پاکستان کو ’’ڈسٹ بن‘‘ نہ بنائیے

ترقی یافتہ ممالک اپنا زیادہ تر استعمال شدہ سامان ضائع کرنے کی فکر سے آزاد ہیں کیوں کہ ان کے پاس ایک ڈسٹ بن موجود ہے


محمد عارف میمن September 24, 2020
ہر پرانی اور بے کار چیز پاکستان بھیج دی جاتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور: کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں علاقے میں چھوٹے چھوٹے کارخانے جو گھروں میں ناجائز طورپر قائم کیے گئے ہیں، وہاں روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں پرانے کمپیوٹر لاکر رکھے جاتے ہیں اور بعدازاں انہیں توڑ کر مخصوص سامان کو ایک سائیڈ کرکے باقی ٹھوس پلاسٹک جو ناقابل فروخت ہے، اسے گراؤنڈ میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ 7 سے 8 سال سے چل رہا ہے۔ پہلے ایک کارخانہ تھا، اب ہر گلی میں کارخانے لگ گئے ہیں، جہاں سے سیکڑوں کمپیوٹرز کا بے کار اسکریپ گراؤنڈ میں پھینکنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہفتے میں ایک مرتبہ رات کی تاریکی میں آگ لگا کر اس ٹھوس پلاسٹک کو ضائع کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے، جس سے علاقے میں ایک طرف موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں، وہیں آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمپیوٹرز آتے کہاں سے ہیں اور ان کا کارآمد اسکریپ کہاں جاتا ہے؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کےلیے میں نے کارخانے والوں سے تھوڑی جان پہچان بنائی تاکہ معلوم کرسکوں کہ اس کا انہیں کتنا فائدہ ہورہا ہے، بدلے میں ماحول کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ کچھ دنوں کی تگ ودو کے بعد صرف اتنا معلوم ہوسکا کہ یہ مختلف جگہوں سے پرانے کمپیوٹرز انتہائی سستے داموں اٹھاتے ہیں، جن میں بینک، سرکاری و غیر سرکاری ادارے، اسکولز، کالجز، شاپس وغیرہ سے کمپیوٹرز، مانیٹرز اور ایل سی ڈیز وغیرہ جمع کرکے بلدیہ ٹاؤن لے کر آتے ہیں۔ جس کے بعد کئی نوعمر لڑکے اس میں سے کارآمد اشیا کو نکال کر بے کار سامان کو گراؤنڈ میں پھینک دیتے ہیں۔

ایک سی پی او بمع مانیٹر یا ایل سی ڈی کم وبیش 300 سے 500 روپے میں خریدا جاتا ہے۔ جس میں سے یہ لوگ ہارڈ ڈسک، پاور سپلائی، ریم اور مدر بورڈ نکال لیتے ہیں، جب کہ لوہے کی باڈی کو اسکریپ اور اندر سے نکلنے والا خطرناک اور ٹھوس پلاسٹک گراؤنڈ میں پھینک کر اپنا فرض پورا کرتے ہیں۔ اس ویسٹ اسکریپ کے باعث پورے سیکٹر 9 بی میں جگہ جگہ ایل سی ڈی کی باڈیز اور اندر سے نکلنے والی باریک و ٹھوس پلاسٹک کی شیٹس علاقے کی سیوریج لائنوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔

اس پورے عمل کو انجام دینے کے بعد فی کمپیوٹر پر جو انہوں نے 300 سے 500 روپے انویسٹ کیا ہوتا ہے، بدلے میں انہیں کم وبیش 1200 سے 1500 روپے باآسانی مل جاتے ہیں۔ یہ تمام کارآمد اسکریپ جمع کرکے شیرشاہ کباڑی مارکیٹ لے جایا جاتا ہے، جہاں انہیں تول کے حساب سے معاوضہ ملتا ہے۔

