شاہ اور شیکسپیئر

شاہ عبداللطیف بھٹائی ایک ایسے صوفی شاعر ہیں جنھوں نے شاعری کے توسط سے وجود، زندگی اور کائنات کو لفظوں میں یکجا۔۔۔


Shabnam Gul December 18, 2013
[email protected]

شاہ عبداللطیف بھٹائی ایک ایسے صوفی شاعر ہیں جنھوں نے شاعری کے توسط سے وجود، زندگی اور کائنات کو لفظوں میں یکجا کر کے پیش کیا ہے۔ سب سے پہلے انسان کا وجود ہے جو پوری کائنات کو محسوس کرتا ہے۔ اس کے خیال کا عکس زندگی کی روح بن کر دھڑکتا ہے زندگی کو انسان اپنی سوچ کی وسعت سے معنویت بخشتا ہے۔ سوچ یا خیال جو تصور میں حقیقت کا رنگ بھرتے ہیں، حقیقت جو سوچ کے لمحے کا اعجاز ہے۔ شاہ لطیف کی شاعری میں کرشماتی سوچ کا عکس جابجا بکھرا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو شاہ لطیف کا شعر کسی مخصوص دور تک محدود نہیں ہے یہ فکر ہمہ گیر ہے۔ شاہ کے اشعار میں بین الاقوامی وسعت موجود ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ انگریزی شاعری کا تخیل زیادہ تر جسمانی محبت تک محدود ہے۔ جب کہ مشرقی شعرا مجاز و حقیقت کے راستوں کے درمیان بھٹکتے ہوئے لازوال کے قریب ہو جاتے ہیں۔

اگر شاہ لطیف کی شاعری کا موازنہ دنیا کے قدیم و جدید شعرا کے ساتھ کیا جائے تو شاہ کی شاعری کا گہرائی سے مطالعہ کرنیوالا نقاد بلا جھجھک اپنا فیصلہ شاہ لطیف کی شاعری کے حق میں دیگا خاص طور پر انگریزی کے کسی بھی شاعر کے ساتھ ان کا موازنہ کیا جائے تو نہ صرف اشعار میں مطابقت نظر آتی ہے بلکہ خیال کی گہرائی میں شاہ صاحب بہت آگے نظر آتے ہیں۔ شاہ اور شیکسپیئر میں بھی گہری مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ دونوں نے رومانوی داستانوں کو موضوع سخن بنایا ہے۔ المیہ نگاری دونوں شعرا کے کلام کا جزو خاص ہے۔ کردار نگاری پر مہارت یکساں طور پر ملتی ہے۔ شاہ صاحب کی داستانوں میں ڈرامے کا عنصر نمایاں طور پر ملتا ہے۔ قصہ نویسی میں دونوں کا جواب نہیں ہے۔

شیکسپیئر واروکشائر کے گاؤں اسٹراٹ فورڈ اپان اوان میں اپریل 1564ء کو پیدا ہوا۔ وہ 1592ء میں ڈرامہ نگار کے طور پر متعارف ہوا۔ 1594ء میں اداکاروں کی کمپنی کا رکن بنا۔ اپنے ڈرامے ہیملٹ میں اداکاری بھی کی مگر وہ اس شعبے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ اسے انگلینڈ کا قومی شاعر کہا جاتا ہے۔ شیکسپیئر نے 38 ڈرامے ، 154 سانیٹس، دو طویل نثری نظمیں اور متنوع شاعری کی ہے۔ اس کے ڈراموں ہیملٹ، کنگ لیئر اور اوتھیلو نے کامیابی حاصل کی۔

شاہ ہالا حویلی جو کہ ہالا حیدر آباد میں واقع ہے 1689ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کی زندگی زیادہ تر سیر و سیاحت میں گزری۔ موسیقی سے شغف تھا، اس لیے طنبورو نامی ساز بجایا کرتے تھے۔ ان کا کلام ''شاہ جو رسالو'' میں ترتیب دیا گیا ہے۔ شاہ زمینی حقائق کے قریب تر ہیں۔ مٹی اور اس کی محبت کے تناظر میں کرداروں کو تخلیق کرتے تھے۔ ان کے کردار یقین کی طاقت سے بہرہ ور ہیں۔ انتشار میں ارتکاز، کثرت میں وحدت اور ہجر میں وصال کے جوہر انھوں نے اپنی شاعری کے توسط سے ڈھونڈ نکالے۔

خود ہی جل جلالہ' خود ہی جان جمال
خود ہی صورت یار کی' خود ہی حسن کمال
خود ہی پیر مرید ہے' خود ہی یار خیال
یار کا سارا حال' یار سے ہم نے جانا

شیکسپیئر کا الگ انداز فکر ہے، وہ زمینی حقائق سے دور تصوراتی دنیا کا باشندہ ہے۔ اس کے کردار بے یقینی کا شکار ہیں۔ جو ہمہ وقت گومگو کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ یہ کردار انتشار سے ٹکرا کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ جو وقت پر فیصلے کی قوت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ تقدیر کے زیر اثر ہیں۔ جب کہ شاہ کے کردار اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ شیکسپیئر کے ہیملٹ کا اعصابی خلل اور شاہ کے عمر سومرو کی ذہنی بیداری، دو متضاد رویے ہیں۔ بالکل اسی طرح کنگ لیئر کا جنون اور جام تماچی کی ہوشمندی، میکبتھ کی خودسری اور پنہوں کی کسر نفسی، اوتھیلو کا حسد اور میھار کی فراخدلی، رومیو جیولیٹ کی شکستگی اور موت جب کہ سسی کی ہار میں بھی جیت کا عنصر شاہ کو شیکسپیئر پر حاوی کر دیتا ہے۔ شیکسپیئر کے کردار بے یقینی کی کیفیت میں تباہی کے راستے پر چل نکلتے ہیں جب کہ شاہ کے کردار یقین کامل کو ساتھ لے کر حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ شیکسپیئر کے فکر میں محب کی گہرائی ہے۔ زندگی کی بے ثباتی کا دکھ ہے۔ راکھ میں دبی ہوئی چنگاری کی سی کیفیت ہے۔

میری محبت سمندروں کی طرح لامحدود ہے
میری محبت حد درجہ گہری ہے کہ میں اسے
جتنا بانٹتا ہوں اور بھی گہری ہوتی چلی جاتی ہے
محبت اور سمندر گھٹتے نہیں دونوں لازوال ہیں

شاہ صاحب بھی محبت کو سمندر سے گہرا سمجھتے ہیں۔ تشنہ لبی کی انتہا شاہ کے پاس اتنی ہے کہ وہ سمندر کو بھی قطرہ سمجھتے ہیں۔

جل کے خاک ہوجاؤں' تڑپتا رہوں ڈھونڈتا رہوں
تن میں پیاس پریتم کی پی کر بھی تشنہ رہوں
گر سمندر بھی انڈیل لوں تو بھی سیراب نہ کرسکے

شیکسپیئر کی محبت فطرت کی مانند ہے جس میں عطا کرنے کا جوہر ہے۔ جو عطا کرتے نہ تھکتی ہے۔ زمین کا دامن کبھی خالی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شیکسپیئر کہتا ہے کہ ''فطرت کا لمس پوری دنیا کو قریب تر کر دیتا ہے'' دوسری جانب شاہ مجاز کے بھنور سے نکل کر عشق حقیقی کے راستوں کے پیچ و خم پار کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں وہ طالب کے روپ میں پیاس کا صحرا بنے بیٹھے ہیں۔ جل کے خاک ہونے میں زندگی کی نوید پاتے ہیں۔

آہن گر کی بھٹی میں شعلے رقص کناں
آتش عشق جلاتے ہیں یہ' بھڑکے آگ یہاں
جھونک دے جسم و جاں' خود کو کندن کر لے

شیکسپیئر ہجر سے خائف وصال کے سحر آگیں لمحوں کی تلاش میں بھٹکتا نظر آتا ہے۔ اس کے کردار ہجر کے بعد کی آگہی کو محسوس نہیں کر سکے۔ وہ ضرور یہ کہتا رہا کہ:

''محبت جو مجھ میں موسیقی اور اداسی بھر دیتی ہے''

مگر موسیقی اور اداسی سے آگے ذات کے کرب کی انتہا ہے، جو وجود کو پوری کائنات سے جوڑ دیتی ہے۔ شیکسپیئر کے کردار دنیاوی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ ذات کے پرپیچ راستوں سے باہر نکل کر لامحدود کا مشاہدہ نہ کر سکے۔ ایک روحانی خلا ان کرداروں میں مستقل محسوس ہوتا رہا ہے۔ شیکسپیئر کے کردار ہماری زندگی کے جیتے جاگتے کردار ہیں۔ جو ہمرشیا (کردار کی کمزوری اور بروقت فیصلے کی قوت سے محروم ہیں) کا شکار ہیں۔جب کہ شاہ کے کردار اپنے وجود کی روشنی سے پوری طرح باخبر ہیں۔ ماروی جسے عمر کوٹ کے حاکم عمر سومرو نے محل میں قید کیا تھا۔ وہ کسی طرح قیمتی کپڑوں، زیورات، لذیذ کھانوں سے نہ بہل سکی۔ اس قید و بند میں رو رو کر اس نے اپنا حال برا کر لیا۔ تھر کی مٹی کی مہک اسے بے اختیار اپنی طرف کھینچتی رہی ہے۔

وہیں آسائش قلب و نظر ہے
جہاں ان ماروؤں کی رہگزر ہے

بالآخر عمر بادشاہ ماروی کی ضد کے آگے ہار جاتا ہے۔ اور وہ اپنے سیدھے سادے ماروؤں سے جا ملتی ہے۔ شاہ کی شاعری میں دکھ کی کیفیت اور پیاس فہم و ادراک میں بدل جاتی ہے۔ دکھ سے انسانی حس جلا پاتی ہے۔ باطن کی آنکھ کا کھل جانا شاہ کی نظر میں غم کا عرفان ہے۔ اسی لیے محبت کرنے والے دکھ و ہجر کی کیفیت سے نہیں گھبراتے۔

دان بنے ہے دکھ کا کارن' بن بھکشا مسکائیں
صوفی وہ کہلائیں' جن کی جھولی خالی

شیکسپیئر کی زرمیہ داستانیں خیال کی گہرائی اور تسلسل میں منفرد ہیں۔ رومیو اور جیولیٹ میں رومیو کہتا ہے یہ روشنی کیا ہے جو دریچے سے آتی ہے۔

(جیولیٹ کھڑکی میں نظر آتی ہے)
یہ وہ مشرق ہے جس میں جیولیٹ خورشید سی ہے
نکل خورشید تاباں ختم کر دے ماہ حاسد کو
حسد سے چاند کے چہرے پر بیماری ہے زردی ہے
محیط آسماں کے وہ نہایت خوشنما تارے
وہ آنکھیں واں چلی جائیں' ستارے رخ پر آجائیں تو کیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں