سنجیدہ سوالات اُٹھ رہے ہیں
آج سے پہلے اس ملک میں ایسا نہیں تھا ، اگر تھا بھی تو اتنا منظر عام پر نہیں تھا۔
مجھے قبائلی علاقے میں کام کرنے کا خاصا تجربہ ہے۔بلوچستان کے ایک ضلع میں پولیٹیکل ایجنٹ تھا کہ ضمنی الیکشن کی افتادآن پڑی۔دوسیاسی اتحادی، جو دراصل اندرسے مخالف تھے،میدان میں اُترپڑے۔ یعنی ن لیگ اور جے یو آئی (ف) ۔قبائلی علاقے کی سیاست بہت پیچیدہ ہے۔
سیاسی دبائوتوخیراس ملک میں ہر وقت،ہرسرکاری افسرپرہوتا ہے تاہم بلوچستان میں پنجاب سے وہاں تعینات ہونے والے سرکاری افسروں کاغیرجانبدار رہناکافی آسان ہے۔مگر پنجاب میں پنجابی افسروں کاغیرجانبداررہناناممکن ہے۔ کانٹے دارمقابلہ میں جے یو آئی صوبائی نشست جیت گئی۔ جمعیت العلماء اسلام کاانتخابی نشان ''کتاب'' تھا۔ان کے جلسوں، جلوسوں میں مقررین حضرات اپنی جماعت کے انتخابی نشان کو مذہبی رنگ میں بیان کرتے تھے۔
قبائلی علاقوں میں ترقی نہ ہونے کے برابرہے اور مذہبی رجحان بہت زیادہ ہے۔چنانچہ ووٹرز کی مذہبی جذباتیت کو الیکشن جیتنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ پولنگ سے تین دن پہلے افغانستان سے اَن گنت لوگ ضلع میں آگئے۔ سب کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ تھے ۔آپ پاکستانی شناختی کارڈکی موجودگی میں کسی کوبھی ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم نہیں کر سکتے۔ یہ تمام لوگ ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
معلوم ہواکہ یہ سلسلہ تو1977کے بعد تقریباً ہر الیکشن میں جاری وساری رہتاہے۔چنائوسے کچھ عرصہ پہلے، افغانستان کے یہ باشندے، پاکستانی قبائلی علاقوں کے ہر انتخابی حلقے میں آتے ہیں اورپاکستانی شناختی کارڈکے ذریعے ووٹ ڈال کرواپس چلے جاتے ہیں۔ جے یو آئی کی لیڈرشپ نے جلسوں میں تقاریر کے دوران اپنے امیدوار کو جتوانے کے لیے مد مقابل امیدوارکو سیکولر یا مذہب بیزار قرار دینے کے سواکچھ نہیں کہا۔
وہی حربہ آج عمران خان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔یہ 1998 کا دور تھا۔ بہرحال،اس الیکشن نے قبائلی علاقوں میں چنائوکے متعلق وہ براہِ راست تجربہ فراہم کیا،جو بہت کم سرکاری افسروں کے پاس ہے۔
مقصدیہ ہے کہ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت یاگروہ اُصولی سیاست نہیں کررہے ہیں۔ مذہبی جماعتیں اپنی سیاست چمکانے کے لیے کھلے عام مذہب کارڈ استعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ دیگر جماعتیں، اپنااپناآدھاسچ بول کر عوام اور ووٹرز کوبیوقوف بنانے میں مصروف ہیں۔حالیہ چندماہ میں سیاست میں چند مزید مگر پیچیدہ عوامل شامل ہونے سے ملکی نظام پردبائوبڑھ رہا ہے۔ ہماری چند سیاسی جماعتیں اپنے ملک کے بجائے غیرملکی مفادات کے تابع سیاست کررہی ہیں۔
آج سے پہلے اس ملک میں ایسا نہیں تھا ، اگر تھا بھی تو اتنا منظر عام پر نہیں تھا۔اب حکومت حاصل کرنے کا مقصد عوامی خدمت تو ہے نہیں، مقصدصرف ایک ہے، عوام کو سہانے خواب دکھاکر اقتدار حاصل کرنا اور پھر قومی خزانے سے جیبیں بھرنا۔ اب کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت میں کوئی فرق نہیں رہا۔یہ صورتحال پاکستان کی وحدت اور سالمیت کے لیے انتہائی گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔ سیاستدانوں اورسیاست کوانتہائی نزدیک سے دیکھنے کے باوجود میں اس موضوع پر کم لکھتاہوں۔ مگر اب ہر محب وطن کے لیے خاموش رہنادرست نہیں ہے۔
کیا یہ سوچنے کی بات نہیںکہ جو بھی سیاستدان پاکستان سے بھاگتا ہے، وہ صرف لندن ہی کیوں جاتاہے؟جواب آسان نہیں ہے۔ بانی ایم کیو ایم کی بات جانے دیجیے،وہ توزندہ ہی برطانوی اداروںکے طفیل ہے۔مگرنوازشریف جو تین دفعہ ملک کا وزیراعظم بنا،انھوں نے لندن میں قیام کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ عام طورپرگمان ہے کہ یوکے میں حددرجہ شفافیت ہے۔ یہ بات درست بھی ہے۔مگرجہاں برطانیہ کے قومی اور عالمی مفادات کامعاملہ آتاہے، پھر وہاں کسی بھی حکومت کاکوئی اُصول نہیں۔