پاکستان دنیا میں ایک ڈسٹ بن کی حیثیت رکھتا ہے، ہر پرانی اور بے کار چیز پاکستان بھیج دی جاتی ہے۔ لنڈے کے کپڑے ہوں یا پرانے کمپیوٹرز، گاڑیاں ہوں یا پھر دیگر الیکٹرونکس سامان، سب یہاں باآسانی مل جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنا زیادہ تر ویسٹ سامان ضائع کرنے کی فکر سے آزاد ہیں کیوں کہ ان کے پاس ایک ڈسٹ بن موجود ہے جہاں وہ اپنا تمام بے کار سامان معمولی پیسوں کے عوض بھیج کر ایک طرف یہ احسان جتاتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تمہاری مدد کی، وہیں یہ اس بات سے بھی خوش ہیں کہ انہیں بے کار اشیا کو ضائع کرنے کےلیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔

پرانے کمپیوٹرز براستہ دبئی سے کراچی آتے ہیں، جہاں سے شیرشاہ اور ملک کی دیگر بڑی مارکیٹیوں میں کنٹینرز کے ذریعے بھیج دیے جاتے ہیں۔ یہاں آنے کے بعد کنٹینرز کھلنے سے پہلے ہی دولت کے پجاری اس کی نیلامی کرتے ہیں۔ اس نیلامی میں مفادپرست ٹولوں کا کروڑوں روپیہ لگا ہوتا ہے جسے وہ اربوں روپے میں تبدیل کردیتے ہیں، بنا یہ سوچے کہ باہر کا کچرا ہمارے ملک میں آئے گا تو اس سے ہماری نسلوں کو کتنا نقصان ہوگا۔ ان مفاد پرست ٹولوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ یہ تمام بے کار اور ویسٹ آئٹم ملک کی معیشت کو کتنا نقصان پہنچا رہا ہے۔ انہیں اس بات سے بھی غرض نہیں کہ جو مکمل بے کار آئٹم ہیں وہ کہاں جائیں گے؟ کتنا سامان صرف اس لیے جلا دیا جاتا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں۔ بدلے میں ماحول کو کتنا نقصان ہوتا ہے، ان مفاد پرستوں کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتا۔

پوری دنیا میں استعمال شدہ اشیا کے لانے پر پابندی عائد ہے۔ لیکن پاکستان میں کسٹم حکام چند ٹکوں کے ٹیکس اور رشوت کے عوض انہیں کلیئرنس دے دیتے ہیں، جس سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ بات صرف بلدیہ کے چھوٹے کارخانوں کی نہیں کہ وہ صرف کمپیوٹرز کے اسکریپ سے پورے بلدیہ ٹاؤن کی سیوریج کا ستیاناس کررہے ہیں بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جیسے کارخانے پورے شہر اور پورے ملک میں قائم ہوچکے ہیں، جہاں ویسٹ اشیا کو ویسے ہی بنا کسی حفاظتی اقدام کے کھلے عام سڑکوں، گراؤنڈ اور گلیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس سے جہاں ہمارے ماحولیاتی سسٹم پر اثر پڑ رہا ہے، وہیں سیوریج کے نظام کی تباہی کے ساتھ سڑکوں کا بھی بیڑہ غرق ہورہا ہے۔ آسان زبان میں اتنا سمجھ لیجئے کہ ایک کمپیوٹر پر 1200 سے 1500 روپے کمائے جاتے ہیں لیکن اس ایک کمپیوٹر کا بے کار ٹھوس پلاسٹک پورے سیوریج سسٹم کو جام کردیتا ہے۔ ایک مین ہول کی تعمیر پر حکومت کم وبیش ایک لاکھ روپے خرچ کرتی ہے اور ایک میٹر روڈ کی تعمیر پر کم وبیش ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 1500روپے کمانے کے چکر میں دو لاکھ روپے جو عوام کا پیسہ ہے، کو کس طرح تباہ کیا جارہا ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ انہیں روکنے والے تمام ادارے خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔

