ریلوے میں پھر نج کاری 16 ٹرینیں آؤٹ سورس

اب اگرآپ نے نج کاری کرنی ہے تو پھر پوری ایک ٹرین کی مکمل نجکاری کریں تاکہ صرف ٹکٹ بیچنے کا ٹھیکہ دے دیں۔


Manzoor Razi September 27, 2020

ایک مرتبہ پھر پاکستان ریلوے میں نجکاری کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے بھی ایسے فیصلوں نے ریلوے کو شدید مالی بحران کا شکارکیا، معاہدے منسوخ ہوئے، ٹھیکیدارگاڑیاں چھوڑکر بھاگ گئے اور ریلوے کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگا گئے۔

پیپلزپارٹی کی حکومت میں وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے بہترین ٹرین بزنس ایکسپریس کو پبلک پارٹنر شپ پر لاہورکی ایک کمپنی کو ٹھیکے پر دیا۔ ہم نے احتجاج کیا۔ ٹرین کو روکا، غلام احمد بلور نے افتتاح کرنا تھا، ہم کینٹ اسٹیشن پر احتجاج کررہے تھے وہ ہمارے پاس آئے، مجھے اور میرے ساتھیوں سے کہا کہ ''آپ ٹرین کو چلنے دیں، ریلوے کا پہلے ہی پرویز مشرف کے وزیر نے بیڑا غرق کردیا ہے، ہمیں اس نئی اور جدید ٹرین کو چلانے دیں، آپ کے ساتھ میٹنگ کرکے آپ کے خدشات دور کریں گے''۔

اس طرح آدھے گھنٹے لیٹ ہو کر پولیس اور افسران کی فوج ظفر موج کے ساتھ بزنس ٹرین کو چلایا گیا بعد میں معاہدے کی کاپی دی گئی جس میں لکھا گیا کہ ٹرین کے مالک اورکمپنی معاہدے کے تحت ٹکٹ بیچے گی اور 28 فیصد کمیشن ہم لیں گے۔ 72 فیصد ریلوے کو روزانہ کی بنیاد پر کراچی اور لاہور میں رقم جمع کرائیں گے، خیر جدید سہولتوں سے تیارکردہ ٹرین چل پڑی، جس میں AC کی16 بوگیاں تھیں اورکرایہ بھی 2010 میں سات ہزار مقررکیا گیا جس میں مسافروں کے لیے ناشتہ،کھانا بھی ٹکٹ میں شامل رقم سے ادا کیا جائے گا، خیر ایسا ہوتا رہا۔

اس کے علاوہ بھی چار ٹرینیں بھی پرائیویٹ سیکٹر کو دی گئیں ہم شور مچاتے رہے، حکومت اور ریلوے انتظامیہ مل کرکام کرتے رہے۔ دو سال بعدکمپنی اور مالک نے ریلوے کے ایک ارب 80کروڑ روپے کی رقم ہڑپ کرلی۔ ریلوے سپریم کورٹ میں چلی گئی تاحال مقدمہ چل رہا ہے اسی طرح دیگر ٹرینوں کا بھی یہی حال ہوا۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت آئی اور پھر خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے بن گئے۔

انھوں نے تمام معاہدے منسوخ کرکے فیصلہ کیا کہ ہم خود یعنی محکمہ ریلوے اپنی ٹرینیں خود ہی چلائے گا۔ اچھا فیصلہ تھا، ریلوے بہتر ہوگئی۔ گاڑیاں وقت پر آنے اور جانے لگیں کرائے بھی کم کیے گئے۔ عید کے موقع پر آدھے کرائے پر سفرکی آزادی دی گئی۔ ریلوے کافی حد تک اپنے پاؤں پرکھڑی ہوگئی تھی خسارہ بھی کم ہو رہا تھا ملازمین بھی مطمئن تھے۔

اب میں حکومتی افسران سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ نج کاری کا مطلب کیا ہے؟ دیکھیں جناب! اول تو ہم نجکاری کے مکمل خلاف ہیں، اگر پھر بھی حکومتیں ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف کے احکامات مانتی ہیں تو پھر دنیا میں کہاں قومی اداروں کو نجکاری کے شعبے میں دیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں ریلوے حکومت کی نگرانی میں چلائی جا رہی ہے خود امریکا اور لندن اور یورپ سمیت ہندوستان میں بھی حکومتیں ریلوے چلا رہی ہیں۔ سوائے جاپان کے جہاں پرائیویٹ سیکٹر بھی موجود ہے اور حکومت بھی موجود ہے۔

پاکستان ریلوے نے بار بار یہ کام کیا اور واپس آگئے، اب اگرآپ نے نج کاری کرنی ہے تو پھر پوری ایک ٹرین کی مکمل نجکاری کریں تاکہ صرف ٹکٹ بیچنے کا ٹھیکہ دے دیں۔ ٹکٹ تو ہمارے بک رہے ہیں بڑی مشکل سے ٹرینوں میں ریزرویشن ہوتی ہے، سفارش لگائی جاتی ہے یا پھر (روپیہ) میرا چونکہ تعلق کمرشل بکنگ ریزرویشن اور ٹکٹ چیکر سے 32 سال سے رہا ہے خیر آگے چلتے ہیں۔

