حکومت اور اپوزیشناپنی سیاسی جنگ میں عوام کو شکست مت دیں

نئی سیاسی جنگ میں جس کی بھی جیت ہو، شکست پاکستان کے عوام کو ہی ہو گی، ان کی امیدیں، امنگیں، حوصلے سب کچھ ہار جائیں گے۔


رضوان آصف October 07, 2020
نئی سیاسی جنگ میں جس کی بھی جیت ہو، شکست پاکستان کے عوام کو ہی ہو گی، ان کی امیدیں، امنگیں، حوصلے سب کچھ ہار جائیں گے۔فوٹو : فائل

پاکستان کی سیاست میں تبدیلی آرہی ہے، موسم بدلنے سے پہلے کے آثار واضح دکھائی دینے لگے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ''بادشاہ گروں'' کی مایوسی انتہا کو پہنچ رہی ہے اور وہ اس نتیجہ پر کافی حد تک متفق ہونے لگے ہیں کہ تبدیلی والے اپنے ناقص حکومتی طرز عمل کی وجہ سے عوام کے سامنے ''ڈیلیور'' کرنے سے معذور ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معاشی امور میں بھی عوام کو ریلیف ڈیلیور نہیں کر سکی اور سیاسی محاذ پر بھی وہ عوام کے درمیان اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو سنبھال نہیں پا رہی ہے۔

گزشتہ دو برس میں جتنا زور اس حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور گرانے کیلئے لگایا،اس کا نصف بھی حقیقی سنجیدگی اور دانشمندی کے ساتھ اپنی گورننس کو بہتر کرنے پر لگایا ہوتا تو آج عوام اپنی تمام تر معاشی مشکلات کے باوجود عمران خان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے۔ یہ تو بھلا ہو اپوزیشن کا کہ وہ اپنی اندرونی چپقلش اور رسہ کشی کے سبب حکومت کیلئے دو برس تک حقیقی اپوزیشن ثابت نہیں ہو سکی ورنہ اس حکومت نے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو تھالی میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

وزیر اعظم عمران خان کو ابھی تک یہ ادراک نہیں ہوا ہے کہ عوام کو ان کے احتساب کے نعرے سے نہیں اپنی معاشی بہتری سے غرض ہے۔ حکومت اور احتساب کرنے والے اداروں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے اہل خانہ و مقربین خاص کے خلاف بہت سے کرپشن کیسز بنائے ہیں جن میں سے چند ایک ایسے ہیں جن میں پیش کیئے جانے والے شواہد پر عوام کو بھی اعتبار ہے لیکن کیا حکومت نے اس نکتے پر غور کیا کہ اس کے باوجود حکومت کو عوامی پذیرائی کیوں حاصل نہیں ہو رہی،اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ گزشتہ دو برس سے ملک کا ہر شعبہ شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے۔عمران خان نے اقتدار سنبھالنے سے لیکر آج تک اپنی معاشی ٹیم میں متعدد تبدیلیاں کی ہیں لیکن ان کے تمام تر تجربات سسکتی ہوئی معیشت کو دوبارہ سے پاوں پر کھڑا کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

اعدادوشمار کے گورکھ دھندے اور کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی کو ثابت کرنے کیلئے پیش کیئے جانے والے خودساختہ دلائل کے باوجود آج پاکستان کا کوئی کاروباری فرد نہ تو مطمئن ہے اور نہ ہی خود کو محفوظ تصور کرتا ہے۔گلی محلے کی پرچون دکان سے لیکر ملک کے بڑے کارخانے کے مالک تک ہر تاجر و صنعتکار، سرمایہ کار اور چند ہزار روپے سے لیکر لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے تک ہر ایک پریشان ہے۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے جنگجو چاہے اپنی حکومت کے دفاع میں کوئی دلیل دیں یا گالی دیں لیکن اپنی عملی و حقیقی زندگی میں وہ بھی معاشی و سیاسی صورتحال کے پیش نظر حکومت سے مطمئن نہیں ہیں۔ تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک معاشی طور پر عوام مضبوط اور مستحکم نہیں ہوں گے تب تک وہ اس حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے ۔

70 سال تک بنا دستاویز کے چلنے والی معیشت کو چشم زدن میں آپ ڈاکومنٹڈ اکانومی میں تبدیل نہیں کر سکتے،دو سال میں آپ کی معاشی ٹیم بالخصوص آپکے خصوصی طور پر متعارف کروائے گئے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے یہ کرنے کی جتنی کوشش کی اتنا ہی معیشت کو مزید غیر مستحکم اور کمزور کردیا۔آپ مرحلہ وار سب کچھ کریں گے تو عوام اسے قبول بھی کریں گے اور ایک مرحلہ کی کامیابی دوسرے مرحلے میں عوام کو آگے بڑھنے کا مزید حوصلہ بھی دے گی۔

اب اگر سیاست کی بات کریں تو مختلف پارٹیوں سے آئے لوگ تحریک انصاف میں سیاسی استحکام نہیں لا سکے۔ اپوزیشن احتساب مقدمات میں الجھنے کے باوجود حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ بالخصوص میاں نواز شریف دو برس کی خاموشی کے بعد جس جارحانہ انداز میں میدان میں اترے ہیں وہ نہ تو چراغ بجھنے سے پہلے کی بھرپور ٹمٹاہٹ ہے اور نہ ہی عارضی ابال ہے۔

