اصلاح پسند استاد اور نقاد
جس صحافی نے یہ کاپی تحریرکی اس نے اس جملہ میں قیصرکی پوری زندگی کو سمو دیا۔
اردو بولنے والے ایک تصوراتی اسلامی ریاست کے تصور کے ساتھ ہندوستان چھوڑ آئے۔ ہندوستان سے آنے والے خاندانوں میں بیشترکا تعلق نچلے متوسط طبقہ سے تھا، قیصر محمودکا خاندان بھی ان میں سے ایک تھا۔ یہ خاندان یوپی کے شہر فتح پور بنسوا سے ہجرت کر کے ناظم آباد کراچی میں آباد ہوا۔
قیصر محمود چار بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑے تھے، ان کے والد ٹرانسپورٹر تھے۔ ان کی بسیں کراچی میں چلتی تھیں، یوں یہ ایک خوشحال خاندان تھا مگر زمانہ کے اتار چڑھاؤ میں خاندان کی خوشحالی کو نظر لگ گئی۔
ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت کے خلاف گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے طلبہ نے جلوس نکالا، جلوس کی لپیٹ میں ایک بس آگئی،طلبہ نے بس کو نذر آتش کیا، یہ بس ان کے والد کی تھی۔ یوں یہ خاندان بدحالی کا شکار ہوا۔ قیصر محمود کبھی مذاق میں کہتے تھے کہ این ایس ایف کے طلبہ نے ان کی بس کو نذرآتش کیا تھا۔ انھوں نے 1973 میں کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وہ شعبہ صحافت کے بی اے آنرز پروگرام کے پہلے گروپ کے طالب علم تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن نہیں تھے مگر جمعیت کے پرزور حامی تھے۔ تاہم ان کی قریبی دوستیاں این ایس ایف کے کارکنوں سے تھیں۔
زیادہ وقت پروگریسو فرنٹ کی رہنما یاسمین شاہد اور یاسمین اختر کے ساتھ گزارتے تھے۔ جب ترقی پسند طلبہ تنظیموں نے پروگریسو فرنٹ قائم کیا تو بصیر نوید، عاشق رضا، طاہر محمود، یاسمین شاہد (عابد علی) اور یاسمین اختر وغیرہ زیادہ متحرک تھے۔ قیصر محمود کی ان سب سے قریبی دوستیاں تھیں۔ ن
اظم آباد کے پوائنٹ سے علی الصبح یونیورسٹی آجاتے اور شام تک یونیورسٹی میں مٹرگشت کرتے یا کلاسیں لینے چلے جاتے۔ جب کراچی یونیورسٹی میں رونق بڑھ جاتی ، طلبہ تنظیموں کے کارکن صبح سے اپنی تنظیموں کے منشور امیدواروں کا تعارف تقسیم کرتے پھر ایک دوسرے کے الزامات کا جواب دینے کے لیے پمفلٹ تقسیم ہوتے۔ انتخابی جلوس کے لیے آرٹس لابی، سائنس اور فارمیسی وغیرہ میں بڑے بڑے جلسے ہوتے، سب سے بڑا جلسہ آرٹس آڈیٹوریم سے متصل میدان میں ہوتا۔ ان تمام مراحل میں مختلف تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان کشیدگی بھی پیدا ہوجاتی، مختلف گروپوں میں زوردار نعرہ بازی ہوتی۔
بعض اوقات کارکنوں میں ہاتھا پائی ہوتی۔ قیصر محمود جمعیت کے پمفلٹ تقسیم کرتے، بینر لگاتے اور نعرہ بازی میں جوش و خروش سے حصہ لیتے۔ وہ جمعیت کے امیدواروں کی کنونسنگ کرتے مگر 1:00بجے کے بعد کارکن منتشر ہوجاتے۔ پھر پروگریسو فرنٹ کے کارکن کھانے کے لیے آپس میں چندہ جمع کرتے، قیصر محمود اس ٹاسک کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں لگ جاتے اور اس دوران مسلسل بحث ومباحثہ میں مصروف رہتے۔
راقم الحروف کے لیے ایک حیرت ناک منظر تھا۔ سارا دن مخالفت کرنے والے اور بڑھ چڑھ کر نعرے لگانے والا شخص اپنے مخالفین کے ساتھ ملکرکس طرح کھانے چائے کے لیے چندہ جمع کررہا ہے اور پھر اطمینان سے کھایا جا رہا ہے۔ پہلے این ایس ایف اور پروگریسو فرنٹ کے دور میں سب لوگ قیصر جماعتی کہہ کر پکارتے تھے۔ اب بھی جب پرانے جاننے والے کراچی پریس کلب آتے تھے تو قیصر جماعتی ہی کہتے مگر قیصرکبھی اس لقب پر توجہ نہیں دیتے۔
ہمارے سینئر ساتھی عابد علی سید کی شادی بھی ہماری زندگی کا ایک اہم ایونٹ تھا۔ عابد علی سید کی شادی شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کی طالبہ یاسمین شاہد سے ہوئی،جن کا شمار پروگریسو فرنٹ کے متحرک کارکنوں میں ہوتا تھا۔ یاسمین نے بین الاقوامی تعلقات عامہ کی کونسل کی نائب صدرکا عہدہ جیتا تھا۔ قیصر نے عابد اور یاسمین کی شادی میں خوب دھوم دھڑکا کیا، یوں ایک یادگاری شادی بن گئی۔