آج کل ہر علاقے کے گراؤنڈ پر بچت بازار مافیا کا قبضہ ہے، جن کے پاس این او سی نہیں وہ بھی بچت بازار اپنی بدمعاشی کے طور پر لگا رہے ہیں۔ ان بچت بازار کے ختم ہونے کے بعد بازار والے اپنا کچرا وہیں گراؤنڈ میں پھینک کر چلے جاتے ہیں، جس کی صفائی کےلیے وہ بدمعاش طبقہ کبھی آگے نہیں آتا۔ اس طرح بچوں کے کھیلنے کےلیے گراؤنڈز بھی ان مافیاز کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔ اس سے سب سے بڑا نقصان ہمارا ہی ہورہا ہے۔ ایک کلو ٹماٹر پر 10 روپے بچا کر ہم یہ سوچتے ہیں کہ بچت بازار کا لگنا ٹھیک عمل ہے، لیکن دوسری طرف ہم یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ اس سے کتنا بڑا نقصان ہورہا ہے۔ ایک طرف جہاں گراؤنڈز تباہ ہورہے ہیں، وہیں دوسری طرف بچوں کی کھیلوں کی سرگرمیاں بھی سخت متاثر ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی کچرے کے باعث گراؤنڈز تو گندے ہو ہی رہے ہیں، وہیں یہ کچرا سیوریج لائن کی تباہی کا باعث بھی بن رہا ہے، جس سے معاشرے میں نت نئی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ کچھ عقلمند اس کچرے کو آگ لگا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مار لیا، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں جہاں اتنے سارے نقصان کیے وہاں ماحول کو بھی نہیں بخشا گیا۔

سندھ کے قانون برائے تحفظ ماحول کی دفعہ 21 کے تحت ماحولیات کو سنگین نقصان پہنچانے والی کسی بھی سرگرمی کو سیپا رکوا سکتی ہے۔ 2014 ایکٹ کے مطابق ماحول کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی کارخانے، فیکٹری کو سیل کیا جاسکتا ہے۔ قوانین کے بغیر چلائے جانے والے ایسے کارخانے اور فیکٹریاں بند کرنے کے ساتھ مالکان کو جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ دفعہ 17 کے تحت کسی بھی ایسی عمارت کو گرایا جاسکتا ہے جس سے ماحول کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، بلااجازت تعمیر کی جانے والی عمارت کو دفعہ 21 کے تحت روک دیا جائے گا۔ بار بار خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ماحولیاتی ٹربیونل میں مقدمہ پیش کیا جائے گا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد کب ہوگا؟ یہاں غیر قانونی تعمیرات بھی زور و شور سے جاری ہیں تو ماحول کو نقصان پہنچانے کےلیے کارخانے بھی دن رات چل رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں ہر قسم کا قانون موجود ہے، تاہم مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان قانون کا کوڑا دان ہے، جہاں ہر قانون کو محض ذاتی مفادات کےلیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ عوامی شکایات پر کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں آتی۔ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف سخت قانون موجود ہے، مگر آج تک اس پر کہیں عمل درآمد نہیں ہوتا۔ بعض جگہوں پر خود سرکاری ملازم اس کام میں ملوث پائے جاتے ہیں، جن میں کے ایم سی کا سولڈ ویسٹ مینجمٹ کا عملہ سرفہرست ہے، جو اپنا کام پورا کرنے کے بجائے محض فرضی کارروائی پر عمل کرکے اپنی جان چھڑانے کے ماہر ہیں۔

آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ماحول کے ساتھ دشمنی آئندہ نسلوں کو انتہائی مہنگی پڑے گی۔ اگر ہم ان کے بارے میں کچھ اچھا نہیں سوچ سکتے تو پھر برا سوچنے اور برا کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ آج بے وقت کی بارشیں اور شہروں میں سیلاب کا امڈ آنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا ضروری ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں