مدد چاہتی ہے
حکمران عوام کو بے روزگار کرکے برائیوں کی جانب دھکیلتے ہیں۔ پھر وہ جیل سے نکل کر ٹھپہ دار اخلاقی مجرم بن جاتے ہیں۔
PESHAWAR:
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
طبقاتی نظام یعنی ریاست کے وجود میں آنے سے قبل خواتین نہ صرف آزاد تھیں بلکہ تمام تر شعبہ جاتی کام انجام دیتی تھیں۔ پہلی صدی میں ناروے کے بحری قزاق خانہ بدوشوں نے بریٹون (موجودہ برطانیہ)پر حملہ کیا۔ مادر وطن کی حفاظت کے لیے خواتین نے دو لاکھ 23 ہزار خواتین کی فوج تشکیل دی جس کی کمانڈ عظیم انقلابی خاتون ''بودیکا''نے کی تھی۔
انھوں نے حملہ آوروں کے خلاف بڑی جرأت مندانہ جنگ لڑی۔ انھیں اس جنگ میں شکست ہوئی اور 80ہزار خواتین کا قتل ہوا۔ بودیکا کے ساتھ زیادتی بھی کی گئی۔ اسی طرح 1871 کی پیرس کمیون جوکہ مزدوروں کا دنیا میں پہلا انقلاب تھا۔ جب بورژوازی (سرمایہ دار) نے مزدوروں کے انتظام میں چلنے والا خطہ پیرس کمیون پر شب خون مارا تو 80 ہزار خواتین اور بچوں نے پیرس کمیون کے دفاع کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ اسلحے کی پیداوار اور اس کی ترقی سے فاتحین پیدا ہوتے ہیں۔
فاتحین قتل کرتے ہیں ریپ کرتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں۔ یعنی مفتوح میں خواتین جنس کے طور پر استعمال ہوتی ہیں اور آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ استحصال اور زیادتی خواتین کے ساتھ برصغیر میں ہوتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال 6,000 خواتین، لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ زیادتی اور قتل ہوئے۔
کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ 2/3 خواتین، لڑکیوں یا لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں نہ ہوتی ہوں۔ جنسی درندگی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ملتان، قصور، لاہور، فیصل آباد اور اوکاڑہ کے علاقوں میں مزید 5خواتین اور 3 بچے اوباشوں کی درندگی کا نشانہ بن گئے۔ لاہور کے نزدیک مانگا منڈی میں 5افراد نے خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ پولیس نے نامزد ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ فیصل آباد کے اوباش افراد نے دو خواتین اور دو کم سن بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ سلیمانیہ کالونی، غلام محمد آباد میں 11 سالہ لڑکے کو ملزم نواحی گاؤں 103ج ب میں، 9 سالہ لڑکے کو محلے دار چک نمبر 193گ ب میں، ملزم نے خاتون جب کہ 558گ ب میں ایک خاتون کو ملزم نے ایک ڈیرے پر لے جا کر ہوس کا نشانہ بنایا۔
پولیس نے نامزد ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شروع کردیے ہیں۔ دریں اثنا ملتان میں تھانہ بستی ملوک کے علاقے میں اوباش شخص نے 18سالہ لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا اور پولیس نے لڑکی(س) کے بیان پر ملزم کو گرفتار کرکے کارروائی شروع کردی ہے۔ قازقستان کی غیر ملکی خاتون نے پاکستان میں شادی کرلی تھی۔ جب اس پاکستانی کی بیوی سیوٹلیہ نے مکان اپنے نام کرنے کا مطالبہ کیا تو اس کے شوہر نے اپنے ملازم سے مل کر اس کا گلا دبا کر قتل کر دیا تھا اور اسے خودکشی کا رنگ دے دیا تھا۔
اب پولیس نے پوسٹ مارٹم کرکے یہ ثابت ہونے پر کہ اس نے خودکشی نہیں کی بلکہ اسے مارا گیا ۔ ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ ادھر ڈاکٹر ماہا کے ملزمان کی عبوری ضمانت میں توسیع کردی گئی ہے۔ ماری پور، گریکس، مسلم کالونی میں 23 سالہ لڑکی کے شوہر نے اپنی بیوی کو گلا دبا کر قتل کردیا، پولیس ملزم کو ابھی تک گرفتار نہیں کر پائی ہے۔ کراچی کے علاقہ اتحاد ٹاؤن اور سرائے سدھو میں 2 معذور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آئے۔
5سالہ مروہ کے اغوا، زیادتی اور قتل سے متعلق پولیس نے دو گرفتار ملزمان کے اعترافی بیان عدالت میں جمع کروائے۔ اعترافی بیانات میں فیض عرف فیضو اور اس کا دوست عبداللہ نے بچی کو اغوا کیا تھا۔ اغوا کے بعد مروہ کو اپنے گھر لا کر باری باری زیادتی کا نشانہ بنایا اور قتل کیا۔ گزشتہ دنوں سہراب گوٹھ کراچی سے اغوا کی جانے والی کم سن بچی بازیاب کرا لی گئی۔
بلوچ کالونی میں بیوی کو قتل کرکے خودکشی قرار دینے سے متعلق مقدمے میں ملوث شوہر اور دوست کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزمان نے بیوی کو قتل کرکے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی، موقع پر موجود شواہد خودکشی کی نفی کر رہے ہیں۔
تفتیشی افسر نے استدعا کی کہ ملزمان کا 14 روز کا ریمانڈ دیا جائے۔ مگر عدالت نے ملزمان کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ مقتولہ اریبہ کی والدہ نے غیر رسمی گفتگو میں بتایا کہ ہمیں ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے، ہماری ویڈیو بنائی جا رہی ہے، مقدمے سے پیچھے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم بیٹی کے قاتلوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ تونسہ شریف، تھانہ ریتزہ کے علاقے بستی لاشاری میں دو بچوں کی ماں کو دو افراد نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ میاں بیوی مل کر کم سن بچیوں کو اغوا کرکے ٹھٹھہ لے جاتے اور ان کے ساتھ زیادتی کرنے کے الزام میں چھاپہ مار کر دونوں میاں بیوی کو گرفتار کرلیا گیا۔
انھیں جناح اسپتال کراچی سے بچی کو اغوا کرکے ٹھٹھہ جاتے ہوئے دھابیجی سے گرفتار کیا گیا۔ بلدیہ ٹاؤن، سعید آباد میں شوہر نے فائرنگ کرکے بیوی اور ساس کو قتل کردیا۔ وجیہا کی حمزہ سے شادی کو 2 سال ہوئے تھے۔ یہ علاقہ مدینہ کالونی تھانے کی حدود میں واقع ہے۔ یہ واقعات پہلے سے کہیں زیادہ ہو رہے ہیں۔ ایسا کیوں؟ درحقیقت اس طبقاتی نظام میں جب ایک جانب ارب پتیوں کے جھنڈے تو دوسری طرف کروڑوں بے کس، فاقہ کش، بھوک اور افلاس سے نڈھال لوگ کیا کریں۔ کوئی ڈاکے ڈالتا ہے، کوئی چوری کرتا ہے، کوئی گداگری کرتا ہے، کوئی زندگی سے مایوس ہوکر منشیات نوشی کرتا ہے، کوئی عصمت فروشی کرتا ہے، چھینا جھپٹی وغیرہ میں ملوث ہو جاتا ہے۔ جہاں طبقاتی خلیج زیادہ ہے وہاں بدامنی بھی زیادہ ہے۔
جیساکہ امریکا، ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور نائیجیریا وغیرہ میں ہو رہا ہے۔ حکمران عوام کو بے روزگار کرکے برائیوں کی جانب دھکیلتے ہیں۔ پھر وہ جیل سے نکل کر ٹھپہ دار اخلاقی مجرم بن جاتے ہیں۔ اگر لوگوں کے پاس گھر ہو، روزگار ہو، جینے کا سہارا ہو، مستقبل کی فکر نہ ہو تو وہ اس قسم کے کرائم میں نہیں جاسکتے۔ یہ سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام لوگوں کو بے روزگار کرکے کرائم کی جانب دھکا دیتا ہے۔ جب ریاست کا وجود نہیں تھا تو طبقاتی نفرتیں اور چند لوگوں کے ہاتھوں میں دولت اکٹھی نہیں ہوتی تھی۔ سب مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کر بانٹ لیتے تھے۔
آج بھی دنیا کے 70 محلے، کوچے، گلیوں، ضلعوں، صوبوں، شہروں اور خطوں میں بے ریاستی غیر طبقاتی نظام یعنی اجتماعی کمیون موجود ہیں۔ جہاں کوئی بے روزگار ہے، کرائم ہے، جنسی تشدد ہے، ڈاکے ہیں، قتل و غارت گری اور نہ ذاتی ملکیت کا تصور۔ یہ کمیون سیکڑوں میں کہیں لاکھوں میں اور کہیں کروڑوں میں آج بھی موجود ہیں۔ میکسیکو کی حکومت نے تیس علاقوں میں خودمختار کمیون بنانے اور چلانے کی اجازت دے رکھی ہے۔
ویت نام سے چین ہوتے ہوئے افغانستان تک بسنے والی 10 کروڑ کی آبادی کمیون کی شکل میں رہتی ہے۔ یہاں کوئی فوج ہے، پولیس ہے، ریاست ہے، حکومت ہے، عدالت ہے، میڈیا ہے اور نہ ملکیت۔ سب مل کر پیداوار کرتے ہیں اور مل کر بانٹ لیتے ہیں۔ یہاں کوئی جاسکتا ہے اور آسکتا ہے، کوئی پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر۔ یہاں جنس، رنگ و نسل، فرقہ، مذہب اور لسان کی بنیاد پر تفریقات کی کوئی گنجائش نہیں۔ کل وہ دن ضرور آئے گا جب ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، چہار طرف یکجہتی اور محبتوں کے پھول کھلیں گے۔