بسنت کی واپسی
الحمرا آرٹ کونسل میں استاد اللہ بخش کی تصویروں کی نمائش تھی۔ حنیف رامے نے، جو اب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔۔۔
الحمرا آرٹ کونسل میں استاد اللہ بخش کی تصویروں کی نمائش تھی۔ حنیف رامے نے، جو اب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے، اس نمائش کا افتتاح کیا۔ تقریر کرتے ہوئے انھیں احساس ہوا کہ ارے وہ تو اچھے بھلے مصور تھے۔ نکل گئے سیاست کے کوچے کی طرف۔ تب انھوں نے اپنے ہمعصروں اور مداحوں کو یقین دلایا کہ میں اپنی تصویر ادھوری چھوڑ کر عوام کی خدمت کی نیت سے ادھر عوام کے کوچے میں نکلا ہوں۔ مگر میں واپس آؤں گا اور جو تصویر ادھوری چھوڑی تھی اس کی تکمیل کروں گا۔
ہم نے حق دوستی ادا کرتے ہوئے اس عزیز کو اپنے کالم میں خبردار کیا تھا کہ وقت' آرٹ اور سیلاب کسی کا انتظار نہیں کیا کرتے۔ عجب نہیں کہ جب تم واپس آؤ تو پتہ چلے کہ اس دوران کوئی تیز رو نوجوان اپنا برش لے کر آیا اور اس ادھوری تصویر کو مکمل کر کے اپنی مہر لگا کر آگے چلا گیا۔
اور اب ہمیں گمان ہو رہا ہے کہ بسنت بہار نے بھی چند سال انتظار کر کے وہی راہ اپنائی کہ بہت انتظار کر لیا۔ تو نہ سہی اور سہی۔ سفر شرط ہے۔ مسافر نواز اور بھی ہیں۔ سو بسنت رت کے آتے آتے بسنت بہار نے جھرجھری لی اور سندھ کی طرف نکل گئی۔ وہاں سے خبر آئی کہ اے اہل لاہور تمہیں کچھ بسنت کی بھی خبر ہے۔ وہاں سندھ میں بلاول بھٹو نے بڑی دھوم سے سندھی ثقافت کے جشن کا اعلان کیا ہے۔ اس جشن کا اعلان کرتے ہوئے موہنجو داڑو سے چلے اور بسنت بہار تک آئے۔ اعلان کیا کہ یہ فروری کا مہینہ ہو گا۔ بسنت بھی منائی جائے گی اور پتنگیں بھی اُڑائی جائیں گی۔ اور اس کے لیے علاقے کی تخصیص کر دی کہ سمندر کنارے جاؤ اور اس کھلی فضا میں پتنگ اڑاؤ۔ اس سے حادثوں کا امکان بہت کم ہو جائے گا۔
اس کے بعد اگر لاہور نے جھرجھری لی تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے ع
آپ نے یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا
یہی کہ بھلے دنوں میں بسنت جشن ہم بھی منایا کرتے تھے اور اس دھوم سے مناتے تھے کہ ہوتے ہوتے اس جشن نے اچھی خاصی بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی۔ ادھر سمندر پار سے امریکا سے' کینیڈا سے' انگلستان سے من چلے پاکستانی آباد کار ہی اس موقعہ پر اس شہر میں وارد نہیں ہوتے تھے۔ ان کے آگے پیچھے ادھر سے سیاح بھی آنے شروع ہو گئے۔ یار بتاتے ہیں کہ اس سے لاہور میں کاروباریوں کا کاروبار بہت چمک گیا۔ ہوٹل والوں کی تو چاندی ہو گئی۔ پتنگ سازی کی صنعت نے بھی بہت فروغ پایا۔ پتنگ سازوں کی قسمت نے کیا خوب یاوری کی۔ کس کس کو روز گار میسر آیا۔ شہر میں ان دنوں خوب امی جمی رہتی۔
مگر مفتیوں مولویوں کو یہ امی جمی ایک آنکھ نہیں بھائی۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
