وفاقی حکومت کے عجلت میں کئے گئے فیصلے
ہمارے محترم وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنے تمام اخلاص اور محنت کے باوجود ہمیں ڈالر کے کاروباری زیادہ اور وزیر خزانہ کم۔۔۔
وفاقی دارالحکومت گزشتہ چند دنوں سے عجلت میں کیے گئے حکومتی فیصلوں کی زد میں ہے۔ فوٹو: فائل
اپوزیشن والے تو گزشتہ چند دنوں بلکہ ہفتوں سے وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان کو دبے دبے الفاظ میں یہ بات باور کرانے کی کوششوں میں مصروف تھے کہ ان کی حکومت کا ہنی مون پیریڈ اختتام پذیر ہوا۔
اب ان سے کارکردگی کی بات کی جائے گی اور وہ اپوزیشن کی جانب سے تنقید اور بھرپور تنقید کے لیے تیار ہوجائیں مگر عوامی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے اعلانات و آغاز میں غیر ضروری تاخیر کی مرتکب حکومت اور اس کے کار پردازوں کو بھی اب یہ اندازہ ہوا ہی چاہتا ہے کہ 5 جون 2013 کو وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے ابتدائی چھ ماہ 5 دسمبر 2013 کو مکمل ہوئے، اب عوام تو بجلی، پانی، گیس اور دال روٹی کے چکر میں ضرور الجھے ہوئے ہیں مگر اپوزیشن پارٹیوں کو بھی تو خود کو مصروف رکھنا مقصود ہے بلکہ تحریک انصاف جیسی نئی ابھرنے والی سٹریٹ پاور کی حامل سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو حکومت کا متبادل سمجھ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان سے انہیں چار انتخابی حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے حوالے سے ریلیف بھی ملنے کی امید بندھی ہے مگر 22 دسمبر کو مہنگائی اور 11 مئی کے عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے وہ بے تاب نظر آ رہے ہیں۔
ہمارے محترم وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے تو اگلے روز یہ کہہ دیا کہ عمران خان میں اب عوام کو سڑکوں پر لانے کی Street Puller کی سی خاصیت نہیں رہی لیکن ان کے اس دعوے یا تجزیے کا حقیقی جواب تو 22 دسمبر کو لاہور میں ہونے والے مظاہرے کے شرکاء کی تعداد سے ہی ہوگا۔ دوسری صورت میں ان کے اس دھمکی آمیز بیان کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا جس میں انہوں نے کہا کہ 22 دسمبر کو سونامی کو مال روڈ میں ہی پیالی میں بند کر دیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان کی سونامی محض چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے والی بات ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر صوبائی حکومت انہیں پیالی میں بند کرنے کے لیے کون سے سرکاری و سیاسی ہتھکنڈے کتنی کامیابی سے استعمال کرتی ہے۔
پنجاب حکومت کو داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے عمران خان کو لاہور میں سیاسی میدان سجانے کی اجازت تو دی، اب عمران خان کے انصاف پسندی کے دعویدار کارکنوں کو بھی مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قومی وعوامی املاک کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش کو اپنی شعوری ذمہ داری سمجھتے ہوئے روکنا ہوگا، یہ ان کے لیے ایک موقع ہوگا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو باور کرائیں کہ وہ آج اپوزیشن میں ہیں تو وہ احتجاج کرنے کے ڈھنگ میں سلیقے اور امن کی تبدیلی لے کر آئے ہیں اور اگر روایتی انداز میں توڑ پھوڑ، گھیراؤ، جلاؤ اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے والا عوامی احتجاج کیا گیا تو تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کی حقیقت بھی معلوم ہو جائے گی۔
وفاقی دارالحکومت گزشتہ چند دنوں سے عجلت میں کیے گئے حکومتی فیصلوں کی زد میں ہے۔ پہلے چیئرمین نادرا طارق ملک پھر چیئرمین پیمرا چوہدری رشید اور اب سی ڈی اے کے ممبر ایڈمنسٹریشن چوہدری منیر وفاقی حکومت کی جانب سے اپنے اپنے عہدوں سے ہٹائے جانے کے بعد عدالتوں سے فوری ریلیف لے کر واپس اپنی نشستوں پر آ برا جمان ہوئے۔ اس سارے عمل سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کسی انجانے خوف کا شکار ہے جس کے باعث ضروری پیپر ورک مکمل کیے بغیر عجلت میں فیصلے کیے جا رہی ہے۔ حکومتی فیصلوں سے سبکی کا باعث ایک اور وجہ بھی بن رہی ہے کہ اہم فیصلے کرتے وقت حکومت ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ذریعے تمام بیک گراؤنڈ کے ساتھ تفصیلات عوام تک نہیں پہنچا رہی جس کے باعث پہلے کنفیوژن پھیلتا ہے اور جب حکومت مخالف تاثر عوام کے ذہنوں میں رچ بس چکا ہوتا ہے اس کے بعد حکومت اپنے فیصلے کی وجوہات ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی ناکام کوشش شروع کر دیتی ہے۔