نجکاری کے لیے ضروری ہے کہ مالکان اپنی ٹرینیں لائیں اپنے انجن اور بوگیاں لائیں اپنا اسٹاف لائیں۔ انجن اور بوگیاں ہم سے خرید لیں یا پھر ایران سے یا چین سے خرید کر ہمارے ٹریک پر چلائیں اور ہمیں اس کا کرایہ ادا کریں اور مقابلہ کریں۔ پاکستان ریلوے اور پرائیویٹ ریلوے کون بہتر سروس فراہم کرتا ہے۔ کس کے کرائے کم اور اچھے ہیں یہ کیا کہ ہمارا انجن ہمارا ڈیزل یا تیل ہمارے ڈرائیورز، فائرمین ہماری کوچز اور ان کی مرمت بھی ہم کریں۔

ٹرین کے پنکھے بلب، باتھ روم بھی ہم ٹھیک کریں، ٹرینوں کی مینٹیننس بھی ہم کریں اور آپ ٹکٹ بیچ کر لوٹ مار کریں حادثہ ہو تو ہمارا انجن اور بوگیاں تباہ ہوں، نقصان ہمارا فائدہ آپ کا۔ ایسا نہیں ہوگا۔ جس طرح ایئرپورٹ سے پی آئی اے کے جہاز اڑ رہے ہیں اسی طرح پرائیویٹ جہاز دیگر ایئرلائنیں چل رہی ہیں اور وہ سول ایوی ایشن کوکرائے دیتے ہیں اسی طرح ہمارے ریلوے ٹریک پر اپنی ٹرینیں چلائیں انجن اور بوگیاں پاکستان ریلوے مکمل طور پر ایک سال یا پانچ کے لیے خرید لیں اور دبا کر منافع کمائیں۔ خیر بات کہاں سے کہاں تک چلی گئی۔ اصل میں اب ریلوے وزیر شیخ رشید احمد نے طے کیا ہے کہ ایم ایل ون بن گیا تو ریلوے بہتر ہو جائے گی۔ تو پھر ان 16 ٹرینوں کو پرائیویٹ سیکٹر کو دے رہے ہو؟

سوال اور جواب اور ریل کی کہانی بڑی لمبی ہے۔ میں مختصراً ان 16 ٹرینوں کے بارے میں آپ سے کچھ اشاروں میں بتانا چاہتا ہوں جو میں نے ریلوے کے اعلیٰ حکام سے معلومات لی ہیں اور کچھ مواد اخبارات سے بھی مل گیا ہے۔ ایم ایل ون کا انٹرنیشنل ٹینڈر بھی آجائے گا اور ان 16 ٹرینوں کا بھی ٹینڈر نکل آئے گا۔ یہ ٹرینیں کون سی ہیں میں عرض کرتا ہوں۔

(1)۔ کراچی تا میرپورخاص جانے والی ٹرین۔ (2)۔مہران ایکسپریس اور شاہ لطیف ایکسپریس۔(3)۔ کراچی سے لاہور جانے والی شالیمار ایکسپریس۔ (4)۔کراچی تا حویلیاں جانے والی ہزارہ ایکسپریس۔(5)۔کراچی تا راولپنڈی جانے والی سرسید ایکسپریس۔ (6)۔لاہور سے گجرانوالہ جانے والی تین ٹرینیں۔ (7)۔ملتان تا لاہور جانے والی ملتان ایکسپریس۔ (8)۔ملتان تا سرگودھا جانے والی چناب ایکسپریس۔ (9)۔لاہور تا نارووال تک چلنے والی لالہ موسیٰ ایکسپریس۔ (10)۔لاہور تا نارووال جانے والی نارووال پسنجر ٹرین۔ (11)۔ ملتان جھنگ اور سرگودھا جانے والی صندل ایکسپریس۔ (12)۔لاہور سے چک جھمرہ سرگودھا جانے والی سرگودھا ایکسپریس۔ (13)۔راولپنڈی سے کوہاٹ جانے والی کوہاٹ ایکسپریس اور کوئی اور ٹرین اس طرح یہ سولہ ٹرینیں ٹھیکیدار یا مالک چلائے گا۔ یہ کام کریں گے یا پھر بھاگ جائیں؟

اطلاعات کے مطابق لاہور ہیڈ کوارٹر میں ریلوے کے شعبہ مارکیٹنگ کی جانب سے مکینیکل اور انجینئرنگ کیرج اینڈ ویگن اور مغل پورہ کیرج ورکشاپ میں کام شروع کرنے کے لیے باقاعدہ آغاز کردیا گیا اور جلد ہی ان ٹرینوں کی بوگیوں اورکوچز کو نئے طریقے سے تیار کریں گے یا پھر پرانی کوچز کو مرمت کرکے ٹریک پر لایا جائے گا۔

اسی طرح وزیر ریلوے کے اعلان کے مطابق تمام ٹرینوں میں ڈائننگ کاریں بھی جلد ہی لگا دی جائیں گی۔ امید ہے ریل جلد ہی بہتر ہو جائے گی۔ ہماری مال گاڑیاں اور فریٹ ٹرینوں کی بھی تعداد بڑھائی جائے گی جس کی آمدنی پسنجر ٹرینوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ ملازمین کے مسائل اور مطالبات پر بھی ریلوے وزیرکو خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ ملازمین بہتر ہوں گے تو ادارہ بھی بہتر ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں