چالیس سال پہلے اور آج
لوگوں کو آج کے حالات دیکھ کر یقین تو نہیں آئیگا کہ کہاں ایک معمولی سول سرونٹ اور کہاں صدر ایوب خاں کے بیٹے۔
جب فارغ اور غیر مصروف بزرگ یار دوست کسی شام مل بیٹھتے ہیں تو اپنی عہد ِ رفتہ کی یادوں کو نمک مرچ لگا کر ساتھیوں کو سنا کر ٹائم پاس کرتے ہیں۔ ان کی بیشتر باتیں سچی یا من بیتی ہوتی ہیں۔
ایک روز وہ چوروں اور چوریوں پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ اس بار ذکر ہو رہا تھا اس زمانے کا جب چور لنگوٹ باندھ کر بدن پر تیل مل کر رات کوگھرمیں داخل ہو جاتا۔ اگر گھر کا کوئی فرد جاگ جاتا اور چور کو پکڑنے کی کوشش کرتا تو تیل کی وجہ سے گرفت نہیں آتا تھا اور فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا، دونوں چوٹ، زخم یا ضرب سے بھی محفوظ رہتے کیونکہ نہ چور کے پاس اسلحہ ہوتا نہ دوسرا فریق کے پاس ہوتا۔ لیکن اب وقت بدل چکا ہے، اب چور بھائی ڈکیت کہلاتے ہیں۔
نفیس ڈریسز میں ملبوس رات کا انتظار نہیں کرتے، دن دیہاڑے کسی جیولر شاپ میں گھس کر، بینک میں داخل ہو کر، کار یا موٹر بائیک روک کر، کسی مہنگے شاپنگ مال میں داخل ہو ، جدید اسلحے کی نمائش کر کے من مرضی کا سامان یا کیشیں لوٹ لیتے ہیں اور اطمینان سے فرار ہو جاتے ہیں ۔ایسے مسلح گینگ کو روکنا یا پکڑنے کی کوشش کرنا گویا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ CC ٹی وی بعض اوقات وارداتوں کی پوری کارروائی محفوظ کر لیتے ہیں لیکن ملزموں تک پولیس کی رسائی ہو بھی جائے تو تفتیش اور عدالتی ٹرائیل کے دو مرحلوں پر جو کچھ دیکھنے سننے میں آتا ہے وہ مدعی کی شامت کے حصہ دوم میں دیکھا جا سکتا ہے۔
قانون میں ایک سنہری اصول کے مطابق شک کا فائدہ دیتے ہوئے ایک نامزد ملزم کو کو بری کیا جا سکتا ہے۔ اس قانون کا غلط استعمال بلکہ بعض حقیقی ملزموں کو بھی سزا سے بچا لیتا ہے۔ چنانچہ اب اصل اور پیسے والے با اثر ملزم تو بچ جاتے ہیں، غریب اور بے آسرا ملزموں سے جیل خانے بھرے ملتے ہیں جب کہ حکومت کے حمایت یافتہ اور دولتمند Criminals تو شہروں اور ایوانوں میں دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ فیض احمد فیضؔ نے بھی اسی لیے کہا تھا:
کہ سنگ و خشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد
ہماری جانوںکی محافظ اور Law and Order کی نگہبان پولیس دیکھنے میں تو جگہ جگہ موجود ہوتی ہے لیکن جرائم ان کی نظروں کے سامنے دیدہ دلیری سے ہوتے ہیں مگر صحیح ملزم گرفتار ہوتے ہیں نہ ملزم ہی مجرم بنتا ہے کیونکہ مقدمہ طول پکڑ کر ملزم کے لیے ضمانت کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔ ایک بات لوگوں کے مشاہدے میں آ رہی ہے کہ ایس ایچ اوز کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم FIR درج کی جائیں تا کہ ریکارڈ پر کم جرائم کا اندراج ہو، ایسا کرنے سے جرائم کی شرح بھی انڈر کنٹرول ظاہر ہو گی اور وہ افسران ِ بالا کی نظروں میں بھی قابل ِ ستائش ٹھہریں گے ۔
کچھ عرصہ قبل دو تین خواتین بیرون ِ ملک سے آئیں انھوں نے تین ایک ہی علاقے میں اعلیٰ کوٹھیاں خرید یں اور ملازموں سے پوچھ کر قرب و جوار کے رہائشیوں کی بابت خود کو باخبر کیا پھر ہر امیر گھرانے میں اعلیٰ مٹھائی کے ڈبے بھجوا کر دعائے خیر کی درخواستوں کے ساتھ اپنی ہمسائیگی کی خبر دی۔ کچھ ہی عرصے میں میل ملاپ کے بعد پاس پڑوس کی خواتین کو اعلیٰ قسم کی ضیافت پر اپنے گھروں میں مدعو کرنا شروع کر دیا۔ ان کے بچوں کو تحائف اور ان کے ملازموں کو پیسے دینے کا سلسلہ شروع کر دیا کہ ان کے خاوند بیرو ن ملک بزنس کرتے اور بچے وہیں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
تین چار ماہ کے اندر یہ خواتین علاقے اور دوسری خواتین کی دعوتیں کرنے، تحائف کی بارش کرنے اور یورپ ، امریکا کی کہانیاں سنا سنا کر محبوب اور مقبول ہو گئیں۔ اس عرصہ میں انھوں نے تحائف دیے بھی اور لیے بھی لیکن ان کے زیورات اور stone اگرچہ بے حد خوبصورت اور اعلیٰ ڈیزائن کے ہوتے تھے لیکن تمام دو نمبر تھے۔ جو کوٹھیاں ان کے مطابق خریدی گئی تھیں دراصل چھ چھ مہینے کے لیے کرائے پر لی گئی تھیں۔ وہ بتاتی تھیں کہ ان کے خاوندوں نے پاکستان میں فیکٹریاں بنا کر جلد ہی واپس آ جانا ہے پھر ایک خاتون کے بچے کی گریجویشن کی تقریب آ گئی اور اسے دس روز کے لیے یورپ جانا پڑا۔
کئی نئی بنی دوست خواتین نے اسے قیمتی اور خوبصورت زیورات لے کر آنے کے لیے فارن کرنسی دی۔ چند روز بعد دوسری کا خاوند بیمار ہو گیا اور وہ اسے ساتھ لے کر آنے چلی گئی اسے بھی کئی فرمائشوں کا بوجھ اُٹھانا پڑا۔ پھر تیسری خاتون اُداسی دور کرنے دو ہفتے کے لیے امریکا چلی گئی لیکن فرمائشوں کا بوجھ بھی لے گئی پھر ان تینوں کوٹھیوں کا Rent Contract پورا ہو گیا ۔ تینوں خواتین دس پندرہ دن کے لیے گئیں واپس آتی نہیں دیکھی گئیں۔ کر پشن سے ایک واقعہ یاد آگیا۔ راولپنڈی میں ملازمت کے ابتدائی دنوں کی بات ہے ، اس وقت جنرل ایوب خاں صدر تھے اور ان کے دو بیٹے شوکت ایوب اور اختر ایوب میرے دوست تھے۔
لوگوں کو آج کے حالات دیکھ کر یقین تو نہیں آئیگا کہ کہاں ایک معمولی سول سرونٹ اور کہاں صدر ایوب خاں کے بیٹے۔ مجھے سوچ کر اور یاد کر کے وہ زمانہ خواب لگتا ہے۔ بہرحال ایک روز میں اور اختر راولپنڈی صدر کی شاہراہ کے برابر فٹ پاتھ پر شام کے وقت ادبی گفتگو کرتے چلے جا رہے تھے کہ رستے میں ایک چائے کا کھوکھا آ گیا۔ اختر نے کہا ایک ایک چائے نہ ہو جائے اور ہم نے کھڑے کھڑے چائے پی پھر شوکت ایوب یاد آیا ہے جو میری شادی میں بھی شریک تھا اور 1980 میں اُس نے مجھے پانچ سو روپے سلامی دی۔
ان دو کی یاد نے مجھے چالیس سال پیچھے لے جا کر افسردہ کر دیا۔ وہ دونوں مجھے ایوب خاں کی تدفین پر ریحانہ بھی لے گئے تھے۔ وہ زمانہ یاد آتا اور پھر آج کا زمانہ۔اب ہمارے حکمرانوں اور ان کی اولادیں کرپشن کے الزامات میں لتھڑی ہیں، کوئی بیرون ملک ہے تو کوئی پاکستان میں عدالتوں اور نیب کو بھگت رہا ہے۔