گزشتہ چند ماہ میں ظہور پذیر ہونے والی عالمی و ملکی تبدیلیوں کو بغور دیکھتے اور آپس میں جوڑتے جائیں تو ایک خاکہ سامنے آجاتا ہے۔ محترم جناب وزیر اعظم اپنے انٹرویوز میں چاہے جتنا بڑا دعوی کریں کہ وہ دیگر سیاستدانوں کی مانند ''اسٹیبلشمنٹ'' کی پیداوار نہیں ہیں لیکن ہر پاکستانی بخوبی یہ جانتا اور یقین رکھتا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کو مقتدر طاقتوں کی غیر معمولی حمایت حاصل رہی ہے اور تحریک انصاف کو اقتدار دلانے کیلئے الیکٹ ایبلز کی''کمک'' بھی اسی وجہ سے مہیا کی گئی تھی۔

یہ درست ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے طرز حکمرانی اور کرپشن کہانیوں کی وجہ سے بہت پریشان تھی اور اس نے ان جماعتوں کے قائدین کو براہ راست بھی سمجھایا اور بالواسطہ بھی کوشش کی کہ یہ راہ راست پر آجائیں لیکن بات نہیں بن سکی۔

میاں نواز شریف کا سیاسی سفر مقتدر طاقتوں کی حمایت سے ہی شروع ہوا تھا اور تین دہائیوں تک انہیں اور ان کی جماعت کو اسٹیبشلمنٹ کی اجتماعی یا پھر ایک بڑے گروپ کی حمایت حاصل رہی لیکن اسقدر حمایت نے میاں نواز شریف کو اس خوش فہمی کا شکار کر دیا کہ اب وہ اتنے طاقتور اور خودکفیل ہو چکے ہیں کہ انہیں اسٹیبشلمنٹ کی مدد کی محتاجی نہیں رہی، شاید اس خوش فہمی کو بڑھانے میں جنرل آصف نواز جنجوعہ اور جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ سرد جنگ کے نتائج بھی شامل تھے لیکن میاں صاحب کچھ زیادہ ہی ''خودمختار'' ہو گئے اور پرویز مشرف حکومت کے خاتمہ کو بھی انہوں نے اپنی فتح سمجھا حالانکہ حالات اور حقائق یکسر مختلف تھے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے طے کر لیا تھا کہ صدر جنرل پرویز مشرف کو اب جانا ہوگا۔

جسٹس افتخار چوہدری نے ایوان صدر میں ملاقات کے دوران جنرل پرویز مشرف کی جانب سے استعفی دینے کے مطالبے کو مسترد از خود نہیں کیا تھا اس ملاقات سے قبل انہیں''یقین '' دلایا گیا تھا کہ آپکے انکارکو ہماری حمایت حاصل ہو گی۔ عدلیہ بحالی کی تحریک میں میاں نواز شریف جب ماڈل ٹاون سے لانگ مارچ لیکر نکلے تھے تب بھی پولیس کمانڈ کو ''اوپر''سے یہ احکامات مل چکے تھے کہ میاں صاحب کو روکنا نہیں ہے۔

میاں صاحب کی سب سے بڑی غلطی اپنی صاحبزادی مریم نواز کی رائے کو اپنی سیاست پر حاوی کرنا تھا ورنہ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے میاں صاحب کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کی راہ سیدھی کر لی تھی لیکن ڈان لیکس کی ایک ضرب نے سب کچھ تباہ وبرباد کردیا۔اب بھی میاں صاحب کو ''کہیں'' سے کوئی خفیہ تھپکی ضرور ملی ہے جو وہ اسقدر جارحانہ سیاست کا نیا آغاز کر رہے ہیں لیکن ابھی یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اگر تبدیلی آتی ہے تو کیا ن لیگ یا پیپلز پارٹی کو دوبارہ موقع دیا جائے گا۔

میری رائے میں ایسا نہیں ہوگا، اسٹیبشلمنٹ اگر عمران خان سے عاجز آچکی ہے اور فیصلہ کر چکی ہے کہ آئندہ چند ماہ میں یہ حکومت اپنی گورننس کو بہتر نہیں بناتی اور ڈیلیور نہیں کرتی تو تبدیلی لانا ناگزیر ہے تب بھی ان کی چوائس روایتی سیاسی جماعتیں نہیں ہوں گی، تبدیلی ''ان ہاوس'' ہو یا ری الیکشن ہوں، امکان یہی ہے کہ ماضی کا کوئی چہرہ مسند اقتدار پر دکھائی نہیں دے گا۔ عمران خان کو بھی خطرات کا ادراک ہے اور ان کے حالیہ انٹرویوز اور بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی ٹکرانے کے موڈ میں ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ان کی حکومت کو فارغ یا تبدیل کرنے کا کوئی فیصلہ کہیں ہوا تو صرف چند اتحادی جماعتوں کے ارکان ادھر سے ادھر ہونا ہی کافی ہوگا، بغاوت کے مقدمات درج کروانے سے یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی، اس جنگ میں کچھ اصول سب کو وضع کرنا پڑیں گے۔

اس نئی سیاسی جنگ میں جس کی بھی جیت ہو، شکست پاکستان کے عوام کو ہی ہو گی، ان کی امیدیں، امنگیں، حوصلے سب کچھ ہار جائیں گے اس لئے حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ اس سرد جنگ میں پاکستان اور اس کے عوام کو ہر صورت محفوظ بنانا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں