ایک تقریرجس کی بازگشت ہنوز باقی
میاںصاحب کے شعور اور لاشعور میں یہ ساری باتیں گھوم گھوم کرستاتی رہتی ہیں
20ستمبر2020کو حکومت مخالف آل پارٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے تقریباًایک گھنٹے کی جو تقریر کی وہ ہوسکتاہے ہمارے بہت سے لوگوں کو سخت ناگوار گزری ہو۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیایہ تقریر ہمارے عوام کو بھی اتنی ہی بری اور ناگوار محسوس ہوئی جتنی کہ پی ٹی آئی کے لوگوں کو ۔
میاںنوازشریف ابھی تک اپنے اُس بیانیہ پر سختی سے قائم ہیں بلکہ ڈٹے ہوئے ہیں جو بیانیہ انھوں نے 2017 میں اپنی معزولی سے اپنایا تھا۔ اُن کی دوسال سے زائد خاموشی کوکچھ لوگ اُن کی کمزوری اور پسپائی سمجھ رہے تھے اور اپنے سیاسی بیانوں میں اُن کاتمسخر بھی اُڑایاکرتے تھے کہ کہاں گیا وہ بیانیہ جوووٹ کو عزت دلانے کی غرض سے جی ٹی روڈ سے شروع ہواتھا۔چند دنوں کی جیل نے سارا دم خم نکال دیا۔مگر لگتا ہے میاں صاحب اپنے اُن دنوں کے زخموں کو ابھی تک نہیں بھولے۔وہ خاموش ضرور رہتے ہیں لیکن جب بھی بولتے ہیں دل کے سارے غبار کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔
انھوں نے جوکچھ کہااُسے جھٹلایابھی نہیں جاسکتا۔یہ ہماری سیاسی تاریخ کا وہ تلخ باب ہے جس سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔یہ اور بات ہے کچھ لوگوں کو اُن کی وقتی یاعارضی مصلحتیں اور مجبوریاں انھیں اِس کے برملااعتراف سے روکتی رہتی ہیں۔وہ چاہے عمران خان صاحب ہوں یاپھر شیخ رشید۔شیخ جی کے بارے میں تو ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1993 میں جب وہ میاں صاحب کے قریبی رفقاء میں شامل تھے اورمعین قریشی کے دور میں ہونے والے الیکشن میں جب اُن کی پارٹی کو کامیابی نہیں ملی تو یہ شیخ رشید ہی تھے۔
جنھوں نے ببانگ دہل کہاتھا کہ اِن انتخابات میں 8 نمبر کا خاکی ریگ مال استعمال ہوا ہے لیکن آج وہ میاں کے مخالف کیمپ میں ہونے کی وجہ سے خود کواسی خاکی کا ترجمان کہتے سنائی دیتے ہیں۔ میاںصاحب نے آج جو کچھ بولا ہے وہ یقینا عوام کی توقعات اور احساسات کوسامنے رکھتے ہوئے ہی کہا ہے ۔
جی ٹی روڈ پر نکلنے کا جب انھوں نے فیصلہ کیاتھاتووہ بھی اِسی چیز کو مد نظر رکھ کرکیاتھا۔عوام اُن سے ایسے ہی ردعمل کی توقع رکھتے تھے اوراب بھی رکھتے ہیں۔ ساتھیوں کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے وہ چاہتے تو موٹروے کے راستے چپ چاپ رائیونڈ جاکر بیٹھ جاتے اور اپنے خلاف نیب عدالتوں کے فیصلوں سے بھی شاید بچ جاتے لیکن انھوں نے مزاحمت کرنے کو اپنے لیے بہتر جانا۔اُن کے ساتھیوںمیں جو ثابت قدم تھے وہ جمے رہے اورتمام تکلیفوں کے باوجود ساتھ نبھاتے رہے۔اورکم ہمت اور کمزور دل تھے وہ راستہ بدل گئے۔
میاں صاحب کی ایک گھنٹے کی تقریرمصائب زدہ لوگوں کے دلوں کی ترجمانی بھی تھی۔لوگ موجودہ حکومت کی کارگزاری سے تنگ آچکے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ چھٹی کے دن ہونے کے باوجود لوگ اُن کے اِس خطاب کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے اور سب نے بغور سنابھی۔ وہ جو کچھ کہہ رہے تھے اگر جھوٹ اورلغو ہوتاتو اُس کی بازگشت ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر آج ایک ہفتہ گذر جانے کے باوجود گونج نہیں رہی ہوتی ۔ یہ اور بات ہے کہ خود اُن پر بھی اُسی نرسری میں پیدا ہونے کاالزام لگا ہواہے جسے ہمارے یہاں کچھ لوگ عیب سمجھتے ہیں۔
ویسے تو ہمارے یہاں بہت سے سیاسی لیڈر ایسی ہی نرسریوں میں پرورش پا کرجوان ہوئے ہیں۔اِسے وقت اورحالات کاتقاضہ سمجھیں یاپھر مطلق العنان حکمرانوں کی مجبوریاں جنھیں اپنے غیر قانونی اقتدار کو دوام بخشنے اور جائز بنانے کے لیے ایسے سویلین افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اُن کے اقتدار کادورانیہ ویسے بھی اتناطویل بھی ہوتا ہے جس میں لامحالہ نئے چہرے سیاست میں سامنے آتے رہتے ہیں۔اُن میں جوباصلاحیت ہوتا ہے وہ خود بخود اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔
