شام کے بعد
جمہوریتیں ہوں یا آمریتیں معیشت کے ساتھ سب نے کھیلا ہے۔ سب نے قرضوں پر اکتفا کیا۔
اقتدار کی رسہ کشی ، حق حکمرانی، آئین کیا کہتا ہے اور پھر آئین جو کہتا ہے، کیا وہ ہوتا بھی ہے کہ نہیں ؟ اور اگر نہیں تو کیسا ہے یہ آئین؟ کل جو دو چار ملاقاتوں کا تذکرہ ہوا تو تاریخ کے کئی باب کھل پڑے۔
بیس ستمبر کی وہ شام پاکستان کی تاریخ کا شاید نیا موڑ ہے ۔ جہاں ملاقاتوں کی داستان کھلی، بیس ستمبر کے واقعہ کے بعد ، پہلے کیوں نہیں؟ گویا بیس ستمبر کو کچھ خاص ہلچل تھی ۔ وہ بھرم جو رکھ گئے تھے ، وہ سب ٹوٹ گئے۔ وہ پردے چاک ہوئے جن کے پیچھے چھپ کر ملتے تھے ۔ اب تو وہ آشنا بھی گئے ، جو ملتے تھے ، ہاں مگر اب ڈر کے مارے ملیں گے نہیں اور جو ملیں گے تو ملنے سے پہلے بھی اعلان کریں گے اور ملنے کے بعد بھی۔ یہ چھپ چھپا کی ملاقاتیں کبھی ضروری بھی تھیں جب حد سے بڑھ جائیں اقتدار پر تجاوزات ، جب جمہوریت اپنے ٹریک سے اترنے لگے یا پھر جب اتر چکی ہو۔
بینظیر جب مشرف سے ملیں تو کھلے عام ملیں اور اسی طرح آمریت کو آہستہ آہستہ سمیٹنا بھی مقصود ہوا ۔ جب بینظیر 18 اکتوبر2007کو کراچی کی سر زمین پر اتریں تو میں بھی اسی جہاز میں تھا ۔ مجھ سے دو گز کا فاصلہ ہو گا جب جہاز کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے وہ اپنی آبدیدہ آنکھوں سے اس زمین کو دیکھ رہی تھیں ۔ اسی سفر کے دوران بینظیر نے ابھی چند میل کا سفر طے کیا ہوگا کہ قاتلانہ حملہ ہوا، بینظیر تو مرتے مرتے ہی بچی تھیں مگر سو سے زیادہ گمنام لوگ شہید ہوگئے۔ وہ جمہوریت کے اس کارواں کے مسافر تھے نہ جانے اور کتنے ہوںگے۔
میرے پٹارو کے زمانے کے دوست پیر فرید جو ایس ایس پی تھے اور بینظیر کے اس کارواں کے محافظ بھی، بینظیر کو بڑی مہارت سے نکالنے میں کامیاب ہوئے مگر بہت زخمی بھی ہوئے ۔ میں جب اس کی عیادت کرنے گیا ، اس کی آنکھیں آبدیدہ تھیں وہ رنجیدہ دل سے کہنے لگے کہ '' وہ بینظیر کو مار دیں گے '' وہ اسے آخر میں بلاول ہائوس میں گھس کر بھی ماریں گے، اگر ان حملوں سے وہ بچ جاتی ہے۔ میرے دماغ میں صرف ایک ہی بات تھی کیا خود بینظیر کو اس بات کا علم نہ تھا؟ کیوں پتہ نہیں ہو گا؟ کیوں چھوڑ آئی تھی شوہر اور بچے پیچھے، کیوں وصیت کی؟ اور جب شہید ہوئی تو کیوں اس کے قتل کے پورے منظر کو فوراً پانی سے صاف کردیا گیا ۔ کرائم انویسٹیگیشن کے کس مینیول میں یہ مرتب ہے کہ ایسا کیا جاتا ہے؟
اور پھر بھٹو کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ بھٹو جو اپنے عہد میں شیخ مجیب کے خلاف استعمال ہوئے۔ خود شیخ مجیب بھی ملاقاتیں کرتے تھے ۔ مارچ 1971 کا وہ سیاہ مہینہ پاکستانی تاریخ کا! میرے والد شیخ مجیب کے ہمہ وقت ساتھ تھے۔ وہ جنرل یحییٰ سے ملے، بھٹو سے ملے۔ کیا کیا نہ کیا کہ شیخ مجیب اسمبلی کا اجلاس بلا پائے ۔ ابا کہتے تھے کہ مجیب کو سب پتہ تھا کہ اب عوامی لیگ کی سوچ بدل رہی ہے اور اب وہ اسے روک نہیں پائیں گے اور اگر روکنے کی کوشش کی تو خود تنہا رہ جائیں گے۔
کیوں نہیں بننا چاہتے ہوں گے شیخ مجیب متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم؟ وہ غدار نہ تھے وہ تو خود دیوار سے لگا دیے گئے ۔ وہ وقت تھا جب بھٹو کو مجیب کے ساتھ کھڑا ہونا تھا ۔ میرے والد کہتے تھے کہ بھٹو نے شیخ مجیب سے وزارت خارجہ مانگی تھی مگر مجیب نے کہا کہ جب میں حکومت بنائوں گا تو وزیر خارجہ بھی ہمارا ہو گا۔ اور بھٹو جو شیخ مجیب کے خلاف یحییٰ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوئے ان کا کیا انجام ہوا؟ ہاں مگر بھٹو عوام کے ساتھ جڑ گئے۔ میاں نواز شریف جو بینظیر کے خلاف استعمال ہوئے ان کا کیا ہوا؟ ان تمام اختلافات اور حالات کے پیچھے کونسی قوت تھی؟ جنرل یحییٰ لاڑکانہ تک بھی بھٹو سے ملنے آتے تھے۔