لہو و لعب اور ایسا کہ اس سے کفر کی بو آتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ تو ہندوؤں کا تیوہار ہے۔ یاروں نے لاکھ کہا کہ سرسوں کا پھول بس اپنی رت کو پہچانتا ہے اور کھل اٹھتا ہے۔ باقی وہ نہ ہندو ہے نہ مسلمان ہے۔ اگر اس سے رنگ چرا کر کوئی بسنتی بانا اوڑھ لے اور بھجن الاپنے لگے تو یہ وہ جانے اس کا مذہب جانے۔ وہ اس دھرتی کے قدیم باشندے۔ یہاں کی رتوں کو وہ نہ پہچانتے تو اور کون پہچانتا۔ پھر مسلمان یہاں آ کر شاد آباد ہوئے۔ اپنی سلطنتیں قائم کیں۔ اپنی خانقاہیں آباد کیں' یہاں کی آب و ہوا انھیں راس آنے لگی اور یہاں کے موسموں نے جاڑے گرمی برسات نے' پت جھڑ نے' گل پھول نے۔ ساون بھادوں کی جھڑی نے ان کی طبیعتوں میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کیا اور بسنت رت آنے پر ان کی آنکھوں میں بھی سرسوں پھولنے لگی۔ اگر تھوڑا حجاب تھا تو وہ صوفیوں نے دور کر دیا۔ کم از کم بائیس خواجہ کی چوکھٹ دلی میں تو ایک صوفی ہی کے اشارے پر مسلمانوں نے بسنت میلہ میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔ وہ صوفی تھے حضرت نظام الدین اولیا اور ان کے مرید حضرت امیر خسرو۔ پھر جتنے صوفیا کے مزار اور خانقاہیں اتنی ہی بسنتیں' اتنے ہی بسنتی میلے اور بسنتی قوالیاں۔ تو اس فصلی بہار پر ہندوؤں کی اجارہ داری تھوڑا ہی تھی۔ مسلمانوں نے اسے اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ پنجاب میں اس کا مسلمانی آغاز کب اور کیسے ہوا' یہ مجید شیخ بتائیں گے۔ پنجاب کی ثقافتی' سماجی تاریخ پر تو وہی سند ہیں۔ ہمیں تو لاہور میں بسنت کی صحیح معنوں میں اس وقت خبر ہوئی جب چھتوں پر اور گلیوں میں بو کاٹا کا شور پڑا۔ اور بسنت بہار چولا بدل کر بسنت فیسٹیول بن گئی۔
لیکن اتنی رونق پکڑنے کے بعد پتنگ بازی میں ایک فاؤل ہو گیا۔ ارے کتنے زمانے سے پتنگ بازی ہو رہی تھی۔ پتنگ بازی خالی ڈور پر بھروسہ کرتے تھے۔ ہاں لگدی میں سونت کر اسے مانجھا بنا لیتے تھے اور خوب پیچ لڑاتے تھے۔ یہ کس ستم ایجاد کی منحوس ایجاد تھی کہ ڈور کی جگہ تار باندھ کر پتنگ اڑاؤ اور اسے کٹنے سے بچاؤ۔ اس تار نے ستم ڈھایا۔ یہ تار ملی ظالم ڈور جس کے گلے کو چھو گئی وہ جان سے گیا۔
اس پر شور پڑنا ہی تھا۔ مگر یہ مسئلہ تو انتظامیہ کی توجہ مانگتا تھا۔ پنجاب کی وہ کیسی انتظامیہ تھی کہ ڈور کے ان تاجروں پر قابو نہیں پا سکی۔ یا خود پولیس کی نیت میں کھوٹ تھا۔ یا ارباب بست و کشاد نے سوچا کہ مولوی ہی ٹھیک کہتے ہیں۔ پتنگ بازی پہ پابندی لگاؤ۔ بسنت میلہ خود بخود اجڑ جائے گا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سوموٹو نے بھی اسی رنگ سے منصفی کی۔ ایک تجویز یہ آئی کہ ڈور بیچنے والوں پر آپ کا بس نہیں چلا تو اتنا کرو کہ پتنگ بازی کے لیے کوئی کھلا میدان کوئی پارک مخصوص کر دو مگر انھیں پابندی والا ہی نسخہ بھایا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
بس دیکھتے دیکھتے بسنت بہار پہ خزاں آ گئی۔ کھیل ختم پیسہ ہضم۔ اب برسوںبعد حکومت پنجاب کو اپنا معتوب تیوہار یاد آیا ہے۔ شاید وزیر اعلیٰ کے جواں سال صاحبزادے حمزہ صاحب کی تحریک پہ یہ سوچا گیا ہے کہ بسنت میلہ کی پھر تجدید کی جائے۔ پتنگ بازی سے پابندی اٹھائی جائے مگر کچھ شرائط کے ساتھ۔ مثلاً یہ کہ بیشک پتنگ اڑاؤ مگر لاہور سے گزرو اور چھانگا مانگا کے جنگل میں جا کر اڑاؤ۔ مت سوچو کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ پتنگ کے شوقین اڑ کر وہاں پہنچ جائیں گے۔ اور ہاں جلو پارک بھی تو ہے۔ وہاں جا کر بھی یہ شوق پورا کیا جا سکتا ہے۔
یارو پتنگ بازو' جو رعایت مل رہی ہے اسے غنیمت جانو کہ ع
یہاں تک تو پہنچے یہاں تک تو آئے