نوازشریف کوپاکستان کے عدالتی نظام نے سزا سنائی ہے۔ان پراورانکے پورے خاندان پر سنگین الزامات پر مبنی مقدمات موجودہیں۔ مگرپھربھی وہ لندن کے ''شفاف''نظام میں بڑے آرام سے رہ رہے ہیں۔یہ وہ نکتہ ہے جس پر سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہیے۔برطانیہ،امریکا کاسب سے قابل اعتماد حلیف ہے۔یہ صرف برطانوی حکومت ہی کافیصلہ نہیں ہے بلکہ امریکا کی تائید بھی شامل ہوسکتی ہے۔ غور کیجیے۔ برطانوی ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل کاتعلق ہندوستان سے ہے۔
برطانوی،اٹارنی جنرل،سویلابریورمین کا تعلق بھی ہندوستان سے ہے۔ہوم ڈیپارٹمنٹ اور عدالتی نظام کی سرخیل خواتین براہِ راست ہندوستان سے منسلک ہیں۔آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کبھی پاکستان کے حق میں کوئی فیصلہ کریں گی۔ مجھے تو لگتا ہے کہ نوازشریف لندن میں بالکل محفوظ ہیں۔موصوف کھل کر اپنے دوستوں سے رابطے میں ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ نوازشریف ایک قومی سیاستدان ہیں۔ انھیں بیرونی دوستوں یا ہمدردوں کی مدد حاصل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟کیوں وہ ملک میں سیاسی ہلچل مچانے کے آپشن کی طرف جارہے ہیں؟
اب میں وزیراعظم عمران خان کے بیانیے کی طرف آتاہوں۔یہ درست بات ہے کہ عمران خان چند ناعاقبت اندیش دوستوں میں گھراہواہے۔ مہنگائی وزیراعظم کے سیاسی مستقبل کو تقریباً برباد کرچکی ہے۔ مگر سلیکٹڈکاالزام توپاکستان کے ہروزیراعظم پر لگا ہے۔ کیانوازشریف،محمدخان جونیجو،شوکت عزیز، ظفر اللہ جمالی اورمعذرت کے ساتھ بینظیربھٹواوران کے والدگرامی کے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں نہیں ہوتی رہیں؟
اگرن لیگ واقعی یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن میں انھیں دھاندلی سے ہرایاگیاہے تو وہ عدالتوں سے رجوع کیوں نہیں کرتی ؟کہیں ایساتونہیںکہ ان کے پاس اپنے اس بیانیے کے ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔آج تک ن لیگ نے الیکشن کمیشن اورذیلی اداروں میں دھاندلی کے خلاف کتنی پٹیشنزدائر کی ہیں؟کہیں ایساتونہیں کہ صرف الزامات کے زورپرایک منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کی تیاری ہورہی ہے۔اس وقت عمران خان کی مقبولیت میں واضح کمی آچکی ہے۔
ن لیگ ان حالات میں عدالت عظمیٰ میں دھاندلی کامقدمہ لے کر جائے اور قانونی جنگ میںفتح یاب ہو؟ ایسا نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں، شاید یہ بات صرف میاں صاحب ہی کو معلوم ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف کے اکثراکابرین بھی اس میدان میں ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے لوگوں سے کم نہیں۔مجھے کے پی کااندازہ نہیں۔مگرپنجاب میں کوئی بھی بڑاکام،رشوت دیے بغیرنہیں ہورہا۔یہ بات '' دوستوں''کوبھی معلوم ہے اوروہ اس پر خفا بھی ہیں۔ لیڈراپنے فیصلوں سے عظیم گردانے جاتے ہیں۔
نوازشریف،عدالتی اورانتظامی نظام کوجل دیکر لندن تشریف لے گئے، اب وہ واپس آنے کے لیے تیار نہیں۔کیاایک عظیم لیڈرکا طرز عمل ایسا ہی ہونا چاہیے؟ دعوے سے عرض کرسکتاہوں۔اگرمیاں صاحب، واپس پاکستان آجاتے ہیں،توزیادہ سے زیادہ انھیں ''پابندِ سلاسل''کردیاجائے گا۔مگر ان کی سیاسی طاقت اور عظمت میں جس قدراضافہ ہوگا،اس کااندازہ لگانا مشکل ہے۔وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ میاں صاحب، پاکستان آکرسیاست میں فیصلہ کن کرداراداکرسکتے ہیں۔مگران کے مشیرانھیں یہ دانشمندانہ سیاسی قدم اُٹھانے سے روک رہے ہیں۔ان کے مشیران گرامی نے انھیں جس راستے پرروانہ کردیاہے۔یہ حددرجہ خطرناک ہے۔
میاں صاحب کویہ سوچناچاہیے کہ کیاریاستی اداروں سے لڑائی پاکستان کے مفادمیں ہے؟ ہرگز نہیں اورپھرتان دوبارہ مولانافضل الرحمن پرٹوٹتی ہے۔ وہ ایک جید اور قابل احترام مذہبی رہنما ہیں۔ مگر وہ اتنا آگے کیوں بڑھ رہے ہیں ؟اس کا جواب بھی انھی کے پاس ہے ۔میں یہی کہہ سکتا ہوں دیکھیے آگے کیاہوتاہے؟ممکن ہے کچھ ایسا ہوجائے جس سے سیاست کی بساط ہی اُلٹا دی جائے؟