وقت ایک سا نہیں رہتا…
جب عمر کا سورج عروج کے بعد ، زوال کی طرف بڑھتا ہے تو یہ سب یادیں پچھتاؤں کی صورت جمع ہو جاتی ہیں۔
ہمارے ایک بزرگ تھے، کوئی اسی کا سن ہو گا کہ وضو کرتے ہوئے جب پاؤں دھونے کے لیے سنک میں رکھا تو توازن نہ رکھ سکے اور گر گئے... کولہے کی ہڈی تڑوا کر کچھ عرصہ بستر کی نذر رہے اور جب دوبارہ صحت مند ہو کر اس قابل ہوئے تو اسی طرح وضو کرتے ہوئے، دوبارہ گرے اور دوسرے کولہے کی ہڈی تڑوا کر طویل عرصہ تک بستر پر رہے۔
دوسری بار ان کی عیادت کو گئے تو سوال کیا کہ جب پہلی بار ان کے ساتھ ایسا ہوا تھا تو اس کے بعد وہ دوبارہ صحت یاب ہو کر ایسا نہ کرتے۔ فرمانے لگے کہ وہ گزشتہ چالیس برس سے اسی گھر کے اسی غسل خانے کے اسی سنک میں اسی طرح سے وضو کرتے ہوئے اپنے پاؤں دھوتے رہے ہیں۔ ایک بار ہوا تو انھوں نے یہی سمجھا کہ کوئی حادثہ کبھی ہو سکتا ہے، لازم تو نہیں کہ دوبارہ ایسا حادثہ ہوتا۔ انھیں یہ سمجھانا آسان نہ تھا کہ چالیس سال پہلے وہ اسی برس کے نہیں تھے۔ بہتر تو یہی ہوتاہے کہ انسان دوسروں کی نہیں تو کم از کم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لے۔
اسی طرح ہمارے ایک عزیز دانت کی شدید تکلیف میں مبتلا ہوئے اور یک لخت وہ اپنے تین دانتوں سے محروم ہو گئے، دانت کریک ہو گئے تھے اور ان میں ایسی خرابی ہو گئی کہ ڈاکٹروں کو ان کے دانت نکالنا پڑے۔ بعد ازاں علم ہوا کہ انھوں نے اس عمر میں اپنے دانتوں سے بادام توڑنے کی ''دانت لیوا '' حماقت کی جس کے نتیجے میں وہ مہینوں تک ڈاکٹروں کے زیر علاج رہے اور پھر بھی ان کے دانت بچائے نہ جا سکے۔
ان سے سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ انھی دانتوں سے وہ بچپن اور جوانی میں مشروب کی بوتلیں کھولتے تھے، پانی کے بھرے ہوئے ڈول دانتوں سے اٹھانے کے مقابلے کرتے تھے، کچے چنے چبا کر کھا جاتے تھے اور سخت ترین بادام اور اخروٹ توڑ کر کھایا کرتے تھے۔ انھیں سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایک کاغذی بادام توڑنے سے ان کے دانتوں کا یوں کریک ہو جانا کس طرح ممکن تھا۔
یہ دو واقعات پیش کرنے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا، دن اور رات کا تغیر ہی ہمیں سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ گردش دوراں ہر چیز پر اثر انداز ہوتی ہے۔ چھوٹا سا بیج مٹی، ہوا، پانی اور دھوپ پا کر پھٹتا ہے اور اس میں سے پودا نکلتا ہے، وہ ایک مضبوط اور تناور درخت بن جاتا ہے، اس پر پھل اور پھول آتے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا ہے، اس پر بھی بڑھاپا آ جاتا ہے۔ پھل پھول لگنا بند ہو جاتے ہیں اور پھر اندر ہی اندر اس کا تنا بھی کمزورہوتا جاتا ہے۔ آخر کارخودہی وہ درخت گر جاتا ہے۔ یہی قانون فطرت ہے جو ہر چیز پر لاگو ہوتا ہے ۔
