالفت کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بوجوہ اُس وقت اُن کاساتھ دینے سے انکار کردیاتھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاسی کمک اورمطلوبہ تعداد میں جاں پرکھیل جانے والے کارکنوں کی ایک بہت بڑی فورس کی مدد سے 126 دنوں تک ڈی چوک پرقبضہ جمائے رکھا۔
اپوزیشن کاتویہ حال ہے کہ وہ سینیٹ میں واضح برتری کے باوجود چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیںکرواسکی۔یہی اپوزیشن آج تک کسی ایک پوائنٹ پر حکومت کے خلاف متحد نہیں ہوسکی۔ اب 20ستمبر کو اُس نے بادل نخواستہ عوامی سطح پر زبردست دباؤ کے نتیجے میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں پرمشتمل ایک اے پی سی بلانے کا اعلان تو کررکھا ہے لیکن قوم کو اُس اے پی سی سے بھی کوئی خاص اُمید نہیں ہے۔ہمیشہ کے طرح شام کو ایک اعلامیہ جاری ہوگا اوربات اگلے اجلاس پر ڈال دی جائے گی۔ حکومت کو نہ ابھی اِس اے پی سی سے کوئی خطرہ ہے اور نہ بعد میں کوئی متوقع پریشانی۔ وہ ویسا ہی کام کرتی رہے گی جیسے وہ گزشتہ دو سالوں سے کرتی آئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس اِس وقت ایک صوبے کی حکومت ہے۔ وہ اِسی پر نہ صرف خوش ہے بلکہ اکتفا کیے ہوئے ہے کہ اُس کی روٹی روزی کا سامان اِسی سے اچھی طرح پورا ہورہا ہے۔ کسی بھی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اگر کوئی غیر جمہوری سیٹ اپ تشکیل پاگیا تووہ یقینا اِس سے بھی محروم ہوجائے گی۔لہذا وہ اِسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی بساط پر اپنے مہرے بڑا سوچ سمجھ کر چل رہی ہے،وہ مولانا کو بھی ناں نہیں کہہ رہی اورمسلم لیگ کو بھی مایوس نہیں کر رہی۔ ہر بار اے پی سی بلانے پررضامند تو ہوجاتی ہے لیکن پھراُس کے انعقاد اورکامیابی کے لیے کوئی کوشش اورجتن کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ مگراُسے بھی معلوم ہے کہ جب تک طاقتور حلقے حکومت کی پیٹھ پر جم کربیٹھے ہیں کوئی بھی اپ سیٹ ممکن نہیں ہے۔
اِس دور حکومت میں ہماری معیشت کا جوحال ہوچکا ہے اُس کے بعد کوئی بھی ذی شعورشخص اِس وقت حکومت سنبھالنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ایک طرف ڈالر بے قابو ہوا جارہا ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف اپناشکنجہ کسے جارہی ہے۔ جتنی امداد اورقرضے دوست ممالک سے ملناممکن تھے وہ سارے کے سارے اِس حکومت نے اپنے پہلے سال ہی میں حاصل کرلیے ہیں،بلکہ اب توواپسی کاتقاضابھی کیاجانے لگا ہے۔ملکی اور غیر ملکی معاملات میں بھی ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔رہی سہی کسر کورونا وائرس نے نکال کررکھ دی ہے۔ چھ ماہ ہوگئے ہیںہمارے وزیراعظم کسی بیرونی دورے پر نہیں جاسکے ہیں۔