قیصر محمود 1977میں صحافت کے پیشہ سے منسلک ہوگئے۔ پہلے ان کی والدہ کا انتقال ہوا، پھر والد بھی انتقال کرگئے تھے، یوں قیصر پر بہن بھائیوں کی ذمے داریاں بڑھ گئیں۔ قیصر محمود نے ایک روزنامہ میں کرائم رپورٹرکی حیثیت سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغازکیا۔ اسی زمانہ میں ان کی دوستی ایک انگریزی اخبار کے رپورٹرصدیق بلوچ اور دوسرے رپورٹر غلام علی(کاکا) سے ہوئی۔
صدیق بلوچ اور غلام علی اپنی ایمانداری اور پیشہ وارانہ مہارت کے لیے مثال تھے۔ قیصر محمود نے بھی غلام علی اور صدیق بلوچ کی پیروی کی۔ قیصر نے کامرس اور پولیٹیکل رپورٹنگ کی، مگر ہمیشہ ایمانداری اور شفافیت کے اصولوں کی پاسداری کی۔ ان کی ایمانداری اور اصولی مؤقف نے ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا شروع کیں۔ادارہ کے اکابرین ان سے خفا رہے۔ راقم الحروف نے 1985 میں سول ایوی ایشن اتھارٹی میں شعبہ تعلقات عامہ میں ملازمت کی۔
میری باس نے مجھے پہلے دن دو فائلیں دیں، ایک فائل میں ان صحافیوں کے نام تھے جو ڈی جی کے پسندیدہ لوگ تھے ، دوسری فائل میں بلیک لسٹ صحافیوں کی لسٹ تھی۔ اس لسٹ میں تین نام تھے، ادریس بختیار، ظفر عباس اور قیصر محمود۔ عابد علی سید نے اسلام آباد سے انگریزی اخبار دی ڈیموکریٹ بھی جاری کیا ۔ وہ کراچی کے انگریزی اخبار کے سٹی ایڈیٹر رہے، پھر وہ امریکی ریڈیو وائس آف امریکا کے لیے کام کرنے لگے۔ انگریزی کے ایک نئے اخبارکے ایڈیٹر ہوگئے۔ انھوں نے طویل عرصہ بے روزگاری کا سامنا بھی کیا۔
راقم الحروف کو کئی برسوں تک کراچی پریس کلب کے انتخابات کے انعقاد کی نگرانی کا موقع ملا۔ کلب میں نئے صحافیوں کو ممبرشپ دی گئی تو پولنگ کے وقت ووٹروں کی شناخت کا سوال اہم ہوا۔ الیکشن کمیٹی کی ہدایت پر منتخب گورننگ باڈی نے اراکین کو ہدایت کی کہ وہ اپنی تصاویر جمع کرائیں تاکہ کلب کے شناختی کارڈ تیارکیے جائیں مگر اراکین کی اکثریت نے گورننگ باڈی کی ہدایت کو اہمیت نہ دی۔ جب انتخابی شیڈول کا اعلان ہوا تو راقم الحروف نے قیصر محمود کو بتایا کہ اراکین کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے سے ووٹروں کی شناخت کا مسئلہ پیدا ہوگا۔
انھوں نے الیکشن کمیٹی کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں انھوں نے دلیل دی کہ اگرکسی ووٹرکو بغیر شناختی کارڈ کے ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی تو الیکشن کمیٹی غیر آئینی حرکت کا مرتکب ہوگا اور وہ اس بارے میں قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں ۔
راقم الحروف نے یہ خط کلب کے نوٹس بورڈ پر چسپاں کیا، یوں چند گھنٹوں میں ہی اراکین نے شناختی کارڈ بنوانے شروع کردیے، کلب کی انتظامیہ کو ہنگامی اقدامات کرنے پڑے۔ قیصر کے اس خط سے بعض امیدواروں کو تشویش ہوئی۔ انھوں نے سینئر صحافی ادریس بختیار کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ ادریس بختیار کلب آئے ، انھوں نے قیصر سے کہا کہ آپ نے غیر ذمے دارانہ خط لکھا ہے۔ قیصر، ادریس بختیار کا بے حد احترام کرتے تھے۔ وہ مسکراتے رہے مگر خط واپس لینے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
قیصرکو صحافتی اخلاقیات کا بڑا پاس تھا۔ وہ خبرکی معروضیت اور زبان کی حدود کو اہمیت دیتے تھے اور اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ انھیں الیکٹرونک میڈیا میں بولی جانے والی زبان پر سخت اعتراض تھا، یوں وہ ہر صحافی کو لیکچر دینا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ادریس بختیارکے انتقال سے ان کو شدید دھچکا لگا تھا۔
پہلے ان کی انجیوگرافی ہوئی، پھر اسی سال وہ کمر درد کا شکار ہوئے۔ اس دوران ان کے چھوٹے بھائی کینسر کے مرض میں انتقال کرگئے۔ انھیں کورونا کا مرض لگا اور آخر بلڈکینسر نے ان کی جان لے لی۔ قیصرکے انتقال پر ایک ٹی وی چینل نے یہ ٹکر چلایا ''اصلاح پسند استاد اور نقاد'' جس صحافی نے یہ کاپی تحریرکی اس نے اس جملہ میں قیصرکی پوری زندگی کو سمو دیا۔