تازہ ترین مثال وزیر ٹیکسٹائل و تجارت خرم دستگیر خان سے وزیر نج کاری کی ذمہ داریاں واپس لینے کی ہے۔ خرم دستگیر خان مسلم لیگ (ن) کے پرانے اور سچے ساتھی غلام دستگیر خان کے صاحبزادے ہونے کے ساتھ ساتھ باصلاحیت وزیر ہیں انہیں ذمہ داریاں سونپنا اور بوقتِ ضرورت واپس لینا وزیراعظم پاکستان کی اپنی کلی صوابدید ہے مگر ان سے اضافی ذمہ داریاں واپس لیتے ہوئے تفصیلی وجوہات بتانے سے بھی گریز کیا گیا اور یہ بھی بتانا ضروری نہ سمجھا گیا کہ آئندہ یہ ذمہ داریاں کس کے سپرد کی جا رہی ہیں جس کے باعث اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز میں طرح طرح کی کہانیاں آنا شروع ہو گئیں، جب تک حقیقی صورتحال سامنے آئے گی، خرم دستگیر کی اہلیت، غلام دستگیر خان کی پارٹی سے اٹوٹ وابستگی، وفاقی کابینہ کی اجتماعی کارکردگی اور وزیراعظم نواز شریف کی فیصلہ سازی کی قوت سوالیہ نشان بن کر طرح طرح کے تبصروں کا جواز بن چکی ہو گی۔
وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے چھ ماہ مکمل ہونے پر حزب اختلاف کے رہنماؤں نے تو حکومت پر تنقید کرنا ہی تھی اب تو گزشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والی حکومتی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے اپنے ارکان وزراء اور بیورو کریسی کی بے اعتنائی کے خلاف پھٹ پڑے۔ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کا وقت نہ ملنے سے زیادہ غصے کا اظہار اس باعث کیا کہ وزراء اور بیورو کریٹ ہمارا فون تک سننا گوارا نہیں کرتے۔ ترقیاتی فنڈز مل نہیں رہے اور ہمیں اسمبلی میں حاضری یقینی بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ اس اجلاس کی صدارت وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کر رہے تھے۔ انہوں نے صورتحال کی نزاکت بھانپتے ہوئے از خود ارکان کے دل کی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اگر ترقیاتی فنڈز نہ ملیں گے تو ارکان اپنے حلقے کے عوام کو کیا منہ دکھائیں گے البتہ یہ خوش خبری سنا دی کہ ارکان کو فنڈز کی فراہمی کا راستہ تلاش کیا جا رہا ہے، ارکان کی ایوان میں حاضری یقینی بنانے کے لیے سسٹم کمپیوٹرائز کیا جا رہا ہے۔
پارلیمانی پارٹی کا آئندہ اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوگا۔ وزیراعظم پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کرنے کے علاوہ اسمبلی اجلاس میں بھی آیا کریں گے۔ اراکین اسمبلی ذاتی کاموں کے سلسلے میں پارٹی کے چیف وہپ اور وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد سے رابطہ کیا کریں۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا باقاعدہ ایجنڈا طے کرنے اور اس میں طے پانے والے فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے تین وفاقی وزراء زاہد حامد، ریاض پیر زادہ اور برجیس طاہر پر مشتمل خصوصی کمیٹی بھی بنا دی گئی۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہی فیصلے چھ ماہ قبل کر لیے جاتے تو آج مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا گراف اس کے اپنوں کے ساتھ غیروں کے دل و دماغ میں بھی ذرا بلند مقام پر نظر آتا۔
ہمارے محترم وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنے تمام اخلاص اور محنت کے باوجود ہمیں ڈالر کے کاروباری زیادہ اور وزیر خزانہ کم محسوس ہوئے ہیں، جب انہوں نے اپنے ایک بیان میں یہ ارشاد فرمایا کہ ڈالر کی قیمت نیچے آنے والی ہے لوگ ڈالر بیچ دیں۔ ڈالر کے اوپر یا نیچے جانے کی وجوہات تو وہ بڑی خوشی سے بیان کر سکتے ہیں مگر کرنسی کے کاروبار میں ملوث لوگوں کی رہنمائی ان کے اہم سرکاری منصب کو زیب نہیں دیتی۔ تاہم امید ہے کہ 19 دسمبر کو واشنگٹن میں ہونے والے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کو ایکسٹنڈ فنڈ فیسیلٹی پروگرام کے تحت 37 کروڑ ڈالر کی قسط مل جائے گی جس سے پاکستان میں ڈالر کی موجودگی میں اضافے سے اس کی مانگ اور لامحالہ قیمت میں بھی کمی ہوگی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے مڈ ٹرم الیکشن کی سازش کی بُو سونگھنے کی صلاحیت نے انہیں اپنے دیگر ہم عصر سیاسی رہنماؤں سے اس لحاظ سے معتبر کر دیا ہے کہ وہ وقت سے پہلے آنے والے خدشات کی آگاہی کے فن کے ماہر ہوتے جا رہے ہیں۔ واقفانِ حال اور سونگھنے کی حِس کے حامل تجزیہ کار یہ بھی پیش گوئی کرنے سے باز نہیں آ رہے کہ ہمارے محترم وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان آئندہ چند ماہ کے اندر وزارت داخلہ سے دستبردار ہو کر دیگر قدرے غیر معروف ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ ان کی گفتگو کے سیاسی لب و لہجے کا بغور جائزہ لینے والے تو ان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بھی قیاس آرائیوں میں مصروف ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ وہ حالات و واقعات سے قطع نظر حق بات کرنے کے عادی ہو چکے ہیں وہ جہاں بھی رہے یہ فریضہ سرانجام دیتے رہیں گے۔