خان صاحب کی پرسنلٹی کا جادو بھی یہی ہے کہ وہ اگر اپنے ملک میںعوام کو اپنی شخصیت کا سحر دکھا نہیں پاتے تو پھر بیرونی دورے کرکے وہ اِس کمی کو پورا کر لیاکرتے تھے۔ مگر کورونا نے اُنہیں اِس موقع سے بھی روک رکھا ہے۔سعودی عرب کے حکمرانوں سے بھی وہ چاہتیں باقی نہیں رہی ہیں کہ وہ ایک بار پھراُنہیں اپنی کارچلانے کا موقعہ دے دیں۔
دوسری طرف مہاتیر محمد بھی اپنے عہدے سے سبکدوش ہوچکے ہیں اور وہاں کے نئے حکمرانوں سے خان صاحب کی ابھی تک کوئی علیک سلیک نہیں ہوپائی ہے۔امریکا کے صد ر ڈونالڈ ٹرمپ اپنی نئی ٹرم کا الیکشن لڑنے جارہے ہیں اوروہ اِس وقت ہمارے جیسے کسی غریب ملک کے سربراہ کو دو منٹ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔
اِس لیے ایسے میں اُنہیں کشمیر ایشو پر ثالثی کے وعدے کی یاددہانی بھی نہیںکروائی جاسکتی۔ کشمیری بھائی ابھی تک گزشتہ سال کی اُس تقریر کو سن سن کرگذارہ ہی کررہے ہیں جو ہمارے وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی تھی۔رہ گیا سوال سعودیہ اور ایران کے بیچ ثالثی کرواکے ایک عظیم رہنما کے طور پرابھر کرسامنے آنے کا تووہ خواب تو پہلے دن ہی تشنہ تعبیر ہوکر اِس طرح ریزہ ریزہ ہوگیا تھا کہ خان صاحب نے دوسری بار پھر کبھی اِس کاتذکرہ کرنے کی جرأت وہمت ہی نہیں کی۔اب جائیں توکہاں جائیں۔ بس اگلے مہینے جنرل اسمبلی سے خطاب ہی کو اِس سال کاسب سے سنہری موقعہ سمجھ کرفائدہ اُٹھایا جائے اورپھر ایک ایسی زبردست تقریر کردی جائے کہ عوام اپنی ساری مشکلوں اورمصیبتوں کو بھول کر اُس کے سحر میں کھو جائیں۔
بات ہورہی تھی اپوزیشن کی مجوزہ اے پی سی کی تو اُس کے بارے میں ہمارے یہاںکوئی بھی خوش فہمی میں نہیں ہے۔یہ اے پی سی ایسی کانفرنس ہے جس کانتیجہ لوگوں کو پہلے سے معلوم ہے۔ شہباز شریف کی خرابی صحت کی خبریں ابھی سے آنا شروع ہوگئی ہیں۔لہذا اُن کی شرکت تو مشکوک ہی دکھائی دیتی ہے جب کہ بلاول صاحب کے پاس بھی بہت سارے بہانے موجود ہیں۔ سندھ میں بارش کی تباہی کے بعد کی صورتحال اورگاؤں دیہاتوں میں ممکنہ سیلاب کاخطرہ ایسا مضبوط اور سالڈ بہانہ ہے جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔
رہ گیا سوال مولانا فضل الرحمن کا تووہ تو پہلے ہی اِس اپوزیشن سے مایوس ہوکر کنارہ ہوچکے ہیں۔ وہ توپچھلے سال کے اپنے آزادی مارچ اور اسلام آباد کے دھرنے کو لے کر ہی مایوس ہیں جب اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوںمیں سے کسی نے بھی اُن کاساتھ نہیںدیاتھا۔وہ اب اِن دونوںپر اعتبار کرنے کو کسی طرح تیار اورآمادہ نہیں ہیں۔اِس لیے وہ اِس مجوزہ کانفرنس میںکوئی اہم رول اداکرنے سے اجتناب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اب ایسے میں اِس اے پی سی سے کوئی اُمید لگانا کہ وہ خان حکومت کے لیے کوئی مشکل کھڑی کردے گاکسی دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتاہے۔صائب مشورہ یہی ہے کہ بعد میں سبکی اور ہزیمت اُٹھانے کے بجائے یہ کانفرنس ابھی سے ملتوی کردی جائے تو شاید اپوزیشن کے حق میںیہ بہتر ہوگا۔