جب بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا تھا تو ولی خان صاحب کہاں کھڑے تھے؟ اور جو ولی خان کے ساتھ بھٹو نے کیا ؟ پھر نواز شریف اور بینظیر تمام تر اختلافات کو لے کر بالآخر میثاق جمہوریت تک پہنچے اور اس طرح عمران خان کا ظہور ہوا۔ اور اب عمران خان صاحب، دیکھیں کیا ہوتا ہے، ان کے ساتھ۔
بس ستمبر کی وہ شام ایک نیا موڑ ہے کہ اب ملاقاتیں تو ہوں گی مگر سب ریکارڈ پر رکھی جائیں گی۔وعدے ہوتے نہیں کیے جاتے ہیں ۔ حالات نہ بدلیں تو وعدے بھی ادھورے رہ جاتے ہیں ۔ پنجاب بدل چکا تو نواز شریف بھی بدل چکے ہیں ۔ نہ بدلہ تو زرداری صاحب کا سندھ نہ بدلا، وہ ہی وڈیروں کا راج، وہ ہی دہقان ہیں ہاں مگر سندھ کا کراچی بہت بدل چکا ہے ۔ وہ اب نہ متحدہ کا ہے، نہ پی ٹی آئی کا اور نہ ہی پی پی پی کا ۔ جہاں جہاں اب مڈل کلاسی اور تاجر ہوگا، نوجوان ہوں گے ان کو جمہوریت کی طرف ہی کھڑا ہونا بہتر لگتا ہے ۔ خیبر پختون خوا بہت بدل چکا ہے ۔ اور بھی بہت کچھ بدل رہا ہے اور بیس ستمبر کی شام کے بعد جب سارے راز افشا ہوئے تو اور بھی بہت بدل چکا۔ بات تو تب بنتی ہے، پھر ایک نیا معاہدہ ہوگا کیونکہ میثاق جمہوریت اب پرانا ہوا۔ پاکستان کی تاریخ اتنی سیاہ ہے کہ جیسے شمشان کی شب جس طرح فیضؔ کہا کرتے تھے۔
''لب پہ لائوں تو میرے ہونٹ سیاہ ہوجائیں''
اور ہمارے برعکس بنگلا دیش اور ہندوستان کی تاریخ ہے جس کی سیاہی اتنی گاڑھی نہیں ۔ ان کی شرح نمو بھی اتنی نہیں گری ، ہندوستان آٹھ فیصد پر بیس سالوں سے بڑھ رہا ہے اور بنگلا دیش نے اب صحیح سمت پکڑ لی ہے، ان کی معیشت بھی سات فیصد پر آگے بڑھ رہی ہے۔ ٹوٹل دو یا چار سال ہوئے ہوں گے ان پچھتر سالوں کی تاریخ میں کہ ہماری معیشت سات فیصد سے بڑھی ہے ۔ ہماری شرح نمو اب رک گئی ہے وہ اس طرح صرف ایک یا دو فیصد سے بڑھے گی۔ ہمارے پاس تعلیم کے لیے پیسے نہیں نہ ہی صحت کے لیے ۔ ہمارے ٹیکسز بڑھ نہیں رہے جب ہماری شرح نمو سات فیصد سے دہائیوں تک نہیں بڑھے گی تو ہم بھی اس بھنور سے نہیں نکل سکتے۔
جمہوریتیں ہوں یا آمریتیں معیشت کے ساتھ سب نے کھیلا ہے۔ سب نے قرضوں پر اکتفا کیا۔ اور جو چند ڈالر ہم نے کمائے وہ ہم نے بڑی گاڑیاں ، چاکلیٹ اور چیز وغیرہ منگوانے میں ضایع کردیے۔ یہ سب کس نے کیا ہمارے شرفاء نے۔ جب جمہوریت آتی ہے تو وہ جمہوریت نہیں ہوتی براہ راست آمریت ہوتی ہے یا پھر خان صاحب کے جیسا ماڈل ہوتا ہے۔ ان تمام کے پس پردہ یہی ملاقاتیں ہیں، جو پردے میں ہوتی ہیں ۔ پھر بھی ارتقاء کی مسافتیں یہی ہیں۔ آہستہ آہستہ الیکٹیبلز پر انحصار بند کرو۔ زرداری صاحب! سندھ کو تبدیل کرو ، اس کو وڈیرا شاہی کی طرف مت دھکیلو ورنہ پھر لیڈر مریم نواز شریف ہوںگی ، بلاول بھٹو نہ ہوں گے کیوں کہ مریم نواز شریف کے پیچھے پنجاب کی ایک بھرپور آزاد مڈل کلاس کھڑی ہے اور بلاول کے پیچھے وڈیروں کی ظلمتوں کے تلے رہتا ہر دہقان۔
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے ، یہ ہیں سب ورق تری یاد کے
کوئی لمحہ صبحِ وصال کا، کئی شام ہجر کی مدتیں
(فیضؔ)
ہجر طویل ہوتا ہے ، اور وصل مختص۔ ان ملاقاتوں کی جو بات چھڑی تو ترتیب سے سب ہجر کے ورق ہیں جو پلٹ پڑے ۔ ایک دن ایسا آئے گا جب پاکستان ہوگا اور سب آئین کے تابع ہوں گے اور معیشت ہماری سات فیصد پر بڑھے گی، معیشت لاکھوں لوگوں کو روزگار دے گی۔ اربوں روپے ہمیں ٹیکس کی مد میں ملیں گے اور یوں ہمارا قرضوں پر انحصار کم ہوگا۔