جوں جوں ہم عمر میں آتے ہیں، ہمیں اپنا وہ وقت زیادہ یاد آتا ہے جس میں ہم طاقت ور تھے، بھاگتے دوڑتے بچے تھے یا توانائی اور جوانی کا وقت تھا۔ بچپن کا چلبلا پن اور جوانی کی دیوانگی جب خواب ہو جاتی ہیں تو ہم تخیلات کی دنیا کے باسی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں خود سے جوان لوگوں سے مقابلہ کرنا ناممکن سہی مگر اچھا لگتا ہے... ہم انھیں کہتے ہیں کہ ہم اب بھی ان سے بہتر اور ان سے طاقت ور ہیں اور اسے ثابت کرنے کی کوشش میں کئی حماقتیں کر جاتے ہیں ۔ لیکن دانائی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ہم اپنی عمر کی ہر حقیقت کو تسلیم کریں ، جب ہم میں طاقت ہو اور سکت ہو تو ہم بے شک ہر طرح کا کام کریں، شرارتیں اور اچھل کود کریں مگر جب گزرتا ہوا وقت ہمارے اعضاء پر اپنے اثرات چھوڑنا شروع کر دے تو ہم اس کے مطابق اپنے معمولات کو ڈھال لیں ۔
جوں جوں آپ کی عمر آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اس کے لیے سب سے اہم ہے کہ آپ اپنی عمر کو تسلیم کریں، اپنی صحت کا خیال رکھیں ، جہاں تک ممکن ہو خود کو آرام دیں۔ اپنے ان کاموں کے لیے سہاروں کی مدد لیںجن کی ادائیگی کے وقت آپ کے پھسل جانے، عدم توازن یا چکر آنے سے گر جانے کا خطرہ ہو۔ نہاتے ہوئے کوشش کریں کہ بیٹھ کر نہائیں، لباس تبدیل کرتے وقت دیوار کا سہارا لے لیں یا ممکن ہو تو ایسی جگہوں پر ہینڈل لگوا لیں جہاں پر آپ عموما لباس تبدیل کرتے ہیں۔
وضو کرتے وقت پاؤں کو لوٹے یا مگ سے دھو لیں، سنک میں اٹھا کر پاؤں رکھنے سے یا بغیر کسی سپورٹ کے کھڑے ہو کر لباس تبدیل کرنے سے عدم توازن کا عمومی امکان ہوتا ہے۔ اگر آپ کی نظر کا مسئلہ ہے تو گاڑی نہ چلائیں ، اگر اندھیرے میں واضع نظر نہیں آتا تو شا م کو گاڑی چلانے سے بالخصوص اجتناب کریں بلکہ اگر آپ چہل قدمی کرنے کو بھی نکلتے ہیں تو تنہا نہ نکلیں ، اگر کسی کا ساتھ میسر نہ ہو تو شام کو اکیلے باہر نہ نکلیں۔ اپنی ہڈیوں اور دانتوں کا خیال رکھیں کہ ان میں ویسی قوت نہیں رہتی جیسی بیس، تیس یا چالیس برس پہلے تھی۔
نسیان کی علامات تو اب بچوں اور جوانوں میں بھی نظر آنا شروع ہو گئی ہیں، اس خطرے کے پیش نظر کہ آپ کچھ رکھ کر، کچھ لکھ کر، کسی کو کچھ دے کر یا کسی سے کچھ لے کر بھول نہ جائیں، ان چیزوں کو کسی ڈائری میں نوٹ کرلیں یا گھر میں اپنے شریک حیات اور بچوں کو اس بارے میں آگاہ رکھیں۔ اپنے فون کو پاس ورڈ نہ لگائیں کہ کسی ہنگامی صورت میں آپ کے فون سے ہی آپ کے پیاروں سے رابطہ کیا جا سکے ۔ بینکوں اور دیگر کارڈز کے پاس ورڈ لگانا ضروری ہے تو کوشش کریں کہ عام سا پاس ورڈ لگائیں، جو کہ آپ کے لیے عام ہو اور اس کا علم بھی آپ کے گھر میں چند لوگوں کو ہو۔
بچپن اور جوانی میں تو انسان ان باتوں کا شعور نہیں رکھتا اور اس عمر میں کی گئی بہت سی بے وقوفیاں اور نادانیاں عمر کے اس حصے میں آکر ہمیں اپنے نتائج دکھاتی ہیں ۔ بچپن میں ہم نے اپنے والدین کو اہمیت نہیں دی ہوتی، انھیں اس وقت غلط سمجھتے ہیں جب وہ ہمیں غلط پر ٹوکتے ہیں اور اچھے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ ہمیں جھوٹ، دھوکے ، برائی اور گناہ سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں تو ہمیں وہ سب برا لگتا ہے اور اس حد تک کہ ہم اپنے والدین کو اپنا دشمن سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، ہمیں اپنے والدین برے اور اپنے دوستوں کے والدین اچھے لگتے ہیں کہ وہ ہم سے پیار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دوستوں کے والدین نے تو ہماری تربیت نہیں کرنا ہوتی۔
ہم جسمانی کھیل کھیلتے ہیں، شرارتیں کرتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ شخصیت میں تدبر اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ لڑکپن میں ہم غیر ذمے دار ہوتے ہیں مگر گزرتا وقت ہمارے دامن میں ذمے داریوں کے بوجھ ڈال دیتا ہے اور ہم انھیں سنبھالنا سیکھتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ ہم برداشت کرنا بھی سیکھ جاتے ہیں۔
جوانی کی نادانیوںمیں ہم دوسروںکی بیٹیوں اور بیویوں کو تاڑتے ہیں، اپنی بیویوں کو مارتے پیٹتے اور انھیں تنگ رکھتے ہیں، اپنے بچوں کو آئے گئے کے سامنے بے عزت کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی نہیں کرتے، بددیانتی کرتے ہیں، عبادات کو بوجھ سمجھتے ہیں ، ذمے داریوں سے کتراتے ہیں، اپنے کام میںمخلص نہیں ہوتے ، دوستوں سے دھوکے کرتے ہیں، رشوت لیتے اور دیتے ہیں، اقرباء پروری اور سفارش کرتے ہیں، قانون توڑتے ہیں، اپنے فرائض سے غفلت کرتے ہیں اور اچھے شہری ہونے کو اہم نہیں سمجھتے۔ خاندان اور رشتہ داریوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اور ان سے کنارہ کیے رکھتے ہیں۔
جب عمر کا سورج عروج کے بعد ، زوال کی طرف بڑھتا ہے تو یہ سب یادیں پچھتاؤں کی صورت جمع ہو جاتی ہیں۔ وہ وقت جو گزر گیا اور اس میں ہم نے جو غلطیاں کیں، اب ان کی اصلاح ممکن نہیں ... خواہ وہ غلطیاں جسمانی تھیں یا ذہنی۔ توبہ تائب کا وقت اب بھی ہے، غلطیوںکو نہ دہرانے کا وقت آخری سانس تک ہے، جو کیا اور اب لگتا ہے کہ غلط کیا، اسے مزید نہ کرنے کا وقت تو اب بھی ہے ۔
جو وقت ہاتھ میں ہے، اسے مثبت طریقے سے استعمال کریں، اب بھی اپنے اور دوسروں کے لیے احتیاط کریں ۔ دوسروںکے دل نہ دکھائیں، گناہوں اور غلطیوں سے اجتناب کریں۔ اس وقت کا بہترین مصرف سوچیں تا کہ ایسا نہ ہو کہ جب دنیا سے جائیں تو دامن میں خساروں اور پچھتاؤں کے انبار ہوں ۔