محترم ذوالفقار علی بھٹو بھی ایسے ہی غیر جمہوری دور میں خالصتاً اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پرملکی سیاست میں شامل ہوئے تھے۔بعد ازاں انھوں نے اُس نظام سے بغاوت کرکے عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ وہ جسے کسی زمانے میں اپنا ''ڈیڈی'' کہا کرتے تھے پھر اُسی کے خلاف سڑکوں پر بھی نکل آئے۔میاں نواز شریف بھی بالکل اِسی طرح ایک اچھے بزنس مین ہونے کے ناتے جناب ضیاء الحق کے زمانے میں پنجاب کے غیر منتخب وزیرخزانہ بنے اور پھر 1985میں غیر جماعتی انتخابات میں کامیاب ہوکر پنجاب کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ وہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر مسلسل آگے بڑھتے گئے اور بالاخر 1990 میںاس ملک کے وزیراعظم بھی بن گئے۔
یہ وہ دور تھاجب آئین ودستور کی بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم کے ذریعے سویلین حکومتوںکو قبل ازوقت برخاست کردیاجاتا تھا۔ اِس ترمیم کے ذریعے کسی بھی جمہوری حکمران کو اپنے ایجنڈے کے مطابق شاید اِس لیے کام کرنے نہیںدیاجاتا تھا کہ کہیں وہ اپنی کارکردگی کی وجہ سے عوام میں اتنے مقبول ومعروف نہ ہوجائیں کہ پھر انھیں ہٹاناناممکن ہوجائے۔
یہی ڈر اور خوف 2013 کے الیکشن کے بعد بھی محسوس کیاجانے لگا تھا۔میاں نوازشریف نے برسراقتدار آتے ہی ملک کی ترقی وخوشحالی کے اپنے ایجنڈے پر تیزی سے عمل درآمد کرناشروع کردیا اور سب سے پہلے دہشت گردی کے اُس عذاب سے قوم کی جان چھڑائی جس نے دس بارہ سال سے سارے ملک کوجکڑ رکھاتھا۔دوسرابڑاکام انھوں نے بجلی کے بحران کو حل کرنے کی غرض سے کیااورتوانائی اوربجلی پیدا کرنے کے نئے کارخانے لگائے۔
ساتھ ہی ساتھ انھوں نے انفرااسٹرکچر کی جانب توجہ مبذول کرکے سڑکوں، شاہراہوں اور موٹرویز کے جال بچھائے۔ کراچی میں برسوں سے غارت شدہ امن بحال کیا اور اس عذاب سے یہاں کے شہریوں کو نجات دلائی جس سے چھٹکارہ ناممکن دکھائی دیتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ2017 کے شروع ہی میں یہ محسوس کیاجانے لگا تھا کہ اب میاں صاحب کو اگلا الیکشن جیتنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ تمام سروے اور اعدادوشمار یہی عندیہ دے رہے تھے۔خودجناب شیخ رشید اپنے ایک بیان میں اداروں کو متنبہ کرچکے تھے کہ اگر میاں صاحب کاراستہ نہ روکاگیاتوپھر انھیں طیب اردگان بننے سے روکا نہیںجاسکے گا۔
میاںصاحب کے شعور اور لاشعور میں یہ ساری باتیں گھوم گھوم کرستاتی رہتی ہیں۔ عوام بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، گو کہ اُن کی یادداشت بہت کمزور ہے لیکن وہ اب اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں کہ میاں شریف کاقصور اتنا بڑا نہیںتھاجتنی انھیںسزاسنادی گئی ہے ۔اِس سارے جبروستم کے باوجود عوام میں میاں نوازشریف کی مقبولیت کوکم نہیںکیاجا سکا۔ وہ عوام میں آج بھی اُسی طرح مقبول اور مشہور ہیں جتنے 2017 میں تھے۔ یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں۔تبدیلی سرکارنے تو اُن کاجیناحرام کردیا ہے۔ دو سالوں میںتمام اشیاء خورونوش کے دام تقریباً دگنے کردیے گئے ہیں۔
ہر چند مہینے بعد تمام چیزوں کو نئے سرے سے مہنگاکردیا جاتا ہے اور توجیح یہ پیش کی جاتی ہے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو اِن کی قلت پیداہوجاتی اور یہ مارکیٹ سے غائب ہوجاتیں۔ چیزوں کے داموں کو کنٹرول کرنے کا یہ عجیب وغریب فارمولا پہلی بار سامنے آیا ہے۔ مصنوعی قلت کو روکنے کے لیے چیزوں کے دام ہی بڑھادیے جائیں۔تمام بحرانوں کاوزیراعظم کی جانب سے نوٹس بھی لیاجاتا ہے اوراُنکی تحقیقات ضرور کی جاتی ہیں لیکن نتیجہ صفر کا صفر ہی رہتا ہے۔
میاں نوازشریف کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی کے پلڑے میں ابھی تک کوئی کارنامہ درج نہیںہے۔ مقررہ مدت میں سے نصف حصہ الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں میں گزر چکاہے ۔اب بھی وقت ہے باقی ماندہ تین سالوں میں عوام کو ریلیف دلانے کے لیے اقدامات کیے جائیں ورنہ یاد رکھیے لوگوں کے غیظ وغضب کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ جن حلقوں کی آپ کو آج پشت پناہی حاصل ہے۔برا وقت آنے پروہ بھی ساتھ چھوڑسکتے ہیں۔